میڈیکل سائنس کی دنیا میں سب سے زیادہ اقسام جس مرض کی پائی جاتی ہیں اس کو فوبیا کہتے ہیں۔ Phobiaیونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کسی بھی چیز، صورتحال، رنگ یا مقام کا خوف ہے۔ ہر انسان کے اندر مختلف قسم کے خوف پائے جاتے ہیں جنہیں فوبیا سے موسوم کیا جاتا ہے، جیسے کسی شخص کو اندھیرے سے خوف آتا ہے، کچھ لوگوں میں بلند مقام کا خوف پایا جاتا ہے، کبھی کسی مخصوص رنگ سے ایک خاص قسم کی ناپسندیدگی یا خوف آتا ہے۔ یہ سب فوبیا کی مختلف اقسام ہیں۔ کسی چیز، فردیا جگہ سے خاص قسم کی نفرت یا کراہت بھی اسی ضمن میں آتی ہے۔
آج کا جدید دور مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد قسم کے نظریات کا حامل ہے۔ اس قسم کی صورتِ حال میں پیدا ہونے والے خوف کو Allodoxa phobia یعنی Fear of opinions کہا جاتا ہے؛ مختلف نظریات یا رائے کا خوف۔ اس بات کو آگے بڑھائیں تو پتا چلتا ہے کہ آج کی دنیا میں مشکلات بہت زیادہ ہو چکی ہیں، اس سے مراد صرف روزگار کا حصول یا مالی مشکلات نہیں ہے بلکہ آج کی دنیا میں امن، سکون اور سکیورٹی کا تصور ممکن نہیں رہا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کے شہر ممبئی میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا کہ ایک خاتون نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کر کے شکایت کی کہ اس کا سکون گم ہو گیا ہے، تلاش کرنے میں اس کی مدد کی جائے۔ اس کے جواب میں پولیس نے کہا: یہ مسئلہ بہت سارے لوگوں کے ساتھ ہے (یعنی ان کا بھی سکون کھو چکا ہے)، آپ اس کو اپنی روح میں تلاش کریں۔ مگر اب بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ روح کا سکون یا دماغ کو مطمئن رکھنے کی کوشش اس وقت دنیا میں سب سے تیزی سے ناپید ہونے والی چیز ہے۔
دنیا کی جنگی صورتحال
آج کا دور میڈیا کا دور ہے، جہاں ایک موبائل فون کی شکل میں ہر وقت دنیا بھر کی خبریں، ہر لمحہ لوگوں تک پہنچتی رہتی ہیں۔ ان خبروں کا بڑا حصہ جنگوں، شورش اور ہیجان آمیز خبروں پر مشتمل ہے۔ یوکرین اور فلسطین کے گرم محاذوں کے علاوہ قدرتی ماحول کی خرابی، ملکوں کے اندر جاری جنگی کشمکش، خودکشی اور خونیں حادثات کی خبریں اب ایک معمول بن چکی ہیں۔ آپ فلسطین کی خبروں ہی کو لے لیں‘ جہاں عام شہریوں سمیت چھوٹے بچوں کی ہلاکت کی خبریں، اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ہر وقت دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس قسم کی خبروں سے ہر کوئی ایک ہیجان کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہم ذکر کر رہے ہیں فوبیا کی قسموں اور شکلوں کا‘ لہٰذا ہر حساس شخص پر اس قسم کی خبروں کا منفی اثر ضرور ہوتا ہے۔ کسی بھی حادثے کی خبر کسی بھی شخص کو ایک مستقل خیال کی شکل میں جکڑ سکتی ہے۔ اس طرح کی ذہنی ہیجان کی صورت سوئے ہوئے شخص کو اضطراب میں مبتلا کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں وہ شخص ایک مستقل ذہنی مصیبت کا شکار ہو سکتا ہے۔ لوگ اسی طرح مستقل ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آپ اپنے طور پر مشاہدہ کر لیں، کسی بھی شخص کے ساتھ گفتگو کر کے دیکھ لیں‘ وہ یہی کہے گا کہ دنیا میں بہت ظلم ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ خود بھی بہت ڈپریس رہتا ہے۔ آپ ٹینس کی اُس کھلاڑی کا واقعہ ہی دیکھ لیں، جس نے ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد اپنی فتح اور انعامی رقم‘ دونوں مظلوم فلسطینیوں کے نام کردیں۔ خاتون کھلاڑی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور دورانِ انٹرویو رو پڑی جس سے سارا ماحول مغموم ہو گیا۔ اگر اسی واقعے کو دیکھیں جو بظاہر ایک کھیل کا ایونٹ تھا، لیکن اس سے موقع پر موجود اور ٹی وی دیکھنے والے تمام لوگ غمگین ہو گئے۔ اب موبائل فون کی شکل میں ہر شخص کے ہاتھ میں موجود میڈیا کو دیکھ لیں‘ پتا چلتا ہے کہ ہر شخص کو ایک انجانا خوف لاحق ہوتا ہے کہ کہیں اس کا موبائل کھو نہ جائے یا اس کے موبائل کے ساتھ کوئی مسئلہ نہ پیش آ جائے، یہ بھی ایک فوبیا ہے جس کا نام NomoPhobiaہے۔ آپ کو وٹس ایپ کے بانی کے وہ الفاظ یاد ہوں گے کہ اس نے کہا تھا کہ اس نے یہ ایجاد صرف ضروری گفتگو کے لیے کی تھی نہ کہ اس صورتِ حال کے لیے کہ جو اس سے اب پیدا ہو چکی ہے۔ لوگ گاڑی چلاتے وقت، سیر کرتے ہوئے، دفتر میں کام کرتے ہوئے اور دیگر کاموں کے دوران اس قدر فون کا استعمال کرتے ہیں کہ اس کو باقاعدہ نشے کی لت (Addictive) قرار دیا جاتا ہے۔ باقی باتیں چھوڑیں‘ اب تو ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں بھی اس بات پر غور کر رہی ہیں کہ وہ لوگوں کا ''سکرین ٹائم‘‘ کس طرح کم کریں۔ مطلب اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں کام کاج کے جو آٹھ گھنٹے ہیں‘ وہ اور اپنی ذات پر خرچ ہونے والے آٹھ گھنٹے‘ ان کا بیشتر وقت موبائل پر صرف ہی نہیں بلکہ ضائع ہو رہا ہے۔ اگر بات کی جائے باقی آٹھ گھنٹوں کی‘ جو سونے کے لیے ہیں‘ تو تھوڑا غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ موبائل اس میں سے بھی کافی وقت لے جاتا ہے۔ اندھیرے میں موبائل کے استعمال سے جو منفی اثر آنکھوں پر ہوتا ہے وہ ایک اضافی مشکل ہے۔ باقی مشکلات کا حل تو انسان کے بس میں نہیں لیکن اس ایک آلے سے ہونے والے نقصانات میں کمی لانا تو انسان کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے۔
صرف سانس لینا زندگی نہیں
آپ نے یہ فقرہ تو ضرو سن رکھا ہو گا کہ صرف سانس لیتے رہنا ہی زندگی نہیں کہلا سکتا۔ اسی فقرے کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جو زندگی مرضی سے نہ گزاری جائے‘ اس کو عمر کاٹنا کہتے ہیں‘ زندگی وہ ہوتی ہے جو اپنی مرضی سے گزاری جائے۔ یہاں پر ذکر لازم ہو جاتا ہے مڈل کلاس کا، جسے ایک بہترین کلاس کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ کثرت اور قلت‘ دونوں سے پاک ہوتی ہے۔ مڈل کلاس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ معاشی طور پر ہر وہ شخص مڈل کلاس میں شمار ہوتا ہے جو اپنی آمدنی کا تیسرا حصہ اپنی مرضی سے خرچ کر سکتا ہو۔ اگر اس معیار کو لیں تو پاکستان جیسے ملکوں میں مڈل کلاس یعنی درمیانہ طبقہ سرے سے ختم ہو چکا ہے۔ اس سکت کو ختم کرنے والی چیز کا نام انرجی ہے، یعنی بجلی اور پٹرول کی قیمتیں۔ اب انرجی کا بل اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ مڈل کلاس کا شاید ہی کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہو کہ وہ اپنی آمدن کا تیسرا حصہ اپنی مرضی سے خرچ کر سکتا ہے بلکہ اس کی آمدن کا بڑا حصہ تو اب انرجی پر ہی خرچ ہوتا ہے۔
پوری دنیا میں اب معاشی طور پر تنگ ہوتا دائرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ انرجی کا بل سردیوں کے موسم میں مغربی ممالک میں بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ ان ممالک میں سردی کی شدت اتنی ہوتی ہے کہ ہیٹر کے بغیر وہ لوگ زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد ان ممالک میں جو فوبیا واضح طور پر ایک وبا بن چکا ہے وہ ذاتی زندگی میں تنہا رہ جانے کا خوف ہے جس کو Auto Phobia یا MonoPhobiaکہا جاتا ہے۔ بیشتر مغربی ممالک میں خاندان بطور سماجی ادارہ ختم ہو چکا ہے، لوگ صرف ایک جوڑے کے طور پر رہتے ہیں، شرحِ پیدائش بہت کم ہے۔ بچے جیسے ہی بالغ ہوتے ہیں‘ وہ اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں لہٰذا اپنی زندگی‘ انفرادی آزادی کے نام پر‘ اکیلے جینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مغربی ممالک میں بوڑھوں کے لیے بنے شیلٹر ہومز تنہائی کی زندگی گزارنے والوں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ لوگ اپنے پیاروں کی کسی تہوار کے موقع پر بھی آمد کو ترس جاتے ہیں۔ بوڑھوں کے لیے بنی ان پناہ گاہوں میں ایسے لوگوں کو ملازمت دی جاتی ہے جو ان بوڑھے لوگوں کے ساتھ دو گھڑیاں بیٹھ سکیں، جو ان سے گفتگو کر سکیں۔ مذکورہ بیان کی گئی دونوں صورتوں میں یہ بات بجا طور کہی جا سکتی ہے کہ مرضی کے مطابق اپنی زندگی نہ گزار سکنا، صرف سانس لینا ہی ہے اور صرف سانس لینا کسی بھی طور پر زندگی نہیں ہے ۔
اگر سانس لینا بھی دشوار ہو جائے تو
اب ایک ایسے علاقے میں چلتے ہیں جہاں زندگی اتنی سخت اور کٹھن ہو چکی ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے۔ آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ہم بات کر رہے ہیں جنوبی ایشیا کی‘ جہاں دو ارب لوگ زہریلی دھند نما ہلاکت خیز فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ مطلب یہاں اب سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے۔ لاہور شہر دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے۔ دنیا کے نوے فیصد آلودہ ترین شہر جنوبی ایشیا میں واقع ہیں۔ ان شہروں میں سانس لینا چوبیس گھنٹوں میں چالیس سے پچاس سگریٹ پینے کے مترادف ہے۔ یہ کسی ایک ماہر یا ماہرین کے ایک گروپ کا خدشہ نہیں بلکہ ایک ناقابلِ تردیدحقیقت ہے۔ عالمی اداروں کی تحقیقات کے مطابق اس خطے میں رہنے والوں کی اوسط عمر چھ سے سات سال تک کم ہو چکی ہے۔ اس زہریلی دھند کی وجہ سے انسان ہی نہیں جانور اور فصلیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ اس زہریلی دھند کو پانچویں موسم کا نام دیا جاتا ہے اور اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب اس کا دورانیہ ہر سال بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ پہلے ایک بارش ہونے سے یہ آلودگی ختم ہو جایا کرتی تھی، لیکن اب گزشتہ دو‘ تین سال سے یہ مضرِ صحت موسم تمام سردیوں تک جاری رہتا ہے۔
اس سے پہلے پانچواں موسم انسان کے اندر کی دنیا یعنی اس کی ذہنی کیفیت کو کہا جاتا تھا، لیکن اب یہ پانچواں موسم سموگ کی نذر ہو چکا ہے۔ اس میں ذہنی کیفیت کا خراب ہونا بھی ایک فوبیا سے کم نہیں ہے۔ ویسے اس آلودگی کا ایک بڑا ذریعہ مٹی اور دیگر ذرات ہیں جس کو Amatho Phobia کہا جاتا ہے، جبکہ اس آلودگی سے بے شمار بیماریاں پھیلتی ہیں اور ان بیماریوں کے فوبیا کو Patho Phobia کہا جاتا ہے۔ ویسے فوبیا کا بنیادی مطلب وہم ہوتا ہے، لیکن اب یہ وہم ایک حقیقت بن چکے ہیں۔