گئے وقتوں میں لوگ جب روایتی زرعی آلات سے لڑتے تھے تو جان جانے کا خطرہ درپیش نہیں ہوتا تھا۔ زیادہ تر لوگ ڈانگ سوٹوں (لکڑی کے بانس وغیرہ) سے لڑائی کیا کرتے تھے‘ جس سے جانی نقصان کا خدشہ بہت کم ہوتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ ٹانگ یا بازو ٹوٹتے تھے یا اگر کسی کا سر پھٹ جاتا تو اس کو ایک بڑا زخم تصور کیا جاتا تھا‘ جس سے جان جا سکتی تھی۔ تب یہ کہنا کہ میں تیرا سر پھاڑ دوں گا‘ ایک بڑی دھمکی سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح کی لڑائیاں اس خطے میں پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی ہوتی رہی ہیں کیونکہ اُس وقت آتشیں ہتھیار اتنے عام نہیں تھے۔ البتہ ہتھیار کے طور پر چاقو‘ خنجر اور دیگر دھاتی آلات عام تھے۔ اُس دور میں خنجر ایک بڑا ہتھیار تصور کیا جاتا تھا‘ جو انتہائی مضبوط اور تیز دھار ہتھیار ہے۔ یہ خطرناک ہتھیار اگر کسی سے بر آمد ہوتا تھا تو اس پر ایف آئی آر بھی درج ہو جایا کرتی تھی۔ خنجر کا نام اس وقت ایکشن فلموں کا ٹائٹل بھی بنا کرتا تھا جیسے ''خنجر مار‘‘۔ اس وقت فلمی پوسٹرز میں بھی خنجر کو خاصی اہمیت دی جاتی تھی اور ہیرو کی خون آلود خنجر کے ساتھ تصویریں خاص طور پر بطور پوسٹرز ریلیز کی جاتی تھیں۔ دراصل غربت لوگوں کو اسی قسم کے ہتھیاروں سے لڑنے پر مجبور کرتی تھی کیونکہ ہر کوئی پستول یا بندوق نہیں خرید سکتا تھا۔ ایک تو یہ ہتھیار مہنگے تھے اور دوسرا ان بارودی ہتھیاروں کو رکھنے کے لیے سرکاری لائسنس کا حامل ہونا ضروری تھا۔ جبکہ اس دور میں اگر کسی کے پاس کوئی زرعی آلہ جیسا 'ٹوکا‘ وغیرہ ہوتا تھا تو اسے گرفتار کر کے یہ پوچھ گچھ نہیں کی جاتی تھی کہ یہ ہتھیار کیوں لیے پھر رہے ہو۔ حالانکہ لوگ اس سے چارہ کاٹنے کے ساتھ ساتھ اس سے اپنے مخالفین اور دشمنوں کو نقصان بھی پہنچایا کرتے تھے۔
آلات سے ہتھیاروں تک
پھر وہ وقت آیا جب آتشیں ہتھیاروں نے دھاتی آلات کی جگہ لینا شروع کر دی۔ آتشیں ہتھیاروں کا یہ سفر بہت تیز تھا۔ پستول سے بندوق کا سفر تو پلک جھپکنے میں طے ہو گیا۔ اس کے بعد مشین گن کی طرز کے بارودی ہتھیار آنا شروع ہو گئے۔ ان ہتھیاروں میں جدت کی بنیاد ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ گولیاں چلانے کی استعداد تھی۔ جب موزر آیا تھا تو اس کی بڑی صلاحیت یہ تھی کہ یہ زیادہ رفتار سے لگاتا ر گولیاں چلا سکتا تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ راکٹ لانچر، ہینڈ گرنیڈ، حتیٰ کہ میزائلوں کی طرف بڑھنے لگا۔ ہتھیاروں کی یہ جدت ہتھیاری نسلوں کا نام حاصل کرنے لگی۔ اب یہ نسل ویسی ہی ہے جس طرح موبائل میں انٹر نیٹ کی سپیڈ کی نسلیں ہیں؛ یعنی تھری جی، فور جی، اور فائیو جی وغیرہ۔ ان ہتھیاروں کی دوڑ یا نسلوں کی جدت میں سب سے اہم نسل ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں نے ایک دفعہ تو ہتھیاروں کی نسل کو اختتام یا ان کو تکمیل تک پہنچا دیا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس ہتھیار کا پہلا استعمال تھا جس نے اس طرح کی دہشت پیدا کی کہ لوگ ابھی تک اس کی مثالیں دیتے ہیں۔ اس ہتھیار کی تباہی کو حسابی طریقے سے بھی واضح کرتے ہیں۔ایٹم بم کا بارود یورینیم نام کی ایک دھات ہے۔ یورینیم کے ایک پائونڈ‘ جو آدھ کلو سے کچھ کم ہوتا ہے‘ کی مدد سے اتنی تپش یا حدت پیدا کی جاسکتی ہے جتنی کئی ہزار ٹن کوئلہ جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ ایک ٹن میں 28من ہوتے ہیں اور ایک من میں چالیس کلو۔ باقی حساب آپ خود کر لیں۔ یاد رہے کہ یہ محض ایک پائونڈ یورینیم کی بات ہورہی ہے۔ سوچیے کہ اگر ایک بم دس یا بیس پائونڈ کا ہوتو کتنی حدت پیدا ہو گی؟ اس سے اتنی زیادہ حدت پیدا ہو گی جو پہاڑوں کو بھی پگھلنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
ایک وقت کے لیے لگا تھا کہ ایٹم بم پہ ہتھیاروں کی نسلوں کا اختتام ہو گیا ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ ہتھیاروں کی اگلی نسل وہ ہے جنہیں بغیر انسانوں کے چلنے والے ہتھیار کہتے ہیں، اس کی سب سے بڑی مثال ڈرونز ہیں۔ ڈرونز کے حوالے سے دنیا میں سب سے زیادہ علم مسلم ممالک کو ہے کیونکہ ان پر یہ ہتھیار خاصے طویل عرصے سے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ استعمال افغانستان نے بھگتا ہے۔ ان ہتھیاروں کو ریموٹ کنٹرولڈ ہتھیار بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرز پر اب ایسے چھوٹے طیارے بنائے جا رہے ہیں جو بغیر پائلٹ کے چلتے ہیں۔ یہاں جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ کہ ان ہتھیاروں سے مارنے والے کا نہ کوئی جانی نقصان ہو گا اور نہ ہی وہ نظر آئے گا۔ مطلب یہ کہ جن پر اٹیک کیا جائے گا‘ انہیں علم نہیں ہو سکے گا کہ بغیر پائلٹ طیارہ یا ڈرون کہاں سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ اس قسم کے ڈرونز کا پتا چلانے کے لیے کہ یہ کہاں سے اڑا ہے‘ بہت جدید قسم کی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے جو دنیا میں صرف چند ملکوں کے پاس ہے۔ اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حملہ آور کا پتا چلانا نہایت مشکل کام ہے۔ اس میں مزید مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب ڈرون آپریٹ کرنے والا ملک اس کام کے لیے کسی تیسرے ملک کی سر زمین استعمال کرتا ہے۔ اس قسم کے ہتھیاروں یعنی ڈرونز سے حملہ کرکے اہم ترین مقاصد حاصل کرنے کی مثال امریکہ کی جانب سے ایران کے جرنیل قاسم سلیمانی کے قافلے پر اس وقت حملہ ہے جب یہ لوگ عراق سے رات کے وقت واپس آرہے تھے۔ امریکہ نے اس حملے کی وڈیو جاری کر کے اپنی پہچان ظاہر کرتے ہوئے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اسی طرح کے حملے افغانستان کے اندر اور باہر دیگر جنگجوئوں پر بھی کیے گئے۔
ہتھیاروں سے واپس آلات کی طرف
اب ہتھیاروں کی جدت نے ایک عجیب کروٹ لی ہے، اور یہ واپس آلات‘ وہ بھی نرم آلات کی طرف آگئے ہیں۔ اس نسل کے ہتھیاروں کو ''سافٹ پاور‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن ایک بڑا فرق یہ ہے کہ پہلے دور میں حملہ کرنے کے لیے آپ کو ٹارگٹ کے قریب جانا پڑتا تھا لیکن اب آپ کے پاس ایسے آلات ہیں کہ آپ ہزاروں‘ لاکھوں میل دور سے ہی حملہ کر سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں حملہ آور کی پہچان تقریباً نا ممکن ہے۔ اسی طرح اگر کوئی حملہ آور اپنا ہتھیا ر یعنی لیپ ٹاپ لے کر گھوم پھر رہا ہے تو آپ اس پر صرف شک کر سکتے ہیں‘ اس کو گرفتار نہیں کرسکتے۔ اب آپ سائبر حملوں کی مثال لے لیں‘ جو آپ اپنے موبائل سے بھی کر سکتے ہیں۔ سائبر حملوں میں کسی کا بینک اکائونٹ ہیک کر کے اس کی ساری رقم لوٹی جا سکتی ہے۔ سائبر کی دنیا سے لوگوں کو ہراساں اور خوفزدہ بھی کیا جا سکتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔
شروع میں ذکر ہوا تھا کہ اس دور کا جب ڈانگ سوٹوں کی لڑائی ہوتی تھی اور سر پھاڑ دینا ایک بڑا گھائو تصور ہوتا تھا کیونکہ اس چوٹ کے نتیجے میں موت واقع ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا تھا۔ موجودہ دور میں ماضی کے اس خطرناک ہتھیار یعنی لکڑی کی چھری کو ایک زرعی آلہ تصور کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ آلہ ایک ہی وقت میں مثبت اور منفی‘ دونوں کام کر سکتا ہے۔ عین اسی طرح اب سائبر ورلڈ میں لیپ ٹاپ اور موبائل دو بنیادی آلات ہیں لیکن ان کی مدد سے لوگوں کی ہلاکت یا نقصان رسانی کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ بات ایک خاص نکتے پر مرکوز کریں تو پتا چلتا ہے کہ قدیمی آلات سر پھاڑنے کے کام آتے تھے، لیکن جدید آلات دماغ توڑنے یعنی دماغ قابو کرنے یا دماغ کو بدلنے کے کام آتے ہیں۔ یہی آج کی بحث کا مرکزی نکتہ ہے کہ دنیا میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے دماغوں کو قابو کرنے کی جنگ جاری ہے۔ پہلے یہ لڑائی اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام میں تھی۔ پھر امریکہ نے ورلڈ آرڈر کے تحت دنیا میں (اپنے معیار کے مطابق)حقوقِ نسواں کے خیالات کو آگے بڑھایا اور اب LGBT+ کے افکار کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ اس دماغی جنگ کے کے تحت مسلمانوں پر اسلامو فوبیاکی یلغار کی گئی جو اب بھی جاری ہے۔ اب ایک دماغی جنگ چین نے بھی شروع کی ہے اور جس دنیا کو مغرب نے انتشار، خلفشار اور اضطراب میں مبتلا کیا ہوا تھا‘ اس کے سامنے دماغ کے استعمال کا ایک نیا رخ رکھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چین کی کاوشوں سے دماغ بدلتے ہیں یا نہیں۔