تیسری آنکھ سے پانچ آنکھوں تک

آج آنکھ سے وابستہ اقوال اور محاروں کی مدد سے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘کی کارکردگی بلکہ کرتوتوں کا جائزہ لیتے ہوئے بحث مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ بھارت کی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی کے ایک کینیڈین سکھ شہری کے قتل میں ملوث ہونے کے واضح شواہد ملنے کے بعد سے جنوبی ایشیا کے لوگوں کی نظر یں اسی پر لگی ہوئی ہیں۔ اس طرح کی صورتحال کیلئے انگلش میں ''In the public eye‘‘ محاورہ بولا جاتا ہے۔ یہ محاورہ سب سے زیادہ را کے اس افسر پر فِٹ آتا ہے جس کو اس سکینڈل کے بعد ملک بدر کر دیا گیا ہے۔ اردو کے ایک محاورے ''ایک آنکھ بند کرنا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بڑا افسر کسی سے کہے کہ تم کبھی کبھار دفتر کا وقت ختم ہونے سے پہلے چلے جایا کرو‘ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا یعنی میں تمہاری طرف سے اپنی ایک آنکھ بند رکھا کروں گا۔ مان لیا کہ بھارت اس وقت امریکہ کی آنکھ کا تارہ ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ یہ کینیڈا جیسے ملک میں قتل کی وارداتیں کرتا پھرے۔ ایسا تو تبھی ہو سکتا ہے جب امریکہ بھارت کی طرف سے اپنی ایک نہیں دونوں آنکھیں بند کر لے۔ لیکن امریکہ اور دیگر بڑے ممالک نے اپنی دونوں آنکھیں تو کبھی اس وقت بھی بند نہیں کی تھیں جب تمام مسلم ممالک بالخصوص پاکستان اس کے لیے ایک بڑی پراکسی جنگ روس کے خلاف افغانستان میں لڑ رہا تھا۔ امریکہ نے ان تمام ممالک پر عقابی نظر رکھی ہوئی تھی اور روس کے ٹوٹتے ہی ان ممالک کو زیر عتاب کر لیا تھا۔
More than meets the eye
اس محاورے ''More than meets the eye‘‘ کا مطلب ہمیشہ کچھ ایسا ہوتا ہے جس کا مطلب حقیقت میں کہی گئی بات سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ محاورہ اس وقت بھارتی ایجنسی پر فِٹ آتا ہے جسے اس وقت سب سے زیادہ جاننے کی ضرورت ہے۔اس محاورے یہ بھی مراد لیا جا سکتا ہے کہ ایک صورتحال شروع میں جتنی مشکل نظر آتی ہے‘ حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ مشکل اور گمبھیر ہوتی ہے۔ یہ محاورہ اپنے معنی کے اعتبار سے بھارتی خفیہ ایجنسی کی جڑوں میں بیٹھ گیا ہے۔ ہردیپ سنگھ نجر‘ جو کہ کینیڈا کی شہریت رکھنے والا بھارتی سکھ رہنما تھا‘ اسے جون کے مہینے میں دو بھارتی ایجنٹوں نے کینیڈا کی ریاست برٹش کولمبیا میں قتل کر دیا تھا۔ بظاہر تو یہ ان کئی قتلوں میں سے ایک تھا‘ جو بھارتی ایجنسی کر چکی ہے اور شروع میں بھارتی چینلوں نے اس سکھ رہنما کے قتل کی خبر پر تقریباً جشن منایا تھا لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ یہی خبر بعد میں ان کے لیے اتنی بدنامی کا باعث بن جائے گی کہ انہیں دہشت گرد کے القاب سننے کو ملیں گے۔ اس وقت بھارت کو بطور ریاست جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ یہ محاورہ کہ ''Can't believe my eyes‘‘ ہی اس کی بہترین تصویر کشی کر سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کچھ ایسا دیکھنے کو ملے کہ آپ حیران و پریشان رہ جائیں۔ یہ خبر اس قدر معنی خیز اور دلچسپ ہے کہ میڈیا سے وابستہ لوگ یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ ''Be all eyes‘‘ کی سی صورتحال کا شکار ہیں یعنی وہ مکمل توجہ کے ساتھ اس معاملے میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھ رہے ہیں۔ اس صورتحال کے لیے ایک اور محاورہ ''Can't Take My Eyes Off‘‘ بھی ذہن میں آ رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس صورتحال سے آنکھیں نہیں ہٹا سکتے۔ سکھ رہنما کے قتل کی خبر بالخصوص کینیڈین وزیراعظم کے واضح شواہد کی بنیاد پر بھارتی ایجنسی پر اس قتل کے الزامات کے بعد عالمی میڈیا اس سکینڈل پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جس کے بعد یہ کہنا پڑے گا کہ بھارت کو ''Catch someone's eye‘‘ کی سی صورتحال کا سامنا ہے یعنی بھارت نے کانڈ ہی ایسا کیا ہے کہ عالمی میڈیا میں رپورٹ ہو رہا ہے۔انگریزی زبان کتنی وسیع ہے کہ پلک جھپکتے میں بدلتی ہر صورتحال کے لیے اس میں محاورہ موجود ہے۔ بھارتی ایجنسی پر قتل کے الزامات کے بعد اس نے جتنی تیزی سے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی ہے اس تیزی کے لیے انگریزی میں ''In the Blink of an Eye‘‘ کا محاورہ موجود ہے۔ ایسے حالات سے انگریزی محاورے ''To turn a blind eye‘‘ کے مصداق کوئی اپنی نظر نہیں چرا سکتا۔
ان حالات میں بھارتی حکومت‘ ادارے اور بالخصوص وہ افسر جو اس قتل میں ملوث ہے اور جسے کینیڈین سرزمین چھوڑنے کو کہا گیا‘ پر ''Cry your eyes out‘‘ کا محاورہ فِٹ آتا ہے۔ جب کوئی بہت زیادہ غمگین ہو اور وہ جی بھر کر رونا چاہے تو اس موقع پر یہ فقرہ بولا جاتا ہے۔ اس ساری صورتحال سے سکھ کمیونٹی کو سب سے زیادہ فائدہ ملا ہے جو اس وقت پوری دنیا میں بھارت سے جبراً ہجرت کے نتیجے میں آباد ہیں۔ سکھوں نے تقسیمِ ہند کے وقت ایک دھوکا کھایا اور پھر بدستور بھارتی حکومت کے جبر کا نشانہ بنتے رہے جس کی انتہا 1984ء میں ان کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کے حملے سے ہوئی۔ اس کے بعد سے یہ لوگ بیرونی ممالک میں خالصتان یعنی اپنی علیحدہ ریاست کی تحریک چلا رہے ہیں‘ ان کے اس مطالبے کو اتنی کوریج اور اہمیت آج تک نہیں ملی جتنی اب مل رہی ہے۔ اس موقع پر ان کے لیے ''Feast your eyes on‘‘ کا محاورہ بولا جا سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی منظر کو دل بھر کر دیکھتے ہوئے لطف اندوز ہونا۔ اپنے لیے بھارت سے الگ ایک آزاد ریاست حاصل کرنا سکھوں کا ایک خواب ہے جس کے لیے وہ انتہائی پُر جوش کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کی اس خواہش اور کوشش کے لیے بھی ایک فقرہ یاد آ رہا ہے جس میں آنکھ کا لفظ بھی ہے اور یہ اس صورتحال کی عکاسی بھی کرتا ہے اور وہ ''Have stars in your eyes‘‘ ہے۔ اب دیکھیں سکھوں کو وطن نہ سہی‘ فوری انصاف بھی ملتا ہے یا نہیں؟
سر کے پیچھے آنکھ
بات چونکہ خفیہ ایجنسیوں کی ہو رہی ہے تو ان کے لیے یہ محاورہ ''Have eyes in the back of your head‘‘ بہت معنی خیز اور دلچسپ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اپنے اطراف کے حالات کو دیکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو حتیٰ کہ وہ بھی جو اس کی نظر سے اوجھل بھی ہو۔ یہ فقرہ تو پھر پانچ آنکھوں (Five eyes) والے خفیہ ایجنسیوں کے اتحاد کے پر مکمل فِٹ آتا ہے۔ ہم نے آج تمام محاورے اس لیے بھی صرف انگلش زبان سے لیے ہیں کیونکہ یہ پانچ ملکی اتحاد دراصل پانچ بڑے ممالک آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ کینیڈا‘ برطانیہ اور امریکہ کی ایجنسیوں کے درمیان ہے جہاں انگلش بولی جاتی ہے۔ بھارت کی جانب سے کینیڈا میں قتل کی واردات کے متعلق پانچ ایجنسیوں کے اس اتحاد نے مشترکہ طور پر یہ معلومات دی ہیں یعنی ان کا اس قتل کی واردات کے متعلق اتفاق ہے۔ ایسی صورتحال کے لیے بھی ایک محاورہ ''To see eye to eye‘‘ بولا جاتا ہے۔ اس فقرے کا مطلب مختلف لوگوں کا کسی ایک بات پر ایک ہی رائے رکھنا یا پھر کسی ایک بات پر متفق ہونا ہے۔ ایک طرف بھارت مغربی طاقتوں کا آلہ کار ہونے کی وجہ سے ان کی آنکھ کا تارا بھی ہے لیکن دوسری طرف ایک تضاد کچھ یوں پیدا ہو گیا ہے کہ اگر امریکہ اور برطانیہ کینیڈا کا ساتھ نہیں دیتے تو ان ممالک کے کینیڈا کے ساتھ تعلقات کمزور ہو سکتے ہیں۔ ویسے بھی عالمی سیاست میں طاقت کا قانون چلتا ہے اور اگر یہ قانون انصاف پر مبنی ہو تو اس میں انگریزی محاورے ''Eye for an Eye‘‘ کے اصول کا راج ہوتا ہے۔ اس فقرے کا صاف مطلب ہے کہ آنکھ کا بدلہ آنکھ ہے۔ اس بات کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن ایک بات ضرور ہے کہ بھارت کے لیے اپنی حد اور قد کی یاد دہانی کا وقت آن پہنچا ہے۔ بھارت جہاں اپنے چھوٹے ہمسایہ ممالک کو ایک آنکھ نہیں بھاتا‘ وہیں یہ اپنی پڑوسی عالمی طاقت چین کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ بھارت کی سی پیک کی مخالفت‘ ایک ایسا اندھا پن ہے جو اس کو کسی کھائی میں بھی گرا سکتا ہے۔ بھارت کو اس خطے کی ابتر صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی آنکھیں مشرق کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بھارت کو صرف ایک نظر اپنے وسائل اور مسائل پر ڈال لینی چاہیے۔ اگر بھارت ایسا نہیں کرتا تو مستقبل میں وہ عالمی نقشے سے اوجھل ہوتا نظر آرہا ہے لیکن پتہ نہیں یہ بھارت کے اداروں کو نظر کیوں نہیں آرہا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں