کرکٹ، سموگ اور ٹائم آئوٹ

بارش اور کم روشنی کے بعد اب آلودگی ایک ایسی وجہ بن رہی ہے جس کی وجہ سے کرکٹ میچ رک سکتا ہے۔ اس کا اندازہ سوموار کے روز سری لنکا اور بنگلہ دیش کے مابین کھیلے گئے میچ سے قبل اس وقت ہوا جب ان خدشات کا اظہار کیا گیا کہ شاید یہ میچ منسوخ کرنا پڑ جائے۔ اس سے پہلے بھارت ہی میں 2017ء میں ایک عجیب اور اپنی نوعیت کی پہلی صورتِ حال اس وقت پیدا ہوئی تھی جب سری لنکا اور بھارت کے درمیان کھیلے گئے ایک میچ میں متعدد سری لنکن کھلاڑیوں نے قے یعنی الٹیاں کرنا شروع کر دی تھیں۔ اس میچ میں متعدد کھلاڑیوں نے سانس لینے میں دشواری کا بھی اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ (سری لنکا کے) کھلاڑیوں نے منہ پر ماسک چڑھا کر میچ کھیلا۔چونکہ ورلڈکپ کرکٹ کی دنیا کا سب سے بڑا ایونٹ ہے اس لیے کہ بھارت کا مزید منفی امیج نہ ابھرے‘ لہٰذا سری لنکا اور بنگلہ دیش کا میچ دہلی ہی میں کرایا گیا۔ اس میچ سے قبل بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں نے ایک دن پہلے ہونے والے پریکٹس سیشن میں حصہ نہ لیا اور اپنے کمروں تک ہی محدود رہے۔ واضح رہے کہ کمروں کے اندر ہوا صاف کرنے والی مشینیں (Air Purifier) لگائی گئی ہیں۔ سری لنکا کے کھلاڑیوں کی جانب سے جو تھوڑی بہت پریکٹس کی گئی‘ اس کی ایک فوٹو جاری کی گئی جسے دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ کھلاڑی گہری دھندلی فضا میں کھیل رہے ہیں۔ اس موقع پر سری لنکا کے کوچ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم یہاں (دہلی) آئے تو ہم نے ماسک پہنے ہوئے تھے کیونکہ ہمیں ماسک پہننے کے لیے کہا گیا تھا، ہم ہوا کے معیارکا جائزہ لے رہے ہیں۔ مزید یہ کہ آئی سی سی کی ایک ٹیم بھی موجود ہے جس میں میڈیکل ماہرین بھی موجود ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش ٹیم کے منیجر نے بھی اپنے بیان میں بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آلودگی سے دونوں ٹیمیں متاثر ہو رہی ہیں، لیکن چونکہ ہمارے پاس کوئی اور چوائس نہیں ہے اس لیے ہمیں ان (آلودہ )حالات ہی میں کھیلنا پڑے گا۔
سموگ میں کرکٹ کا مستقبل ؟
ورلڈکپ تو چونکہ سب سے بڑا ایونٹ ہے، اس لیے چارو ناچار سبھی ٹیمیں کھیلنے پر مجبور ہیں اور کھیل رہی ہیں لیکن آئندہ کے حوالے سے ایک منظر نامہ بہت واضح نظر آ رہا ہے وہ یہ کہ اگلی بار سے بھارت کا دورہ کرنے سے پہلے ٹیمیں آلودگی کی وجہ سے ہچکچاہٹ کا اظہار ضرور کیا کریں گی، یا کم از کم اتنا ضرور ہوگا کہ بھارت کا وہ علاقہ جہاں کی فضا مضرِ صحت ہے‘ وہاں پر میچز نہیں رکھے جائیں گے۔ اس سے قبل صرف انہی ملکوں میں کھیلنے سے اجتناب کیا جاتا ہے جہاں سکیورٹی کے ایشوز ہوتے ہیں اور جہاں حالات قابو میں نہ ہوں۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ پاکستان میں کرکٹ کو بحال کرنے کے لیے بہت زیادہ تگ ودو کرنا پڑی تھی۔ پہلے پی ایس ایل کے کچھ میچز پاکستان میں کرائے گئے، پھر یہ پورا ٹورنامنٹ پاکستان میں منعقد کرایا گیا۔ اسی طرح پہلے زمبابوے اور سری لنکا جیسی ٹیمیں آئیں اس کے بعد ہی بڑی ٹیموں نے پاکستان آنے کی ہامی بھری اور پاکستان کے دورے شروع ہوئے۔یہاں بھارت کی جانب سے ایک بار پھر سازش کی گئی اور نیوزی لینڈ کے دورۂ پاکستان کے دوران انہیں سکیورٹی کے حوالے سے ای میلز کی گئیں جس کی وجہ سے نیوزی لینڈ کی ٹیم نے اپنا دورہ منسوخ کرکے پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ تاہم بعد ازاں نیوزی لینڈ کی ٹیم نے دوبارہ دورۂ پاکستان کر کے اس کا ازالہ کر دیا۔ یہاں جو بات بہت اہم ہے وہ یہ کہ بھارت جنوبی ایشیا کا سب سے زیادہ آلودہ ملک ہے۔ آلودگی چونکہ ہوا میں معلق رہتی ہے اور اگر ہوا آلودہ علاقے سے کسی اور علاقے کی جانب چلے تو وہاں بھی آلودگی ساتھ لے جاتی ہے۔ اب یہی اس علاقے کی مصیبت بنی ہوئی ہے کہ بھارت کی جانب سے ہوا جس طرف کو بھی چلتی ہے‘ وہاں بھی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔ اس کا شکار لاہور شہر سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔ آپ اس امر کو اپنے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں، اس کے لیے کسی بھی انٹرنیشنل موسمیاتی ویب سائٹ پر جائیں اور موسم کا حال دیکھیں۔ اس میں ہوائوں کے رخ پر فوکس کریں، جس دن ہوا کا رخ بھارت سے پاکستان کی طرف ہو گا‘ لاہور سمیت پاکستان کے شہروں میں آلودگی کی شرح واضح طور پر بڑھ جائے گی۔
