ہر زبان میں کچھ ایسے الفاظ، ایسی اصطلاحات اور ایسی تراکیب ہوتی ہیں جن کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل ان میں وسعت، گہرائی اور سمتیں اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ دیگر زبانوں میں ان کو ایک لفظ میں سمیٹنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ انگریزی زبان کے تین الفاظ ایسے ہی ہیں جن کی وسعت، گہرائی اور سمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا کوئی اردو مترادف لفظ نہیں ملتا۔ یہ الفاظ ہیں Subversion, Paradigm and Culture۔ دنیا میں چوتھی اور پانچویں نسل کی جنگیں انہی تین اصطلاحات کے گرد گھومتی ہیں۔ ان میں سماجی، معاشی، سیاسی، نفسیاتی، اخلاقی اور دیگر اَن دیکھے یا اَن کہے پہلو بھی سمو جاتے ہیں۔ اب اندازہ ہو جانا چاہئے کہ جس طرح یہ الفاظ مختصر نہیں ہیں‘ اسی طرح پانچویں نسل کی جنگیں بھی اتنی سادہ نہیں ہیں۔ اس قسم کی جنگ سے متعلق ایک پُر مغز اور واضح تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے کہ
Fifth- Generation War: A war within: harder to fight, hardest to understand.
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی جنگ محض جسمانی طور پر ختم کرنے یا املاک کو نقصان پہچانے والی جنگ نہیں ہوتی۔ اگرچہ نشانہ جسم یعنی لوگ ہی بنتے ہیں مگر ٹارگٹ تبدیل ہو چکا ہے۔ آسانی پیدا کرنے کے لیے اسے نظریات و افکار کی جنگ یا پھر دماغوں کو بدلنے، قابو کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی جنگ کہہ سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے، اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے نرم، خفیہ اور بدستور اثر کرنے والی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے بولنے والے، لکھنے والے، نصابی کتب، میڈیا آئوٹ لیٹس اور نجی تنظیموں کا سہارا لیا جاتا ہے، انہیں پیسوں یا دیگر مراعات کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ اس قسم کی طاقت کو کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے:
To get the others do, what they would otherwise not do.
اس سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ دوسرے لوگوں سے وہ کچھ کرایا جائے یا انہیں کرنے پر مجبور کر دیا جائے، جو وہ عمومی حالات میں نہ کرنا چاہتے ہوں یا نہ کر رہے ہوں۔ یقینا یہ بہت اہم اور خطرناک بات محسوس ہوتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے۔ اب اس سارے ماجرے کو مرحلہ وار سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
Subversionکیا ہے اور کیسے ہوتی ہے؟
Subversionکے معنی یہ ہیں کہ کسی بھی ملک یا علاقے کے نظام کو مکمل نقصان پہنچایا جائے، اسے مبہم کر دیا جائے اور مکمل طور پر بدل دیا جائے اور اس کام کو کرنے کے لیے اس نظام کو چلانے والوں ہی کی مدد لی جائے۔ یہ سارا کچھ پانچویں نسل کی جنگ کا نچوڑ ہے۔ اب اس میں نظام سے مراد سماجی، معاشی، سیاسی یا کوئی بھی دیگر پہلو ہو سکتا ہے۔ اس کی پہلی قسم چوتھی نسل کی جنگ یعنی فورتھ جنریشن وارفیئر تھی جس کو ہم سادگی سے سرد جنگ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ بات ہو رہی ہے اُس سرد جنگ کی جو امریکہ اور سوویت یونین میں لڑی گئی، جو اشتراکیت کے پھیلائو کو روکنے کی جنگ تھی۔ یہاں مسئلہ یہ تھا کہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد تھے یعنی ایک دوسرے کے یکسر مخالف تھے۔ روس جو اشتراکیت کے نظام کا بانی تھا اور اس نظام کو ایک عقیدے کا درجہ دیتا تھا‘ وہ اس کے پھیلائو کے لیے ایک تبلیغ اور ترغیب کا نظام چلا رہا تھا۔ اس کام کے لیے وہ جنگ مسلط کرنے سے بھی نہیں کتراتا تھا۔ یہی حال امریکہ کا تھا جو اس نظام کے پھیلائو کو روکنے کے لیے جنگ مسلط کرنے سے دریغ نہیں کرتا تھا۔ ویتنام میں بیس سال تک جنگ لڑنا اور بعد میں شکست کھانا اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ کمیونزم کے پھیلائو کو روکنے کے علاوہ اس جنگ میں امریکہ کا کچھ اور مقصد نہیں تھا۔ واپس آتے ہیں subversion کی طرف‘ جس کی سب سے بڑی مثال سرد جنگ ہے۔ اشتراکیت والے چاہتے تھے کہ کسی بھی ملک میں زیادہ سے زیادہ معاشی برابری ہو، ہر کسی کو ووٹ کا حق نہ ہو بلکہ ایک ہی سیاسی پارٹی ہو جس کے ممبران ملک کے فیصلے کریں، اور سب سے بڑھ کر‘ پارٹی کا سربراہ ملک کا سربراہ ہو اور تاحیات سربراہ ہی رہے۔ اسی طرح کسی بھی صورت مذہب کا سیاست سے کوئی تعلق نہ ہو، یعنی سیکولر ازم ہر شے‘ ہر عقیدے سے بڑھ کر ہو۔ اس میں ایک اہم بات عورت کو مرد کے برابر قرار دینا ہے۔ یہ کریڈٹ اشتراکیت ہی کو جاتا ہے جس نے 1917ء میں عورتوں کو مردوں کے مساوی تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد ہی مغربی ممالک میں‘ جہاں عورتیں اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی تھیں‘ حقوق اور برابری کی جنگ میں تیزی آئی تھی۔ 1920ء کے بعد سے تمام یورپی جمہوری ملکوں میں عورتوں کو ووٹ کا حق دینے کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس تمام بحث کا حاصلِ کلام یہ ہے کہ مذکورہ دونوں نظاموں‘ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ‘ کو چلانے والے اور ان نظاموں کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے والے، اپنے مخالف نظام کو subversionکر کے اکھاڑنے یا جتنا ہو سکے نقصان پہچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔
The Grandest Deception
اس سارے کھیل میں ایک بہت بڑا دھوکا جس کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ کیا گیا‘ کوئی اور نہیں بلکہ مسلم ورلڈ تھی۔یہ اُس وقت کی دنیا کی ایک بہت بڑی بحث تھی کہ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام میں سے کون سا نظام اسلامی نظام کے قریب ہے۔ یہاں اشتراکیت کی ایک نرم شکل‘ جسے سوشل ازم کہا جاتا ہے‘ کے ذکر کو اسلامی دنیا میں گول کر دیا گیا اور ہر جگہ صرف اس بات کا پرچار کیا گیا کہ اشتراکیت والے ہر مذہب کے خلاف ہیں اور وہ انسانوں کی زندگیوں سے مذہب کو نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔ روسی اشتراکیت میں انتہاپسند کچھ اسی قسم کے خیالات کے حامل تھے مگر اس بات کو اتنا بڑھاوا دیا گیا کہ یہ ثابت کر دیا گیا کہ اشتراکیت درحقیقت کفر کا نظام ہے۔ اگر بات کریں ان دو نظاموں اور اسلام کے تعلق کی تو مرشِد اقبال سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ کس نظام کو اسلام کے قریب خیال کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ''سوشل ازم میں کچھ بھی نیا نہیں‘ یہ عین اسلامی نظام ہے، اس میں بس خدا کا تصور شامل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ امریکہ نے مگر مذہب کارڈ استعمال کرتے ہوئے مسلم دنیا کو اپنے ساتھ ملا لیا اور اشتراکیت کے خلاف ایک بڑا محاذ بنا دیا۔ اس کے ڈالروں کی تجوریوں کے منہ کھول دیے گئے اور ایسے افراد تیار کیے گئے جن کو''ڈالر سکالرز‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
امریکہ کی جانب سے مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملانے کی ایک طویل کہانی ہے۔ امریکہ نے اپنے کمال درجے کے سکالرز اور اداروں سے یہ ریسرچ کرائی کہ اسلام کے مکمل نظام کی تفصیلی نچوڑ پیش کیا جائے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں امریکی صدر کو بتایا گیا کہ مسلم دنیا اشتراکیت کے خلاف ایک بہترین توڑ یعنی ڈیٹرنٹ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہاں پر اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ تحقیق کرنے والا امریکی صدر نکسن کا مشیر عیسائی سکالر رابرٹ ڈکسن کرین خود مسلمان ہو گیا تھا۔ یہ 1970ء کی دہائی کی بات ہے۔ اب یہاں امریکہ نے مسلم دنیا کے ساتھ ایک بہت بڑا اور طویل المدت دھوکا یوں کیا کہ ایک تو مسلم دنیا کو اشتراکیت کے خلاف استعمال کیا، لیکن دوسری طرف اس مسلم دنیا میں ایکsubversionشروع کر دی۔ اس کے لیے مسلم دنیا کے اندر فرقہ ورانہ تقسیم، ڈکٹیٹروں کی حمایت، سخت گیر قسم کے لوگوں کا معاشروں پر کنٹرول بڑھا یا گیا۔ برطانیہ کے زیر نگیں رہنے والے مسلم ممالک میں سول بیوروکریسی کو شاہانہ طور اطوار کی تربیت دی گئی، ان کو کرپشن پر مائل کیا گیا۔ یہ بیوروکریسی ریٹائر ہونے کے بعد انہی ممالک میں لوٹ مار کی رقم کے ساتھ منتقل ہو جاتی۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد کے مطابق سول بیوروکریسی میں زیادہ تر افراد کا مقصدزیادہ سے زیادہ دولت اور کسی یورپی ملک کی شہریت کا حصول ہے۔ ان کے مزاج قوم کی خدمت کے بجائے ان پر حکمرانی والے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم دنیا کو تعلیم، انصاف اور معاشی ترقی کی شاہراہ سے بھی قصداً دور رکھا گیا۔ مسلم دنیا کو تعلیم اورسائنس و ٹیکنالوجی کے بجائے اونچی اونچی عمارتوں، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے لیے فنڈز دیے گئے، سکالرشپس میں ان کا حصہ محدود رکھا گیا۔ پاکستان واضح طور پر امریکہ کا اتحادی رہا مگر اس کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ امداد فراہم کی گئی جو بظاہر غیر وابستہ ممالک کی تنظیم سے وابستہ تھا اور دفاعی طور پر سوویت یونین کا اتحادی تھا۔ اسی طرح مسلم ورلڈ میں ایسے افراد کو پروموٹ کیا گیا جو مذہب کی ایسی تشریحات کرتے جو امریکی موقف کو مضبوط کرتیں۔ اس حوالے سے ہیلری کلنٹن کا ایک وڈیو بیان موجود ہے جس میں ان باتوں کا کھلم کھلا اعتراف کیا گیا ہے۔
اس وقت امریکہ اور چین کی نئی سرد جنگ میں مسلم دنیا ایک بار پھر سے میدان جنگ بنی ہوئی ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ مسلم دنیا معاشی سرگرمیوں پر دھیان دے اور عالمی سطح پر ایک اہم اور مؤثر ایکٹر کے طور پر ابھرے۔ چین نے اس سلسلے میں نہ صرف مسلم دنیا میں سرمایہ کاری بڑھائی ہے بلکہ معاشی منصوبوں کا ایک جال بھی بچھا دیا ہے۔ ازبکستان سے افغانستان کے راستے پاکستان کی بندرگاہوں تک ریل منصوبہ اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ یہاں ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی بحالی کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی‘ جس میں بنیادی کردار چین کا ہے اور جس کے تحت ایرانی وزیر خارجہ کا دورۂ سعودی عرب بھی ہو چکا ہے۔ (جاری)