دن منانے سے دہائی دینے تک

ایک جاپانی عہدیدار سے سوال کیا گیا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد آپ کا ملک دوبارہ کس طرح اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا؟ تو اس کا جواب بہت سادہ لیکن بہت اہم تھا۔ اس نے کہا کہ ایٹم بموں کے گرنے کے بعد تباہ حال جاپان میں اگر آپ کو کوئی نئی عمارت تعمیر ہوتی نظر آتی تو بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ عمارت کسی تعلیمی ادارے کی ہو گی۔ تباہ حالی کے دور میں جاپان کا مکمل فوکس تعلیم پر رہا، اسی سبب جاپان نے جلد ہی وہ مقام پا لیا کہ لوہے کی صنعت میں جتنی پیداوار یورپ کا کوئی چھوٹا ملک کرتا تھا، اتنی پیداوار جاپان کا محض ایک کارخانہ کر لیتا تھا۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ چند دہائی قبل تک جاپان کی بنی ہوئی چیزوں کے حوالے سے ''جاپانی لوہے‘‘ کی اصطلاح سننے کو ملا کرتی تھی جو چیزوں کی مضبوطی اور پائیداری کی علامت تھی۔ یہ تمہید تعلیم دینے والوں کے لیے منائے جانے والے عالمی دن کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔ 5 اکتوبر کو عالمی سطح پر اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ مطلب تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا یہ ایک اور طریقہ اور دن ہے، جس میں تعلیم دینے والوں کوخراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ دنیا میں استاد کا مقام ہی قوموں کے مقام کا تعین کرتا ہے۔ اس بات کا اندازہ یوں بھی لگا سکتے ہیں کہ مغربی ممالک میں معاشرے کے افراد کی پیشوں کے اعتبار سے جو رینکنگ کی جاتی ہے اس میں کالج کے استاد کا چوتھا نمبر ہے۔ اس سے پہلے تین نمبروں پر صدر، وزیراعظم، ریاستوں کے گورنر اور ممبر سینیٹ وغیرہ آتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہاں پر کوئی کمشنر اور آئی جی وغیرہ بھی رتبے میں استاد سے اوپر نہیں ہوتا۔ اس رتبے سے مراد ہے عزت، احترام، پروٹوکول اور معاوضہ وغیرہ۔
تاریخ کا دورانیہ اور معیار
اگر تاریخ کے اوراق کا عرق نکالیں تو پتا چلتا ہے کہ انسان کی زندگی بنیادی طور پر ایک ساکن عمل کی طرح گزرتی رہی۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ انسانی ترقی کا راز صرف اور صرف جدت یعنی ایجادات میں ہے۔ سب سے پہلے انسان نے یہ دریافت کیا کہ اگر وہ خود بیج بوئے گا تو وہی فصل یا درخت اگنے سے اسے اپنی مرضی کا پھل اور مرضی کی فصل ملے گی۔ اس طرح قریب دس ہزار سال پہلے دنیا میں کھیتی باڑی کا آغاز ہوا، جسے انسانی تاریخ کا پہلا انقلاب مانا گیا۔ اس کے بعد ہزاروں سال اسی طرح بیت گئے۔ انسان محض دریافتیں کرتا رہا اوراس کی زندگی میں دھاتیں وغیرہ شامل ہو گئیں۔ پھر انسان نے چھوٹے چھوٹے شہروں کو آباد کر کے نئے مرحلے میں داخل ہونا شروع کیا۔ انسان کی زندگی میں اگلا انقلاب انہی چھوٹے شہروں سے آیاتھا۔ اس انقلاب کی بنیاد با ضابطہ تعلیم ہی نے رکھی تھی۔ تعلیم کا گڑھ یا بنیادی مرکز یونان بنا تھا۔ اس سر زمین پر پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ میں سائنس دانوں کی ایک لمبی لڑی نے سائنس کے مختلف شعبوں کی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ ان شعبوں کو عروج بھی بخشا۔ تاہم اگلے انقلاب کے لیے ابھی مزید جدت اور علم کی ضرورت تھی۔
اب اہلِ یونا ن کی طرز پر مسلمان سائنس دانوں کی ایک لمبی لڑی نظر آتی ہے جنہوں نے اہلِ یونان کی تحقیق اور کھوج کو آگے بڑھاتے ہوئے عملی طور پر بہت کچھ ایسا ایجاد کیا جو اس سے قبل نہیں ہوا تھا۔ یہ مسلم سائنس دانوں کا وہ احسان ہے جس کا قرض کبھی نہیں اتارا جا سکتا۔ مسلم ورلڈ اس طرح کے تعمیری اور تحقیقی کاموں کی طرف دوبارہ نہ لوٹ جائے‘ اس لیے مسلم ممالک کو Preventive Wars میں الجھائے رکھنے کا بندوبست کیا جاتا رہا۔ اس سلسلے میں جو ملک مسلم ہونے کے ساتھ ایشیا میں واقع تھے‘ ان کے الجھائو کو مزید یقینی بنایا جاتا رہا۔ اسی سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ''ایشیا میں Disorder رہے یہی مغرب کا ورلڈ آرڈر رہے‘‘۔ واضح رہے جب مسلم سائنس دانوں نے تعلیم و تحقیق کے میدان میں ساتویں صدی عیسوی میں یہ کارنامے سرانجام دیے تو اس وقت کے دور کو یورپی تاریخ دان ''ڈارک ایجز‘‘ یعنی سیاہ ادوار کا نام دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو تعلیم و تحقیق کے سرمائے سے روشناس کرانے والی مغربی سر زمین بالخصوص یونان اور روم جیسے ممالک مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔ اس وقت یورپ پر جہالت اور گمراہی کے تاریک بادل چھائے ہوئے تھے۔
رہنمائی اور حکمرانی کا ورلڈ آرڈر
آپ ورلڈ آرڈر کی اصطلاح سے یقینا واقف ہوں گے لیکن اس کی ایک قسم دنیا کی رہنمائی کرنے یعنی لیڈکرنے سے بھی متعلق ہے۔ لیڈر بننے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تعلیم، تحقیق اور ایجادات کی دنیا پر آپ کی حکمرانی ہو۔ وقت کی گردش کے ساتھ ساتھ جب ہزار سالہ عروج کے بعد مسلمانوں کی تعلیمی و علمی برتری زوال پذیر ہوئی تو یورپ دوبارہ تعلیم و تحقیق کے میدان میں ابھرنے لگا تھا۔ یورپ والے اس دور کو ''نشاۃِ ثانیہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب دوبارہ عروج پانا یا دوبارہ جنم لینا ہوتا ہے۔ آپ نے یہ اصطلاح یقینا مسلمانوں کے حوالے سے بھی سنی ہوگی کہ مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کا دور کب آئے گا۔ یہاں پر ایک دکھ کا اظہار بھی کرتے چلیں کہ ہمارے یہاں یورپی حتیٰ کہ قدیم یونانی مفکرین کا بھی خوب ذکر ہوتا ہے مگر مشہور ترین مسلم سائنس دانوں میں سے کتنوں کا ذکر کسی عالم کے منہ سے سنا ہے؟ یا یوں کہہ لیں کہ کتنے مسلم سائنس دان ہیں جن کا جنم دن یا یوم وصال کسی بھی مسلم ملک میں قومی سطح پر منایا جاتا ہے؟
بات کرتے ہیں یورپ کی جہاں تعلیم کے سبب دوبارہ انقلاب آیا مگر اس دفعہ یہ انقلاب شمال مغربی علاقوں مثلاً برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور فرانس جیسے ممالک میں آیا۔ اس تعلیمی اور تحقیقی انقلاب کے نتیجے میں مشینوں کی ایجادات ہوئیں۔ توانائی سے چلنے والی مشینوں نے صنعتی انقلاب کو جنم دیا جس کی بنیاد پر یورپ نے دنیا بھر پر اپنی حکمرانی کی بنیاد رکھی۔ صنعتوں کے قیام سے یورپ کے ہاں پیداوار اتنی زیادہ ہوگئی کہ ان کو پوری دنیا میں منڈیوں کی ضرورت پڑی، لہٰذا انہوں نے پوری دنیا کو اپنی استعماری طاقت سے سر نگوں کر لیا۔ اس سلسلے میں یورپ والوں نے جنگیں بھی کیں اور جنگوں میں جیت کی ایک بنیادی وجہ بھی ان کی عسکری برتری تھی جو صنعتی انقلاب ہی کے سبب تھی۔ یورپ کی تعلیم اور تحقیق کے میدان میں یہ برتری آج تک برقرار ہے۔ اگرچہ اس دوران اس کے ہم پلہ کچھ طاقتیں جاپان، سوویت روس اور اب چین کی شکل میں ضرور پیدا ہوئیں، لیکن کوئی یورپ کو پیچھے چھوڑ جائے اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یا یوں کہہ لیں کہ یورپی ممالک یہ سوال پیدا ہی نہیں ہونے دیتے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ مغربی ممالک اس نکتے پر یکجا اور یکساں ہیں کہ مشرق بالخصوص ایشیا میں عالمی تحقیقی طاقتیں پیدا نہ ہوں، اگر ہوں بھی تو انفرادی طور پر اور بکھری بکھری۔
یہ بات آج مزید واضح ہو جاتی ہے کہ مغرب والے اگر کسی کو اپنا ممکنہ حریف مانتے ہیں تو وہ بر اعظم ایشیا ہی ہے۔ ماضی سے لے کر آج تک کی تمام طاقتیں مغرب کے علاوہ ایشیا ہی سے آئی ہیں۔ اپنی دلچسپی کے لیے دنیا کے نقشے پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں، دنیا میں 80 سے 90 فیصد تنازعات صرف ایشیائی بالخصوص مسلم ممالک میں نظر آئیں گے۔ یہ تنازعات، فرقوں، غیر واضح اور متازع سرحدوں، اندرونِ ملک انتشار، علیحدگی پسند تحریکوں اور سب سے بڑھ کر آمریت کی شکل میں نظر آئیں گے۔ ہمارے خطے کے تناظر میں دیکھیں تو کشمیر کا مسئلہ کس مغربی طاقت کا پیدا کردہ ہے، ڈیورنڈ لائن کے تنازع کے پیچھے کون سا ملک ہے؟ بہرکیف‘ اب چین کا نئی عالمی، معاشی اور عسکری طاقت کے طور پر ابھرنا مغرب کو کھٹک رہا ہے اور ہر ممکن طریقے سے اس کو روکنے یا نقصان پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کا نمایاں ترین حریف امریکہ ہے جو ہر حد تک جا کر چین کو روکنا چاہتا ہے تاکہ اس کی حکمرانی کا ورلڈ آرڈر نہ ٹوٹے۔
ضروری نوٹ: نگران حکومت سے گزارش ہے کہ پاکستان کی بہت ساری سرکاری یونیورسٹیاں مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ اس سلسلے میں خصوصی فنڈز کا فوری اجرا ناگزیر ہو چکا ہے۔ امید ہے مہربانی کی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں