بات چل رہی تھی دنیا کے اندر بدلتے حالات کے پیش نظر محض بدلتے ہی نہیں بلکہ ڈھلتے اور یکسر اُلٹ ہوتے ہوئے نظریات کی۔ اس کو پیراڈائم (Paradigm) کے لفظ کے ساتھ بہتر طور پر واضح کیا جا سکتا ہے۔ پیراڈائم کا مطلب ایک ایسا فلسفہ، نظریہ یا خیال ہوتا ہے جو دنیا کی سوچ اور عمل کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ بدلتے‘ الٹ ہوتے تصورات کے حوالے سے حالیہ مثال جو دنیا میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے وہ فیمنزم کی تحریک ہے جس کو اب بگاڑ کر ٹرانس جینڈر اور ہم جنس پرستی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ کچھ نظریات کو ایک خاص مقصد کے تحت وضع کیا جاتا اور پھر انہیں دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر بعض نظریات و افکار کو ایک عقیدے کی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام ہیں جن کے مابین لگ بھگ پانچ دہائیوں تک جنگی چپقلش کی صورت میں ایک سرد جنگ لڑی گئی جو سوویت یونین اور امریکی بلاک کے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگی چپقلش کی بنیادی وجہ اشتراکیت کا سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کے طور پر ابھرنا تھا۔ اس عمل کو Anti-thesis کہا جاتا ہے۔ ہم بھی اسی طرز پر بات کر رہے ہیں‘ نظریات سے زیادہ ان حالات کی جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ دنیا میں بہت کچھ الٹ چکا ہے اور ہم اب ایک متضاد سمت کا سامنا کر رہے ہیں۔
ذہین سے زیادہ مضبوط دماغ
جدید تحقیقات اور تجربات سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ اب صرف ذہین دماغ سے کام نہیں چلے گا بلکہ ذہنی طور پر مضبوط بھی ہونا پڑے گا۔ اس کی تفصیل یا گہرائی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مضبوط دماغ میں سب سے پہلا پہلو برداشت کا مادہ ہے، جس سے متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ برداشت اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کو ذہنی سکت کا نام بھی دیا جاتا ہے اور یہ معاشی سکت ہی کی طرح ہوتی ہے۔ حالیہ دنوں میں کچھ جماعتوں کے بورڈ کے امتحانات کا رزلٹ آیا۔ جب بھی کسی بورڈ کے امتحان کے نتیجے کا اعلان ہوتا ہے تو بہت ساری خبریں ایسی بھی نظر سے گزرتی ہیں کہ فلاں فلاں سٹوڈنٹ نے امتحان میں نمبر کم آنے پریا فیل ہونے پر خود کشی کر لی۔ اسی طرح آئے روز یہ خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ والدین کے ڈانٹنے پر نوجوان لڑکے؍ لڑکی نے خود کشی کر لی۔ یہ سب عدم برداشت کی مثالیں ہیں۔ اسی تناظر میں ایک پہلو دکھاوے کے کلچر کا بھی شامل ہو چکا ہے۔ برانڈڈ کپڑے اور جدید موبائل فون سمیت بہت کچھ اب زندگی میں شامل ہو کر ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ محض نوجوان نسل ہی نہیں بلکہ بڑے بھی اس نمائشی کلچر کا اس طرح سے شکار ہوئے ہیں کہ وہ برانڈڈیعنی مہنگی چیزیں نہ ہونے پر ذہنی طور پرمحرومی کا شکار ہو جاتے ہیں،ان میں ذہنی تنائو پیدا ہو جاتا ہے۔ آپ کسی بچے سے بات کریں۔ وہ آپ کو سائیکل یا موٹر سائیکل کے بجائے گاڑیوں کے ماڈلز اور نام بتانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ محض باتیں نہیں ہوتیں بلکہ بچے کے خیالات ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب چیزیں تعیشات کے زمرے میں آتی ہیں لیکن ماحول ایسابن چکا ہے کہ لوگ ان کو ضرورت ہی نہیں بلکہ بنیادی ضرورت سمجھنا شروع ہو چکے ہیں۔ یہ لائف سٹائل لوگوں میں ذہنی ہیجان اور اضطراب پیدا کرنے کی ایک بڑی وجہ بن رہا ہے۔
مضبوط دماغ کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری زندگی بہت تیز اور بہت زیادہ ہے۔ ''زیادہ زندگی‘‘ والی بات آپ کو عجیب لگ رہی ہو گی۔ اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ ہماری زندگی میں بہت کچھ ایسا شامل ہو چکا ہے کہ ہمیں اس کا خیال رکھنے کے لیے ایک مضبوط دماغ کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی ملک میں پائے جانے والی سیاسی، مذہبی، نسلی اور لسانی تفریق کی مثال لیتے ہیں۔ لوگ اس تفریق کا اتنا زیادہ شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ فرق کرنے کے بجائے متضاد مقام پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ متضاد سے مراد یہ ہے کہ وہ باقاعدہ طور پر باہمی چپقلش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سارے معاملے کو جنگی میدان میں بدلنے کا موقع سوشل میڈیا فراہم کر تا ہے بلکہ بعض مقامات پر سوشل میڈیا خود یہ کشمکش جنم دیتا ہے اور پھر اسے پروان چڑھاتا ہے۔ اس میں سارا کھیل کسی بھی پوسٹ یا وڈیو کو وائرل کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد اس وڈیو کی پسندیدگی کو بڑھانا ہوتا ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک مصنوعی کھیل ہوتا ہے جس سے کوئی مثبت یا پیداواری عمل نہیں ہوتا، سوائے ان سنجیدہ پوسٹس کے‘ جن کا حق مارا جا رہا ہوتا ہے یا جن میں کسی بے بس کی آواز کو بلند کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی مثبت پوسٹس کی شرح انتہائی کم ہوتی ہے۔ بات واپس ذہنی مضبوطی کی طرف لائیں تو پتا چلتا ہے کہ اس قسم کی وڈیوز یا پوسٹوں کے اثرات سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو مضبوط رکھنا پڑتا ہے۔ ان پوسٹوں کے اثرات کو نظر انداز کرنے کے لیے آپ کو دماغ کو مضبوط رکھنا پڑے گا۔ بصورت دیگر یہ آپ کی ذہنی صحت کو خراب کر سکتی ہیں۔ ویسے یہاں ذہانت کے ساتھ عقل کا پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ آپ اس قسم کے مواد سے بچ کر رہیں۔
مصنوعی دنیا کے اصل نقصانات
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ سوشل میڈیا نے ایک مصنوعی دنیا پیدا کرکے لوگوں کو گھیر رکھا ہے، لیکن اس دنیا سے پیدا ہونے والے نقصانات حقیقی اور بہت زیادہ ہیں۔ اب آپ ذہن میں ایک ایسی وڈیو لائیں جس میں بڑے بڑے حادثات کو فلمایا جاتا ہے۔ ان حادثات کی وڈیوز کی باقاعدہ رینککنگ کی جاتی ہے اور لوگ ان کو بصد شوق دیکھتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات یہ کہتے ہیں کہ حادثات کی وڈیوز دیکھنے سے کسی ایک پہلو کا انسانی ذہن پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ دماغ پر نقش ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ذہن پر بالخصوص بچوں کے ذہنوں پر منفی اثر مرتب ہو سکتا ہے۔ اس سے ملتی جلتی مثال ہم جانوروں کو ذبح کرنے کی وڈیوز اور تصاویر کی لے سکتے ہیں۔ اس سب کا صرف بچوں ہی نہیں بلکہ بڑوں پر بھی منفی اثر ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ محض رائے نہیں بلکہ ماہرینِ نفسیات کی ثابت کردہ حقیقت ہے۔
اب مضبوط دماغ کے مدعے کی طرف واپس چلیں تو پتا چلتا ہے کہ ہماری روز مرہ زندگی میں سماجی رویے اتنے تنگ، منفی اور تلخ ہوچکے ہیں کہ آپ کو بہت سارے لوگوں کی بہت ساری باتوں کو درگزر کرنے کے ساتھ انہیں فوری بھلانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس عمل کا شکار سب سے زیادہ سرکاری ملازمین اور پھر کسی حد تک پرائیویٹ ملازمین ہوتے ہیں۔ سرکاری دفاتر کے اندر باس کلچر پوری طرح رچ بس چکا ہے۔ باس کے قریب ہونے اور اس کی طرف سے نوازشات حاصل کرنے کا مقابلہ ایک ذہنی جنگ کے طور پر شروع ہوتا ہے اور پھر جھوٹی تعریفیں، دوسروں کی برائیاں،لہجے میں خوشامدی طرزِ تکلم ایک لازمے کی طرح شامل ہو جاتا ہے، اسی طرح اہم تہواروں کے مواقع پر تحائف کا تبادلہ بھی کسی مقصد یا غایت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس عمل میں میرٹ کا قتل، لوگوں کی حق تلفی اور بغیر قصور کے لوگوں کی سرزنش سے لے کے ان کی بے عزتی تک کے بھیانک پہلو شامل ہوتے ہیں۔ اس سارے کھیل میں ایک مضبوط دماغ ہی اس گمبھیر صورت حال میں سے آپ کو نکال سکتا ہے۔ اس کو FORGET and FORGIVE کہا جاتا ہے۔ معاف کر دینا اوربھول جانا بہت مضبوط دماغ ہی کا کام ہے۔ اگر آپ یہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ سکتے تو آپ کی تمام صلاحیتیں کم ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہونا شروع ہو جائیں گی۔ آپ کے اندر ایک ایسی جنگ شروع ہو جائے گی جو صرف اپنے آپ سے ہو گی۔ اس طرح کی جنگ میں بہرصورت نقصان یا شکست کا سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا بڑے نقصان سے نچنے کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طور پر مضبوط کریں اور کم از کم بھول جانے کی عادت کو پختہ کریں۔ (جاری)