بڑے فہم‘ در اصل وہم

زیادہ تر لوگوں کا یہ جو فہم ہے کہ دنیا میں امن ہے‘ در اصل یہ ایک وہم ہے کیونکہ دنیا میں اس وقت ''منفی امن ‘‘ہے۔ اس صورتحال کو ''امن تھا‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اب دنیا کی تمام بڑی طاقتوں اور مسلم ممالک کے مابین مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کا میدان گرم ہو چکا ہے۔ یہ جنگ اگرچہ ایک چھوٹے سے علاقے میں ''شہری جنگ‘‘ کے طور پر لڑی جا رہی ہے لیکن اس میں دنیا کی حکمرانی کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔ اسے آپ نیو ورلڈ آرڈر کی لڑائی یا پھر نئی سرد جنگ کہہ سکتے ہیں‘البتہ اس میں پوری دنیا کی شمولیت اس طرح ہو جاتی ہے کہ اس میں عالمی رائے عامہ بھی شامل ہے جو واضح طور پر فلسطین کے حق میں ہے۔ اس آواز کو نمایاں کرنے میں سب سے بڑا کردار ایک عرب ٹی وی چینل الجزیرہ کا ہے۔ اس چینل نے جو سب سے اہم کام کیا ہے وہ یہ کہ یہ چینل عالمی سطح کے تمام بڑے ماہرین کی رائے اپنے پروگرامز میں شامل کرتا ہے، حتیٰ کہ اسرائیل کا موقف بھی پیش کرتا ہے۔ اس عمل سے دو دھڑوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ بالواسطہ طور پر چل نکلتا ہے۔
منفی امن، ترقی یا تباہی؟
بات ہو رہی ہے اس فہم کی جو دنیا میں پایا جاتا ہے اور جس سے مثبت دور کا تصور ابھرتا ہے، یعنی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا ترقی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن یہ ایک بہت بڑا وہم ہے کیونکہ دنیا ترقی کے بجائے تباہی اور تنزلی کی طرف بڑھ رہی بلکہ لڑھک رہی ہے۔ جنگوں ہی کی بات کر لیں‘ اس حوالے سے ماضی میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ یہ دو فوجوں کے درمیان ہوتی ہیں، لیکن اب ایک سویلین گروپ بھی چاہے تو ایک جنگ شروع کر سکتا ہے۔ اس کی بڑی مثالیں افغانستان میں امریکہ کے خلاف سویلینز کا مختلف گروپوں کی شکل میں لڑنا یا یوکرین میں ویگنر گروپ کا جنگ میں باقاعدہ فریق ہونا ہیں۔ ویگنر گروپ کا افریقہ میں بھی اثر ورسوخ موجود ہے اور وہاں بھی اس کی کئی برانچیں جنگیں لڑ رہی ہیں۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جنگیں اب ایک باقاعدہ کاروبار بن چکی ہیں۔ تاریخ کا ستم دیکھیں کہ دنیا میں سویلینز کو فوجوں کے خلاف لڑانے کایہ سبق یا طریقہ امریکہ ہی کا عطا کردہ ہے۔ امریکہ نے یہ طریقہ چوتھی نسل کی جنگ (فوتھ جنریشن وار فیئر) میں سرد جنگ کے دوران متعارف کرایا تھا۔ اس نسل کی جنگ کا سب سے بڑا مسئلہ خود جنگ ہی ہوتا ہے یعنی اس کے نتیجے میں بدلہ لینے کی فصل بوئی جاتی ہے جبکہ بدلے کی آگ ایک ایسی آگ ہوتی ہے جو کبھی نہیں بجھ پاتی اور کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں‘ دوبارہ بھڑک جاتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہوتی ہے کہ یہ آگ بھڑکنے اور پھیلنے میں نہایت تیز ہوتی ہے۔ بدلے کے حوالے سے یہ بھی دیکھا گیا کہ بدلہ اصل نقصان کے برابر نہیں رہتا بلکہ زیادہ نقصان کرنے ہی سے یہ پورا ہوتا ہے۔ اس موقع پر عیسائیت کے پیشوا‘ ویٹی کن کے پوپ کا بیان ہی لے لیں جنہوں نے بجا طور پر کہا ہے کہ ''جنگیں بدلے کو ضرب دے کر بڑھاتی ہیں‘‘۔ یہاں پر ایک فقرہ بہت شدت سے یاد آ رہا ہے کہ ''آج کی دنیا میں امن کو سب سے زیادہ خطرہ جنگوں سے ہے لیکن امن کے لیے جنگیں ناگزیر ہو چکی ہیں‘‘۔ اس فقرے پر غور کریں، اسے مکمل سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ آج کی دنیا ترقی کی طرف جا رہی ہے یا تباہی کی طرف۔
Explosion Vs Implosion
جب دھماکا ہوتا ہے تو ہوا کے دبائو سے چیز باہر کی طرف پھٹتی ہے لیکن تباہی صرف اس طریقے سے نہیں آتی۔ آئیے آپ کو ایک اورتباہی یا تباہی کے طریقہ کار کا بھی بتاتے ہیں جس کوImplosion کہتے ہیں۔ اس طریقہ کار میں دبائو اندر کی طرف بھرتا جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ چیز پھٹ کر تباہ ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال غبارے سے لے سکتے ہیں۔ اگر اس میں زیادہ ہوا بھر دیں یا مکمل طور پر پھولے ہوئے غبارے کو کوئی بھی نوکیلی چیز چبھوئیں تو وہ پھٹ جاتا ہے۔ اس غبارے کو پھاڑنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کو آہستہ آہستہ دبائیں تاکہ اس کی ہوا کم ہونا شروع ہو جائے، پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس کا پھیلائو تقریباً ختم ہو جائے گا اور یہ غبارہ پھیلائو اور حجم کے اعتبار سے بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔ مزید سمجھنے کے لیے ایک فٹ بال کی مثال بھی لے سکتے ہیں، یعنی اگر فٹ بال میں سے ہوا نکل جائے تو یہ اس قابل نہیں رہتا کہ آپ اس سے کھیل سکیں۔ اس کو نقصان اس طرح بھی پہنچایا جا سکتا ہے کہ ایک نوکیلی چیز مار کر اس کو پنکچر کر دیں۔ اس عمل کو Implosion کہا جاتا ہے۔ اس میں پھٹنے یا دھماکے کی آواز ہر گز پیدا نہیں ہوگی، لیکن متعلقہ چیز مکمل طور پر ناکارہ، تباہ یا کم از کم بے ضرر ہوجاتی ہے۔
اپنی سوچ اور سمجھنے کی صلاحیت کو پوری توجہ سے مرکوز کریں تو اندازہ ہو جائے گا کہ آج کی دنیا میں لوگ ہوں، معاشرہ ہو یا پھر ملک‘ سب کے سب اندرونی طور پر پڑنے والے دبائو کے تحت شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ یہاں دنیا کے کسی بھی معاشرے کی مثال لی جا سکتی ہے۔ چلیں‘ امریکہ کی مثال لے لیتے ہیں جو دنیا کی سب سے بڑی عسکری و معاشی طاقت ہے لیکن اس کی اندرونی حالت ایسی ہے کہ اکثر چیزوں پر یقین ہی نہیں آتا، مثلاً امریکہ میں سالانہ20ہزار کے قریب لوگ ماس شوٹنگ کے واقعات میں مارے جاتے ہیں۔ یہ ہندسہ سالانہ کسی بھی جنگ میں مارے جانے والے سویلین کی تعداد کے برابر ہے۔امریکہ میں یہ سلسلہ پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ میں محض پچھلے سات سال میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ قتل کیے جا چکے ہیں۔ اب آپ امریکہ کے پہلی عالمی جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں کی تعداد کا حساب لگائیں تو وہ اس سے کم ہوں گے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ امریکہ ابھی تک اس جنگی مشکل پر قابو پانے سے قاصر ہے، یعنی یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ لیکن دوسری طرف آپ امریکہ کی حکومت اور اداروں کی توجہ دیکھیں تو تمام کی تمام عالمی محاذوں پر مرکوز ہے۔
Attritional War
امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو اپنے اندرونی و بیرونی قرضوں کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خدشات سے دوچار ہے۔ اس ملک کے جنگی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کو یہ بھی خدشہ لاحق ہے کہ اگر اس نے یوکرین کی مالی اور عسکری مدد جاری نہ رکھی تو یوکرین کی جنگ کا خاتمہ روس کی فتح کی صورت میں بہت جلد ہو سکتا ہے۔ جب کوئی ملک جنگی محاذوں میں مشغول ہوتا ہے تو اس کا کم از کم نقصان بڑھتے جنگی اخراجات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ جنگوں میں اس طرح کودنے کے عمل کو‘ جس سے بدستور نقصان ہوتا رہے‘ Attritional War کہتے ہیں۔ اس عمل میں نقصان کو War Attrition بھی کہا جاتا ہے۔ اس Attritionکے عمل کو آپ علم جغرافیہ کی مدد سے زیادہ اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب دو پتھر پوری قوت سے آپس میں ٹکراتے ہیں تو دونوں کا کچھ نہ کچھ حصہ ٹوٹ کر علیحدہ ہو جاتا ہے۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ ٹکرانے والے پتھر بے شک سائز میں بڑے‘ چھوٹے ہوں، یعنی ایک بڑے پتھر سے کوئی چھوٹا پتھر زور سے ٹکرائے تو بڑے پتھر کا کچھ نہ کچھ نقصان ضرور ہو گا۔ امریکہ کو اگر ایک پتھر سے تشبیہ دی جائے تو یہ سائز میں جتنا بھی بڑا ہو‘ یہ مسلسل اتنے زیادہ چھوٹے پتھروں سے ٹکرا رہا ہے کہ اس کا اپنا سائز بدستور کم ہوتا جا رہا ہے۔ ابھی اس کا براہِ راست ٹکرائو دنیا کی دوسر ی بڑی طاقت یعنی دوسرے بڑے پتھر چین سے نہیں ہوا۔ لیکن روس کی شکل میں ایک بڑا پتھر بار بار امریکہ سے مختلف جگہوں پر اس طرح ٹکرا رہا ہے کہ امریکہ کا سائز مسلسل کم ہو رہا ہے اور اسے اس کا اندازہ ہی نہیں؛ البتہ اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہو رہا ہے۔
نوٹ: جب پتھر مسلسل ٹوٹتا رہتا ہے تو اس کے سائز کے ساتھ ساتھ ہیئت یعنی شکل بھی بدل جاتی ہے، یہ بدلتی شکل ہی نیا ورلڈ آرڈر ہے، جس کی لڑائی اس وقت جاری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں