بات چل رہی ہے سافٹ پاور کے ذریعے دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کرنے کی۔ اس سافٹ پاور کے ذریعے اب علاقے نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کی سوچ کو تسخیر کرنے اور ان کا طرزِ زندگی اپنی اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کی سیاسی و معاشی سرگرمیوں کو بھی کنٹرول کیا جاتاہے۔ سافٹ پاور کے ذریعے دیگر ملکوں کو سر نگوں کرنے کے لیے طاقت کے مختلف درجے استعمال کیے جاتے ہیں۔ طاقت کا پہلا درجہ Persuasion کہلاتا ہے۔ اس درجے کو قائل یا مائل کرنا کہتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑی اور اچھی مثال بھارت کی ہے۔ بھارت وہ ملک ہے جس نے مغربی کلچر کو اپنانے اور اسے خطے میں پھیلانے میں ایک اہم کردار اپنی فلمی صنعت کے ذریعے ادا کیا۔ چلئے اب ایک بات کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔ مضبوط خاندانی نظام‘ پردے یا حجاب کا کلچر‘ بڑو ں کا احترام‘ سب سے بڑھ کر مذہب کو ایک مضبوط سماجی ادارہ ماننا‘ یہ سب عوامل جنوبی ایشیا کی تہذیب کی واضح پہچان تھے۔ بھارت نے سب سے پہلے مشرقی کلچر کے بجائے مغربی کلچر کو اپنی فلموں میں دکھاکر اس خطے میں اسے فروغ دینا شروع کیا اور اس حوالے سے اس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس رکھنے والا نہیں تھا۔ یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو پاکستان بننے سے پہلے امرتسر میں پیش آیا تھا‘ جب ایک فلمی گیت کے بول اخلاقی اقدار کے خلاف ہونے پر سینما جلا دیا گیا تھا۔ اب اس گانے کے بول اور فلم کا نام تو یاد نہیں لیکن اس واقعے کے حقیقی ہونے کی دلیل گزشتہ دو سے تین دہائیوں میں بھارت میں بننے والی فلموں کے موضوعات‘ ان میں فلمائے گئے مناظر اور سب سے بڑھ کر ان فلموں میں شامل گانوں کے بول ہیں۔ غرض یہ کہ بھارتی فلمی صنعت مشرقی تہذیب کو تباہ کرنے کا بڑا ذریعہ بنی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ثقافتی جنگ کی فتح یا شکست
اب اس بات کو کچھ اس طرح زیادہ واضح کیا جا سکتا ہے کہ 1990ء کی دہائی میں اندرا گاندھی کی بہو اور راجیو گاندھی کی بیوی‘ سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کو ثقافتی محاذ پر شکست دے دی ہے۔ سونیا گاندھی کے اس بیان کا جواب پاکستان کی طرف سے کچھ یوں دیا گیا کہ بھارت جو پاکستان کو ثقافتی شکست دینے کا دعویدار ہے‘ دراصل وہ مغربی کلچر کے فروغ کے لیے مغرب کا ایک آلہ کار بنا اور پاکستان سے زیادہ اس نے اپنی تہذیب کو شکست و ریخت سے دوچار کیا۔ اس ثقافتی یلغار کا کچھ حصہ پاکستان بھی آیا لیکن یہ بھارت کی اپنی ثقافت نہیں تھی بلکہ مغربی ثقافت تھی جس کو بھارت نے پروان چڑھایاتھا۔ اس کے بعد تو بھارت کی فلم انڈسٹری تقریباً مغربی کلچر کے رنگ میں مکمل رنگ گئی۔ بھارت کے اندر اس کی فلمی صنعت کا اثر ورسوخ اتنا زیادہ ہوچکا ہے کہ بھارت کی فلم انڈسٹری کے ہیرو اور ہیروئنز کو وہاں ایک دیوتائی مقام حاصل ہے۔ یاد رہے مسلسل فلمی یعنی تخیلاتی دنیا میں رہنے والے لوگوں کی سوچ کے غیرحقیقی ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے‘ خاص طور پر اگر فلموں کا موضوع اسی قسم کی کہانیاں ہوں۔ یہ بھی یاد رہے کہ امریکا کے جاری کردہ نظریہ تہذیبوں کا ٹکراؤ (Clash of Civilizations)بھی یہی کہتا ہے کہ ہندو یعنی بھارتی تہذیب ایک جھولا جھولتی تہذیب (swinging civilization) ہے۔ مطلب یہ مغربی تہذیب کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کرتی۔ مغرب اسے جس طرح ڈھالنا چاہتا ہے یہ ڈھلتی چلی جا رہی ہے۔
مغربی تہذیب کے لیے آلۂ کار کے طور پر استعمال ہونے کے بعد بھارت اب ایشیا سے اٹھتی ایک عالمی طاقت یعنی چین کے خلاف مکمل طور پر ایک خود کش ملک کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ بھارت خود کو چین کی معاشی و ثقافتی وسعت کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتاہے۔ یاد رہے کہ چین نہ صرف مغرب کی عالمی برتری اور حکمرانی کے لیے ایک مؤثر جواب ہے بلکہ چین کا ماننا ہے کہ صرف جدت اور چیز ہے جبکہ مغربی جدت بالکل مختلف چیز ہے۔ مثال کے طور پر چین اپنے ہاں مضبوط خاندانی نظام کا حامی ہے اور اس کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس طرح ماضی میں یورپ نے ایک اصطلاح Iron Curtain‘ اشتراکیت کو روکنے کے لیے استعمال کی تھی‘ عین اسی طرح چین والے مغرب کی ثقافتی یلغار کو روکنے کے لیے Bamboo Curtain کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں لیکن بھارت مغربی تہذیب کے لیے ایک ''بے پردہ تہذیب‘‘ ثابت ہوا ہے۔
بے پردہ تہذیب
صرف میڈیا کے ذریعے آپ اپنی ثقافت کیسے دکھا سکتے ہیں‘ اسے محفوظ کر سکتے ہیں اور اگلی نسلوں تک پہنچا سکتے ہیں‘ اس کی مثال بھی بھارت ہی سے مل سکتی ہے۔ زیاد سوچنے کی ضرورت نہیں‘ آپ صرف بھارت میں پنجابی فلم انڈسٹری میں بنائی فلمیں دیکھ کر ہی اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں رہنے والے سکھ اپنی فلموں میں نہ صرف اپنے کلچر اور رسم و رواج کی خوب عکاسی کرتے ہیں بلکہ اس کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی بتاتے ہیں۔ سکھوں نے انتہائی مہارت اور سادگی سے بھارت میں اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے اپنی فلموں کے ذریعے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے تقسیمِ ہند سے لے کر 1984ء کے فوجی آپریشن سمیت اُن تمام سانحات اور واقعات کو‘ جب جب اُنہیں بھارتی حکومت کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا‘ اپنی فلموں کا موضوع بنایا ہے۔ ان موضوعات پر بننے والی فلموں کی مقبو لیت کا یہ عالم ہے کہ انہیں نہ صرف پنجاب بلکہ ہندی زبان میں بھی ریلیز کیا جاتا ہے۔ بھارت کی پنجابی فلموں کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان میں موجودہ مزاح کا عنصر ہے۔ اب جو بات سب سے اہم ہے‘ وہ یہ ہے کہ ان فلموں کو آپ بلا جھجھک پوری فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اب یہی وہ نکتہ ہے جو ہندی فلمیں بنانے والوں کے لیے لمحہ فکریۂ ہے کہ اگر پنجابی فلمیں‘ مشرقی کلچر کے مطابق بن کر اتنی مقبول ہو سکتی ہیں تو ہندی فلموں میں عریانی اور فحاشی کیوں دکھائی جاتی ہے۔ اس سب کے پیچھے وہ سرمایہ کاری ہے جو مغرب کے مخفی ہاتھ بھارت میں کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں۔
اب یہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی‘ اسی قسم کی ایک ثقافتی یلغار پاکستان میں بھی آکر تباہی مچا چکی ہے۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے 1990ء کی دہائی میں پاکستان کی پنجابی فلموں میں شامل ہونے والے گانوں سے شروع ہوا اور عروج پر پہنچااور اب بھی کسی نہ کسی شکل میں چل رہا ہے۔ اس کے بعد پاکستان میں مزاحیہ پنجابی سٹیج ڈرامے بہت زیادہ مشہور ہو ئے جنہیں لوگ اپنے اہلِ خانہ سمیت دیکھنے جاتے تھے لیکن پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا‘ یہ سٹیج ڈرامے بھی بے حیائی کی نذر ہو گئے۔ پہلے پہل تو ان سٹیج ڈراموں میں ایسی جگتیں شامل ہونے لگیں جنہیں ایک انسان اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھ کر نہیں سن سکتا۔ ان فحش جگتوں کے بعد سٹیج ڈراموں میں فحش ڈانس بھی شامل ہو گیا‘ جس کے بعد یہ سٹیج ڈرامے ایسی ممنوعہ چیز بن گئے جسے اہلِ خانہ کے ساتھ بالکل نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ فحاشی کو مزاح کا لبادہ اوڑھانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ پھر سٹیج ڈراموں میں گالی کلچر بھی پروان چڑھا۔ یہ سٹیج ڈرامے پوری دنیا میں موجود پنجابی سمجھنے والوں میں اب بھی کسی حد تک جگہ بنائے ہوئے ہیں لیکن یہ بھارتی پنجابی فلموں کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ان پنجابی سٹیج ڈراموں میں صرف غیراخلاقی مواد موجود ہوتا ہے‘ حالانکہ یہی سٹیج ڈرامے اہم سماجی و قومی مسائل کے حوالے سے آگہی پیدا کرنے کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم ثابت ہو سکتے تھے۔ یہ سٹیج ڈرامے تو رہے ایک طرف اب تو سوشل میڈیا کی صورت میں عوام کے ہاتھ ایک ایسا ٹول لگ چکا ہے جسے عوام زیادہ تر غیر اخلاقی مواد دیکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ہی غیر اخلاقی مواد کی وجہ سے تہذیب بے پردہ ہو کر رہ گئی ہے۔
اہلِ مغرب نے دنیا‘ بالخصوص براعظم ایشیا کے نظام کو کچھ اس طرح سے بگاڑ دیا ہے کہ یہ براعظم اب ایک منتشر براعظم نظر آتا ہے۔ آپ ایشیا کے صرف مسلمان ملکوں ہی کو دیکھ لیں‘ ایک ملک کی سرحد پار کریں تو اگلے ملک میں ایک مکمل نئی دنیا کا احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح ایشیا میں بیک وقت بادشاہت ‘ خاندانی آمریت‘ مکمل آمریت اور مکمل جمہوری نظاموں کا مکسچر موجود ہے۔ اب دیکھتے ہیں چین اس صورتحال سے کیسے نمٹتا ہے۔ویسے تا حال چین ایشیائی ممالک کے تنازعات کو ختم کر نے کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کو صرف نظریاتی بنیادوں پر جزیروں کی شکل میں رہنے کے بجائے‘زیادہ سے زیادہ تجارتی سرگرمیاں شروع کرنے پر قائل اور مائل کر رہا ہے۔یہ پالیسی اس لیے کارگر نظر آتی ہے کہ جب انسان کو معاشی فوائد حاصل ہونا شروع ہو جائیں تو دیگر تضادات خود بخود دب جایا کرتے ہیں کیونکہ کلچر ہو یا سیاست‘ سب کی ماں معیشت ہی ہوتی ہے۔یہی سب سے مثبت Subversion ہوتا ہے۔