60 لاکھ نئے افراد کا بھی حساب رکھیں

تقریباً سال ہو گیا ہے جب ''روز نامہ دنیا‘‘ میں لکھا تھا کہ آبادی میں سالانہ کُل اضافے کی بنیاد پر پاکستان ‘بھارت کے بعد‘ دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ تب اس بات پر لوگوں کا رد عمل یا فیڈ بیک تعجب بھرا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے‘اگر ایسا ہے تو چین کی آبادی میں سالانہ اضافہ کہاں گیا، مطلب ایک ارب چالیس کروڑ آبادی والے ملک میں سالانہ اضافہ بائیس کروڑ والے پاکستان سے بھی کم ہے؟ پاکستان میں سالانہ اضافہ اتنا زیادہ کیسے ہو سکتا ہے؟اب اس معاملے کو دوبارہ واضح کر لیتے ہیں۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ پاکستان میں آبادی میں سالانہ اضافہ 55 سے 60 لاکھ تک ہوتا ہے جبکہ چین میں سالانہ اضافہ پچاس لاکھ سے بھی کم ہے۔ اب اس بات کو دہرانے کا مقصد آپ کو سمجھ جانا چاہئے۔ حکومت نے رواں سال ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کے اعدادوشمار جاری کر دیے ہیں‘اس کے مطابق پاکستان کی آبادی 24کروڑ سے زائد ہو چکی ہے اور اس میں سالانہ اضافے کی شرح2.55 فیصد ہے۔ اب یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اس شرح سے پاکستان کی آبادی میں سالانہ اضافہ 60 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ رہی بات دنیا میں سالانہ سب سے زیادہ اضافے والے ملک کی تو یہ بوجھ نما اعزاز بھارت کے پاس ہے جہاں سالانہ ایک کروڑ ستر لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے؛ تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ بھارت کی آبادی میں اضافے کی شرح 0.81 فیصد ہے۔ بھارت میں مردم شماری کا سال 2021ء تھا لیکن کورونا کی وجہ سے یہ نہیں ہو سکی، کورونا کی وباکے بعد ابھی تک اس سلسلے میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
حساب ہوگا تو ہی انتظام ہوگا
میرے کالموں کے حوالے سے لوگ تواتر سے کہتے ہیں کہ آپ باتیں بہت خطرناک اور ڈرانے والی کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہی ہے کہ جو کچھ ہوتا رہا ہے، جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ (کم از کم مستقبل قریب میں) ہونے والا ہے‘ جب ان چیزوں کے حوالے سے خرابی کا تدارک تو دور‘ اگر ان کو خرابی تصور ہی نہ کیا جا رہا ہو تواچھی خبر کہاں سے آئے گی۔ اس قدر خطرناک شرح سے بڑھتی آبادی کو قومی سطح پر ایک خرابی‘ جو در اصل متعدد خربیوں کی جڑ ہے‘ مسئلہ ہی نہ مانا جائے تو اس کے تدارک کا کوئی کیسے سوچ سکتا ہے۔ اتنی تیزی سے بڑھتی آبادی کی وجہ سے جو سب سے بڑا نقصان ہو رہا ہے وہ زرعی زمین کا انتہائی تیزی سے رہائشی کالونیوں میں تبدیل ہونا ہے۔ آبادی میں سالانہ ساٹھ لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ان ساٹھ لاکھ لوگوں کے لیے سالانہ اوسطاً دس لاکھ گھروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپ اس تخمینے کو نصف کر کے پانچ لاکھ بھی کر لیں اور ایک گھر کا اوسط رقبہ صرف پانچ مرلے شمار کریں تو آپ کے سامنے ہوشربا حقیقت آئے گی کہ سالانہ کتنے ہزار ایکڑ زمین محض آبادی میں اس اضافے کے لیے چاہیے۔ جب زرعی زمین کی جگہ رہائشی کالونیاں بنتی ہیں تو علاقے کے سبزے میں کمی آجاتی ہے اور سبزہ کم ہونے سے ہوا میں آکسیجن کی مقدار کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھنا شروع ہو جاتی ہے جس سے سانس لینے کے لیے محفوظ اور صحتمند ہوا کمیاب ہو جاتی ہے۔ سر سبز علاقوں میں کمی کے علاوہ ایسے علاقوں میں پانی کی زیرِ زمین سطح مزید نیچے جانا شروع ہو جاتی ہے۔
آپ یو ٹیوب پر امریکی ادارے ناسا کے ماہرین کی وڈیوز دیکھیں تو پتا چلے گا کہ جنوبی ایشیا دنیا کا وہ علاقہ ہے جہاں زیرِ زمین پانی کی مقدار نہایت خطرناک شرح سے کم ہو رہی ہے۔ لوگ دیہات سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کا ایک بھیانک پہلو اکتوبر سے لے کر فروری کے اختتام تک‘ پورے جنوبی ایشیا کی فضا میں چھا جانے والی زہریلی دھند‘ سموگ ہے۔ اس زہریلی دھند اور سارا سال خطر ناک حد تک آلودہ رہنے والی ہوانے اس خطے کی لوگوں کی اوسط عمر کو واپسی کا گیئر لگا دیا ہے۔ دنیا کے اگر پچاس آلودہ ترین شہروں کی فہرست نکالی جائے تو اس میں جنوبی ایشیا کے کم از کم 45شہر شامل ہوں گے۔ واضح رہے کہ جنوبی ایشیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جس نے اپنی بڑھتی آبادی پر کامیابی سے قابو پایا ہے اور وہ ملک ہے بنگلہ دیش۔ اس ملک کی آبادی اس وقت 16کروڑ سے کچھ زائد ہے۔ یاد رہے کہ قیامِ بنگلہ دیش کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ بنگلہ دیش میں اس سے قبل 2011ء میں مردم شماری ہوئی تھی جس کے مطابق اس کی کل آبادی 14کروڑ تھی۔ گیارہ سالوں میں اس کی آبادی میں اڑھائی کروڑ کا اضافہ ہوا ہے اور اس حساب سے اس کی آبادی میں سالانہ اضافہ تقریباً 22لاکھ ہے۔ اب پاکستان کی آبادی کا مکمل حساب کریں تو اس وقت سالانہ اضافہ تقریباً61لاکھ ہے، باقی حساب آپ خود لگا سکتے ہیں کہ خوراک، پانی، رہائش اور ٹریفک سمیت کس قسم کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ جنوبی ایشیا میں واضح طور پر ترقی صرف بنگلہ دیش میں ہو رہی ہے، اور اس کی ایک بڑی وجہ اس کا اپنی آبادی پر قابو پانا ہی ہے۔ بنگلہ دیش کی ترقی کی ایک دوسری وجہ علاقے کے گینگسٹر یعنی بھارت کا اس پر اپنا جنگی جنون کم کرنا اور اس کے اندرونی معاملات میں کم مداخلت کرنا بھی ہے۔
پانی، زمین، ہوا اور چین
اس وقت پوری دنیا جس مشکل کو ہر طرح سے اولین آفت مانتی ہے‘ وہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں ایک پرانی اصطلاح ہے‘ یہ تبدیلیاں اب واضح طور پر موسمیاتی تباہیاں بن چکی ہیں۔ گرمی کا غیر معمولی طور پر بڑھنا، خشک سالی، شہروں کی اندر چلنے والی ہیٹ ویو، گلیشیرز کے پگھلنے کی وجہ سے دریائوں‘ سمندروں کی سطح کا بلند ہونا، گلیشیرزکے پگھلنے سے درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہونا، پانی کی قلت‘ یہ سارے مسائل موسمیاتی تباہیوں کی وجہ سے ہیں۔ اگر جنوبی ایشیا کی بات کریں تو دنیا اب تک جن موسمیاتی تباہیوں کے خدشے کا اظہار کر رہی ہے‘ وہ یہاں مشکلات پیداکرنے کے بعد انتہائی حدوں کو چھو رہی ہیں۔ آپ صرف ہوا کو دیکھ لیں۔ جنوبی ایشیا میں شہروں کے لوگ روزانہ کی بنیاد پرمحض سانس لینے کے عمل میں بیس سے چالیس سگریٹ کے برابر دھواں اپنے اندر پھیپھڑوں میں اتارتے ہیں۔ یہاں پینے کے پانی کی قلت ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ جو پانی پینے کے لیے میسر ہے وہ بھی محفوظ یا صحتمند نہیں ہے۔ پانی کی کمی کا مسئلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ دیہات میں نکاس کا پانی‘ جو جوہڑ کی شکل میں اکٹھا ہوتا ہے‘ اب وہ گندا اور زہریلا پانی بھی کاشتکاری میں استعمال ہو رہا ہے جبکہ زرعی زمین مسلسل کاشت کی وجہ سے اپنی زرخیزی بھی کھو رہی ہے۔ اس سب کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ماحولیاتی تباہیوں کی وجہ سے جو علاقہ دنیا میں انتہائی غیر محفوظ علاقہ تصور ہونا شروع ہو چکا ہے وہ جنوبی ایشیا ہے۔ عالمی ادارے اس سلسلے میں کئی سالوں سے وارننگ جاری کرتے آرہے تھے لیکن اس خطے کے حکمرانوں کو کوئی پروا ہی نہیں تھی‘ یا یوں کہہ لیں کہ انہیں اس کا ادراک ہی نہیں تھا۔ پاکستان کا گرین انیشی ایٹو پروگرام ایک اچھا منصوبہ ہے لیکن اگر اس کو ترجیحی بنیادوں پر چلایا جائے گا تو ہی اس کے کچھ مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ اس پروگرام کی سب سے نمایاں بات زرعی آبپاشی کو جدید طریقوں پر استوار کرنا ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی ایشیا میں روایتی طریقے سے جو آبپاشی کی جاتی ہے‘ اس سے ساٹھ سے ستر فیصد تک پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے حصول میں چین سے مدد مل سکتی ہے۔ چین دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے اپنی آبادی کے مسئلے پر سب سے کم وقت میں اور نمایاں حد تک قابو پایا۔ یاد رہے کہ چین نے 1979ء میں ایک جوڑا ایک بچہ کا قانون لاگو کیا تھا۔ اسی وجہ سے اب چین کل آبادی کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر آچکا ہے جبکہ رواں سال بھارت کُل آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پہلا ملک بن چکا ہے۔ جس وقت چین نے ایک جوڑا‘ ایک بچہ پالیسی کا اعلان کیا تھا اس وقت چین کی کل آبادی بھارت کے مقابلے میں پچاس کروڑ زیادہ تھی۔ اگر بھارت اور پاکستان نے چین اور بنگلہ دیش سے سبق نہ سیکھا تو تاریخ اپنے طریقے سے سبق تو دیتی ہی رہے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں