طاقت کا استعمال ہو یا پھر جنگوں کی قسمیں‘ یہ اتنا وسیع‘ گہرا اور مشکل موضوع ہے کہ اس کو مکمل کرنا بھی ایک جنگی طرز کی کوشش ہے۔ گزشتہ کالم میں بات ہوئی تھی چین کی طرف سے ایک ایسی بڑی مثبت تبدیلی کی جس کی مدد سے وہ مسلم ممالک کو ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے کے بعد تعمیر و ترقی کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہم نے اس کو ایک مثبت Subversion کہا۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ اس لفظ کا مطلب تو کسی نظام کو مکمل طور پر تباہ یا تبدیل کرنا ہوتا ہے، تو اس مثبت اپروچ کا مطلب ہے کہ subversion کی اصطلاح کسی مثبت تبدیلی سے متعلق بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ گزارش کچھ یوں ہے کہ جس طرح امریکہ دنیا پر اپنی حکمرانی کا ایک آرڈر اور نظام چلا رہا ہے‘ چین اس نظام یا ورلڈ آرڈر کو تبدیل کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو نظام امریکہ کے لیے فائدہ مند ہے اور اس کے تسلط کو برقرار رکھتا ہے‘ چین اس کو تبدیل کر رہا ہے، یہ امریکہ کی حاکمیت کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش ہے اور اس کی حکمرانی کے لیے ایک subversion ہے۔ اس تبدیلی کو اگر ایک مناسب لفظ کا نام دیا جائے، اسے ''پیراڈائم شفٹ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ اُن تینوں لفظوں میں سے ایک ہے جن پر کالموں کی سیریز لکھی جا رہی ہے۔
مسلم دنیا کو دھوکا
مسلم دنیا کی بات کریں تو یہ پہلی عالمی جنگ کے فوری بعد سلطنت عثمانیہ کی شکست و ریخت کے بعد سے لے کر اب تک زیر عتاب ہے۔ مسلم دنیا کو تباہ کرنے کے لیے لارنس آف عریبیہ جیسے کرداروں کا سہارا لیا گیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کردار کے آغاز سے ہی مسلم دنیا کی تباہی کی بنیاد ڈال دی گئی تھی۔ اس کا سبب کیا ہے، آئیے یہ جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلی اور بنیادی وجہ مسلم دنیا کا براعظم ایشیا کا حصہ ہونا ہے۔ یاد رہے کہ مسلم دنیا کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی اسی براعظم میں رہتی ہے۔ مغرب کی عالمی حکمرانی کی جنگ مشرق یعنی ایشیا ہی سے ہے۔ اس کے بعد مسلم دنیا کو مغرب اس لیے ہمیشہ اپنا ممکنہ حریف سمجھتاآیا ہے کہ مسلم سائنس دانوں نے اہلِ یونان کے بعد پوری دنیا کی علمی ترقی کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دی تھیں اور دبی چنگاریوں سے مغرب کو اب بھی خطرہ ہے۔ اس کے بعد دوسرا مقصد مسلم دنیا کو اشتراکی طاقت سوویت یونین یعنی روس سے دور رکھنا تھا کہ کہیں مسلم دنیا اس بلاک کا حصہ نہ بن جائے۔ یہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے اب تک مسلم ممالک ہی ایک جنگی طرز کے عتاب تلے آئے ہوئے ہیں؛ تاہم اب چین کی مداخلت کی وجہ سے مسلم دنیا میں ایک بیداری کی لہر پیدا ہو رہی ہے اور ان کے آپس کے اختلافات میں کمی آ رہی ہے۔ ایک بات بہت اہم ہے کہ پاکستان کو اس وقت آئی ایم ایف جیسے ادارے کی بدولت ایک ایسی معاشی جنگ کا سامنا ہے کہ بجا طور پر پاکستان یوکرین بنا ہوا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی بہت ضروری ہے کہ 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے کے منصوبے میں روس اور امریکہ‘ دونوں کی سپورٹ اور مدد شامل تھی جبکہ بھارت محض ایک آلہ کار بنا ہوا تھا۔ تاہم آج کے حالات مختلف اس طرح ہیں کہ اب نہ صرف چین بلکہ ایران اور سعودی عرب بھی پاکستان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اگرچہ حالات پر فوری قابو پانے میں مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل کشمکش ہے، جس کی صورتحال واضح ہونے میں چند ہفتوں یا چند مہینوں کا وقت لگے گا۔
امریکہ کس طرح اور کس حد تک مسلم ملکوں کو تباہ کرتا رہا ہے اور اب بھی کرتا چلا آ رہا ہے‘ اس کا اندازہ ایک بہت سادہ مگر اہم مثال سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایران سے پاکستان کو تیل کی ترسیل کے لیے بحری جہاز تو دور کی بات‘ کنٹینروں کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ایک پائپ لائن کے ذریعے یہ تیل پاکستان پہنچ سکتا ہے، جس سے ٹرانسپورٹ کی لاگت بھی نہیں آئے گی، یہی صورتحال گیس پائپ لائن کی ہے اور بجلی کی ترسیل کی بھی۔ لیکن امریکی دبائو اور دھمکیاں اس قدر سنگین ہیں کہ ہماری حکومتیں ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اس کی ایک اور مثال تاپی گیس منصوبہ ہے جس کے ذریعے گیس پائپ لائن تاجکستان سے افغانستان، پاکستان اور پھر بھارت تک جانی ہے۔ اس منصوبے میں بھارت ایک ایسی بلا ہے جس نے اس خطے کی ترقی کو تباہی میں منتقل کرنے کی قسم کھا رکھی ہے، حالانکہ اس منصوبے سے اس کا اپنا بھلا بھی ہو سکتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کو بھی انرجی کے مسائل کا سامنا ہے۔ باقی چھوڑیں‘ بھارت چین کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہوئے پورے ایشیا میں دشمنی کی آگ بھڑکانے کا باعث بنا ہوا ہے۔
طاقت کے درجے اور قسمیں
طاقت کے استعمال کی بات کریں تو پہلے درجے میں نرم طاقت کے ذریعے مخالف قوت کو قائل اور مائل کیا جاتا ہے۔ اگر اس سے کام نہ چلے تو دوسرے درجے میں اس مخالف ملک پر اثر و رسوخ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تیسرے درجے میں اس ملک کو دھمکی دی جاتی ہے، اس کے بعد پھر آخری حل کے طور پر اس پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مخالف کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ اب آپ طاقت کے ان چاروں درجوں پر غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ سارے درجے مسلم ممالک اور ایشیائی ملکوں پر استعمال کیے گئے۔ طاقت کا براہِ راست استعمال کی بات کی جائے تو ایک گرم جنگ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ البتہ جدید یا دور حاضر میں مغرب کی پالیسی کچھ اس طرح سے ہے کہ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اپنے مخالف کو کنونس کریں کہ وہ آپ کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لے، اگر اس سے کام نہ چلے تو پھر اپنے مخالف کو کنفوژ کر دیں، ایسا کرتے ہوئے بھی اگر مقاصد پورے نہ ہوں تو اپنے مخالفوں کو کانفلیکٹ یعنی جھگڑوں اور جنگوں میں مبتلا کر دیں۔ اس پالیسی کی روشنی میں آپ کو صرف مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ پورے براعظم ایشیا کا ایک جائزہ لینا ہو گا۔ اس کے بعد ہی اندازہ ہوگا کہ دنیا کے نوے فیصد تضادات، اختلافات، جھگڑے اور دیگر مسائل آپ کو براعظم ایشیا اور مسلم ممالک ہی میں نظر آئیں گے۔ ایشیاء کے بعد زیادہ مسلم ممالک افریقہ میں ہیں اور اس پورے خطے میں آپ کو مسائل اور کشمکش کی جنگ نظر آئے گی۔
مسلم دنیا کے ساتھ ہونے والا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ تیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، جب سے مسلم دنیا براہ راست اور بالواسطہ طور پر ایک جنگی آگ میں جھلس رہی ہے۔ اس کے مسائل جنگی بھی ہیں، معاشی بھی، سیاسی اور معاشرتی بھی۔ صرف مسلم ورلڈ ہی وہ ٹارگٹ ہے جس کی تہذیب کو کرش کر دینے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اس کوشش کا سب سے بھیانک چہرہ یہ ہے کہ قتل و غارت، دہشت گردی، خانہ جنگی اور دیگر تمام ممکنہ ذرائع سے تباہی بھی مسلمانوں کی ہوئی‘ جس کو دہشت گردی کہا جاتا ہے‘ اور دہشت گردی کا الزام اور لیبل بھی مسلمانوں ہی پر لگایا گیا۔ آپ صرف ایک پہلو پر غور کر لیں تو بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ یہ بات ہے عقیدے اور مذہبی تقدس کی۔ پوری دنیا میں صرف مسلمانوں ہی کے مذہبی عقائد کا تمسخر اڑا کر ان کو ذہنی اذیت دی جاتی ہے۔ دنیا میں صرف اسلام کے ساتھ ''فوبیا‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ گستاخانہ خاکے شائع کرنا، کتابیں لکھوانا یا دیگر کوئی بھی طریقہ استعمال کر کے صرف مسلمانوں کو اذیت دی جاتی ہے۔ باقی اندازہ آپ خود لگا لیں کہ یہ کون سی جمہوریت، انسانیت اور اور احترامِ باہمی ہے ؟آپ نے، اس ضمن میں کبھی کسی دوسرے مذہب کا نام تک نہیں سنا ہوگا۔ حالانکہ بھارت اس وقت پوری شدت سے ہندو نیشنل ازم اور شدت پسندی کی راہ پر گامزن ہے۔ اب پتا نہیں بھارت کو کون سی عالمی طاقت اس DECEPTION سے نکالے گی کہ وہ مذہبی شدت پسندی کا اس وقت شکار ہو رہا ہے‘ جب باقی دنیا اس سے باہر آچکی ہے یا باہر آرہی ہے۔