اس وقت دنیا کے اندر جاری گرم و سردجنگ اور جنگی ماحول کا بنیادی سبب صرف ایک ہے‘ کہ چین اپنے آپ کو امریکہ کی ہم پلہ طاقت کے طور پر برقراررکھ سکتا ہے یا نہیں۔ اس جنگی کشمکش کا ایک پہلو بہت نمایاں ہے کہ مغرب کے مقابلے پر ایک مشرقی عالمی طاقت اپنے طور پر ایشیائی ممالک کو کشیدہ اور ابتر حالات سے نکال کر معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے یا نہیں۔ عالمی کشمکش کے مختلف میدانوں میں یوکرین ایک ایسا محاذ ہے جہاں مغرب کو پچھلے قدموں پر دھکیلا گیا ہے۔ اب اس محاذمیں مزید شدت اور وسعت آتی جا رہی ہے۔ روس کے ہمنوا ملک بیلاروس کی جانب سے پولینڈ کے محاذ پر کچھ عسکری سرگرمیوں کی اطلاعات مل رہی ہیں حالانکہ پولینڈ نیٹو کا ممبر ملک ہے۔ نیٹو کے ممبر کے خلاف علامتی سرگرمیاں امریکہ اور نیٹو کو روس کا کھلا چیلنج ہے۔ روس یہ سب کچھ اپنے طور پر نہیں کر سکتا‘ اس میں کہیں نہ کہیں چین کی رضامندی بھی شامل ہے۔
آدھا ایشیا‘ جنوبی ایشیا
جنوبی ایشیا آبادی کے اعتبار سے آدھا ایشیا ہے۔ کبھی یہ خطہ معاشی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہوا کرتا تھا۔ انگریزوں کی آمد کے وقت یہ خطہ دنیا کی ایک چوتھائی معاشی پیداوار کا حامل تھا۔ اسی تناظر میں یہ بھی بتاتے چلیں کہ دنیا کی تاریخ میں عالمی سطح کی طاقتیں مغربی خطے کے علاوہ صرف براعظم ایشیاہی سے آئی ہیں۔ اب بھی لڑائی اسی بات کی ہے لیکن اس لڑائی سے کچھ دیگر اہم معاملات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بات جو امریکہ کے مفادات کے خلاف ہے‘ وہ یہ کہ چین مسلم دنیا میں باہمی کشمکش اوراختلافات کی جگہ دوستی اور معاشی سر گرمیوں کو بڑھا رہا ہے۔ اس سلسلے میں دو میدان ایسے ہیں جہاں چین مثبت کوششیں کر رہا ہے؛ پہلا میدان ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی ہے جس کی وجہ سے ایران کے تعلقات صرف سعودی عرب ہی سے نہیں بلکہ دیگر خلیجی ممالک سے بھی تیزی سے بہتر ہو رہے ہیں۔ ایران سعودیہ تعلقات کی بہتری کے اثرات تقریباً پوری مسلم دنیا میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ دوسرا میدان پاکستان ہے۔ عالمی جنگ کے تحت پاکستان کو معاشی طور پر سنگین حالات کا شکار کر دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں مغربی طاقتیں ہوں یا پھر ان کے زیر اثر چلنے والے مالی ادارے‘ انہوں نے پاکستان میں مہنگائی کو ایک ایسی نہج تک پہنچانے کے انتظامات کیے ہیں کہ یہاں معاشی جنگ کی فضا بن چکی ہے۔ مڈل کلاس نام کا کوئی طبقہ باقی نہیں بچا۔ بجلی کے نرخ ہی اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ لوگ اب صرف لائٹ آن کرتے ہوئے بھی کئی بار سوچتے ہیں۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ملک چھوڑ کر جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ ملک چھوڑ کر جانے والے لوگ عام نہیں ہوتے، یہ یا تو پڑھے لکھے ڈاکٹر‘ پروفیسر‘ انجینئر اور سائنسدان ہوتے ہیں یا پھر سرمایہ کار کیونکہ بیرونِ ملک جانے کے لیے سرمایہ دار ہونا یا پھر کسی صلاحیت کا مالک ہونا ضروری ہے۔ اس لیے پاکستان کو ایک دہرا قسم کا معاشی نقصان ہو رہا ہے۔ اس سارے معاملے کا تعلق پاکستان سے گزرنے والے ایک معاشی راستے یعنی سی پیک سے ہے۔ یہ بھی آپ کے علم میں ہو گا کہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں کو سکیورٹی مسائل کا مسلسل سامنا رہتا ہے۔ اس کے پیچھے بھارت ہے جو اس منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ بھارت نے امریکہ کی افغانستان میں بیس سالہ موجودگی کے دوران لاتعداد شر پسندوں کو ٹریننگ دی، نہ صرف افغانستان میں ایسے مراکز قائم کیے گئے بلکہ بھارت میں بھی یہ مرکز کام کرتے رہے۔ جنگجوئوں اور دہشت گردوں پہ سرمایہ کاری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر بھارت اب بھی پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں میں سرگرم ہے۔ اسی بنیاد پر بھارت کے یوم آزادی کے حوالے سے لکھے گئے کالم میں یہ کہا گیا کہ بھارت نام کی بلا آج بھی اس خطے اور اپنے لوگوں کی غربت کا خیال کرنے کے بجائے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان میں اپنی دہشت گردانہ خارجہ پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب آپ بھارت کے کرتوتوں کو چین کے تناظر میں دیکھیں۔ بھارت اس خطے کی تباہی‘ جو مسلسل جاری ہے‘ میں سب سے زیادہ حصہ دار اور ذمہ دار ہے۔ بھارت کے چین سے عناد کی ایک بڑی وجہ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری ہی ہے۔ مطلب یہ کہ بھارت پاکستان کی ترقی و بہتری روکنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے بلکہ جا رہا ہے۔ بھارت کی اس بھیانک سوچ کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وہ چین کی بھارت مخالف سرگرمیوں کو مسلسل نظر انداز کر رہا ہے حالانکہ بھارتی ریاست اروناچل پردیش بتدریج چین کے کنٹرول اور قبضے میں جا رہی ہے۔ چین نے وہاں بھارت کو کس قدر بے بس کر رکھا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ماہ چین میں مارشل آرٹس کے عالمی مقابلوں (FISU World University Games)کا انعقاد ہوا، بھارتی دستے میں شامل تین کھلاڑیوں کا تعلق اروناچل پردیش سے تھا۔ چین نے ان کھلاڑیوں کو Staple ویزہ جاری کیا۔ اس ویزے کا مقصد اپلائی کرنے والے کو اپنائیت کا اشارہ دینا ہوتا ہے، یعنی انہیں جتایا جاتا ہے کہ آپ تو اپنے ہی ملک میں آ رہے ہیں‘ اس لیے پاسپورٹ پر کوئی مہر لگانے کے بجائے ایک کاغذ ساتھ Staple کر دیا جاتا ہے۔ مگر اس چینی اقدام کے بعد بھارت نے ان تین کھلاڑیوں سمیت آٹھ ایتھلیٹس کو اپنے دستے سے نکال دیا۔ واضح رہے کہ مقوضہ کشمیر کے لوگوں کو بھی چین سٹیپل ویزہ دیتا ہے۔ بھارت پتا نہیں حقیقت کو کب اور کیسے سمجھے گا کہ چین دشمنی میں وہ صرف اپنا نقصان کر رہا ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ چین اور امریکہ کی لڑائی میں بھارت اس گھاس کی مانند ہے جو دو ہاتھیوں کی لڑائی میں کچلی جاتی ہے۔ بھارت کے اگر اپنے اندرونی حالات بہتر ہوں تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک عالمی طاقت کے طور پر اپنے آپ کو منوانا چاہتا ہے‘ مگر کہاں امریکہ و چین اور کہاں بھارت، یہ توراجا بھوج کا گنگو تیلی سے موازنہ کرنے والا معاملہ ہے۔ اسی حوالے سے خبر یہ بھی ہے بھارت نے ستر ہزار کے قریب مزید فوج مقبوضہ کشمیر کے اس محاذ پر پہنچا دی ہے جو چین سے منسلک ہے۔ اس محاذ پر بھارت بہت ساری فوجی چوکیاں پہلے ہی کھو چکا ہے۔
بھارت نامی عفریت اور دو ارب لوگ
پہلے بھی ذکر ہوا کہ جنوبی ایشیا میں دو ارب لوگ بستے ہیں جس کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی، پانی کی تیزی سے بڑھتی کمی، زمینوں کا بنجر ہونا اور کم زرعی پیداوار جیسے منڈلاتی موت کے حقائق کو بالائے طاق رکھ کر بھارت صرف جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ پورے ایشیا کے لوگوں کی ترقی کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ بن کر کھڑا ہے۔ ادھر چین کو درپیش مسائل میں سے ایک تائیوان کا مسئلہ ہے جبکہ جنوبی ایشیا کے سمندر میں بھی اس کے خلاف کچھ محاذ کھلے ہوئے ہیں لیکن کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جو اپنے مسائل کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہو رہا ہو یا پھر ویسے کام کر رہا ہو جو اس وقت بھارت کر رہا ہے۔ چین نے جنگ زدہ افغانستان کو بھی اب معاشی ترقی یا معیشت کی بحالی کی راہ پر چلا دیا ہے۔ سینٹرل ایشیا کی ریاستیں افغانستان کے راستے سی پیک سے جڑنے کو تیار ہیں اور اس ضمن میں منصوبے شروع ہو چکے ہیں۔ تاپی منصوبہ‘ جس میں ترکمانستان سے افغانستان اور پاکستان سے ہوتی ہوئی گیس پائپ لائن بھارت تک جانی تھی‘ خود بھارت کے لیے بہت فائدہ مند ہے مگر اس منصوبے کو پس پشت ڈال کر بھارت جنگی کشمکش کو ہوا دینے پر تلا ہوا ہے۔ جیسا پچھلے کالم میں بیان ہوا کہ بھارت کے اندر اپنے قیام کے وقت سے ایک برہمن سوچ غالب ہے۔ بھارت کی برہمن اشرافیہ استعماری طرز کی حامل ہے جو ابھی تک اکھنڈ بھارت کے خود ساختہ خمار میں مبتلا ہے۔ بھارت کے قیام کے وقت بھی یہ کہا گیا تھا کہ برطانیہ چلا گیا ہے مگر پیچھے برہمن کو چھوڑ گیا ہے۔ انگریز کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ Divide & Rule کی پالیسی پر چلتا تھا لیکن برہمن کی سوچ اس سے بھی ایک قدم آگے ہے اور یہ Divide and Ruin کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ حکمت عملی دراصل ایک خود کش پالیسی ہے جس کے تحت بھارت پاکستان سمیت دیگر علاقائی ممالک کا تو نقصان کر ہی رہا ہے لیکن خود بھی ہلاکت خیز نقصانات کا شکار ہو رہا ہے۔