دہلی کا سانس گھٹ رہا ہے
بھارت کی ریاست ہریانہ کے لوگوں کی اوسط عمر میں آٹھ سال کی کمی ہو چکی ہے۔ بھارت کے دارالحکومت دہلی میں سموگ کی وجہ سے سکولوں کو دس نومبر تک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کو سموگ کے تدارک کے لیے خط لکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ اس ہفتے کی تین بڑی خبریں ہیں جو مجرمانہ انسانی غفلت، نا اہلی اور لوگوں کے سانس تک نہ لے سکنے کی بے بسی کا براہِ راست اظہار ہیں۔ بھارت کے انگریزی جریدے ہندوستان ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق‘ دنیا کے بیس آلودہ ترین شہروں میں سے چودہ شہر بھارت میں واقع ہیں۔ دہلی کی مقامی حکومت نے کچھ اقدامات کا اعلان کیا ہے لیکن حالات وقت کے ساتھ ساتھ مزید بگڑ رہے ہیں۔ پہلے ایک بارش کا انتظار کیا جاتا تھا کہ بارش ہوگی تو تمام گرد نیچے بیٹھ جائے گی لیکن اب بارش برسنے کے باوجود دوبارہ آلودگی فضا پر قابض ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اس سے بھی ضروری بات یہ ہے کہ یہ اقدامات صرف اس آفت کے آنے پر نہیں ہونے چاہئیں بلکہ سار سال ان پر عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ اس میں دھواں دینے والی گاڑیوں پر کریک ڈائون اور غیر معیاری ایندھن کے استعمال والی فیکٹریوں پر پابندی سمیت دیگر تما م حفاظتی تدابیر اپنانے کی ضرورت ایسے ہی ناگزیر ہو چکی ہے جیسے انتہائی نگہداشت کے مریض کے لیے ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ ماضی کی جو تہذیبیں اپنا وجود کھو بیٹھی تھیں‘ ان کے ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہی تھی۔ اِس جدید دور میں ماہرین جن علاقوں میں زندگی ختم ہونے کی وارننگز پہلے ہی جاری کر چکے ہیں ان میں بیشتر جنوبی ایشیا کے شہری علاقے ہیں۔ یہ بات محض ذہن نشیں ہی نہیں بلکہ ذہنوں پر نقش رہے کہ اس قیامت خیز بربادی کا آغاز ہو چکا ہے اور لوگوں کی اوسط عمر کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگلا مرحلہ ماہرین کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے آلودہ ترین علاقوں سے لوگ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہجرت کرنے لگیں گے۔
Timed Out
کرکٹ ورلڈ کپ کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں میں ایک منفرد اور عجیب خبر یہ ہے کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے میچ کے دوران ایک سری لنکن کھلاڑی کو عجیب وغریب طریقے سے آئوٹ قرار دیا گیا۔ اس کو کمنٹریٹرز نے انٹرنیشنل کرکٹ کا پہلا واقعہ قرار دیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ سری لنکا کے کھلاڑی اینجلو میتھیوز جب بیٹنگ کرنے کے لیے آئے تو وہ کریز پر پہنچ کر تین منٹ تک پہلی گیند کھیلنے کے لیے تیا ر نہ ہو سکے۔ کرکٹ کے ضوابط کے تحت اگر ایسی صورتحال پیش آئے تو کھلاڑی کو ٹائمڈ آئوٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر ایسا ہی ہوا۔ بنگلہ دیش کے کپتان نے آئوٹ کی اپیل کی اور امپائر آئوٹ دینے پر مجبور ہو گئے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس طرح سے کھلاڑی کے آئوٹ ہونے کا ماحولیاتی آلودگی بالخصوص سموگ سے کیا تعلق ہے؟ پہلی بات تو یہ کہ شدید فضائی اور لمبے دورانئے کی آلودگی کا مرکز جنوبی ایشیا ہی کا خطہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ لگتا ہے کہ اب یہ خطہ بھی ٹائمڈ آئو ٹ ہو چکا ہے، اس کا وقت بھی گزر چکا ہے یعنی مہلت ختم ہو چکی ہے۔ یہ 2015ء کی بات ہے کہ جب امریکی صدر اوباما نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو ان کو بتایا گیا تھا کہ بھارت میں اتنے دن تک قیام کرنے والے کی زندگی کے اتنے گھنٹے کم ہوجاتے ہیں، لیکن اس خطے نے نہ تو کوئی سبق سیکھا اور نہ ہی ہنگامی صورتحال کا ادراک کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سموگ مزید کتنی تباہی پھیلاتی ہے کیونکہ بھارت سرکار تو اپنی جارحانہ پالیسیوں میں مگن ہے اور یہ بھی نہیں جانتی کہ اس کے اپنے ملک کے وجود کو ماحولیاتی خطرہ ایک موذی مرض کی طر ح لاحق ہو چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں