وہم، گمان اور حقیقت

جنوبی ایشیا میں جاری ماحولیات کا جنگی نوعیت کا مسئلہ ہو یا پھر بھارت کا تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھنا‘ بالخصوص چین کے ساتھ چلنے والی سرحدی چپقلش اور چین مخالف سرگرمیوں میں امریکہ کی پراکسی جنگ لڑنا‘ ان سے متعلق تبصروں پر لوگ قدرے لاعلمی بلکہ جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ یقین نہیں کرتے۔ آئیے !اس بات کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کا ذکر تو اب عالمی میڈیا میں ہو رہا ہے اور مسلسل یہ کہا جارہا ہے کہ اس علاقے یعنی جنوبی ایشیا میں اگر آپ ایک سال تک قیام کر لیں تو آپ کی اوسط زندگی میں کئی ہفتوں کی کمی واقع ہو جائے گی۔ بالخصوص اگر یہ قیام اکتوبر سے فروری کے دوران ہو‘ جس دوران سموگ کی زہریلی دھند یہاں چھائی رہتی ہے‘ تو یہ زیادہ خطرناک ثابت ہو گا۔ یہاں بھارتی میڈیا پر چلنے والا ایک کمرشل یاد آرہا ہے، جس میں کہا جاتا ہے کہ بھارت میں اور کچھ چلے نہ چلے ' فوگ‘ ضرور چلتا ہے۔ فوگ ایک باڈی سپرے ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ فوگ کی جگہ سموگ کا لفظ استعمال کیا جائے۔ آج کل کے حالات میں جب اس کمرشل میں فوگ کا لفظ بولا جاتا ہے تو گمان ہوتا ہے کہ سموگ ہی کہا جارہا ہے۔
بھارت کے چھوٹے چھوٹے اقدامات
بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر کانپور میں اس سال جون کے مہینے میں مصنوعی بارش کا تجربہ کیا گیا۔ یہ سٹیشن بھارت نے 2017ء میں قائم کیا تھا۔ 'روزنامہ دنیا‘ کی وساطت سے راقم کی کوشش ہوتی ہے کہ آپ کو اس بارش کے طریقے سے متعلق مسلسل آگاہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں رواں ہفتے میں یہ خبر بھی آئی کہ دہلی کی انتظامیہ نے سموگ کے خاتمے کے لیے مصنوعی بارش سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن معلوم نہیں کہ معاملہ آگے چلتا ہے یا پھر سرکاری بابو اس کو آگے بڑھانے میں حسبِ سابق رکاوٹ پیداکر دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ بھارتی شہر کانپور میں قائم ''انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘‘ نے خود پہل کرتے ہوئے یہ تجویز اور اپنی خدمات حکومت کو پیش کی تھیں۔ بھارتی میڈیا نے اس خبر کو جمعرات کو نشر کیا لیکن یہ خبر نمایاں جگہ لینے میں اس لیے ناکام رہی کہ بھارت میں اس وقت کرکٹ ورلڈکپ جاری ہے۔ یہ کھیل ایک جادو کی طرح اس خطے کے لوگوں کے سر پر سوار ہے۔ راہ چلتے لوگ بھی ایک دوسر ے سے ''سکور کتنا ہوا ہے؟‘‘ پوچھتے نظر آتے ہیں۔ اگر 'سکور‘ کی بات کی جائے تو جنوبی ایشیا اس وقت آلودگی میں نت نئے عالمی ریکارڈ قائم کر رہا ہے‘جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس چار سو سے زیادہ کی شرح پر جا پہنچا ہے۔ واضح رہے کہ یہ آلودگی کا آخری یعنی خطرناک ترین درجہ ہے۔ آپ کسی بھی عالمی ویب سائٹ پر جا کر موسم کا حال چیک کریں تو جنوبی ایشیا کے تمام بڑے شہروں کی ہوا انتہائی خطرناک درجے میں آتی ہے۔ یہاں یہ بھی ذکر کرتے چلیں کہ مصنوعی بارش برسانے سے نہ صرف آلودگی میں کمی آتی ہے بلکہ پانی کی کمی پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بارش ہونے سے پانی زمین پر برستا ہے تو یہ زمین میں جذب ہو کر زیرِ زمین پانی کی سطح کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ بھارت سمیت جنوبی ایشیا جس اگلی آفت کا تیزی سے شکار ہو رہا ہے وہ پانی کی کمی ہے۔
ایک بات بھارت کو عالمی ملزم بناتی ہے‘ اور وہ یہ کہ یہ آلودگی کے معاملے میں دنیا بھر میں ایک گڑھ یعنی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا کے اسی فیصد آلودہ ترین شہر بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ بھارت سے آلودگی ہوا کے ساتھ اس کے پڑوسی ممالک میں جاتی ہے اور ان ممالک میں بھوٹان، نیپال، بنگلہ دیش اور پاکستان شامل ہیں۔ چین بھی بھارت کا ہمسایہ ملک ہے لیکن اس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ ملحقہ اس کی سرحدوں پر اونچے پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے جس کی وجہ سے چین بھارت سے آنے والی آلودہ ہوائوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ویسے بھی چین کا جو علاقہ بھارت کے ساتھ لگتا ہے وہاں انسانی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ چین کے ذکر سے یاد آیا کہ اس نے اپنے ہاں‘ بھارت کے کُل رقبے کے برابر علاقے پر موسم کنٹرول کرنے کا سسٹم لگانے کا کام شروع کر رکھا ہے۔ چین اس سسٹم کے ذریعے بارشیں برسا کر اپنے ہاں پانی کی کمی پر قابو پانے اور گرمی کو کنٹرول کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بھارت چین کے اس منصوبے پر اعتراض تو کرتا ہے لیکن اس سے سیکھنے کی کوشش ہر گز نہیں کرتا۔ یہ بھی خبر سامنے آچکی ہے کہ پاکستان نے بھارت کو خط لکھ کر دہلی جیسے علاقوں کی آلودگی پر قابو پانے کا کہا ہے کیونکہ لاہور کی فضائی آلودگی میں اُس وقت شدید اضافہ ہو جاتا ہے جب ہوائوں کا رخ بھارت سے پاکستان کی طرف ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کہ بھارت اس علاقے کی آلودگی پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے یا نہیں کیونکہ جب بات پاکستان کو نقصان پہنچنے کی ہو تو بھارت کی اس میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے‘ خواہ ان اقدامات سے اس کا اپنا نقصان ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔ امید کرتے ہیں کہ بھارت مصنوعی بارش سمیت دیگر اقدامات سے آلودگی میں کمی لانے کی کوشش کرے گا۔ بھارت کو یہ کام اس لیے بھی کرنا چاہیے کہ آلودگی پر قابو پانااب اس کی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر یہ خطہ قائم رہے گا تو ہی بھارت بڑی معاشی اور علاقائی قوت بننے کے خواب دیکھنے کے قابل رہے گا۔
بھارت واقعی ترقی کر رہا ہے؟
بھارت کی حکمران جماعت اور نریندر مودی نے اگلے سال الیکشن لڑنا ہے مگر ان کے پاس عوام کو بتانے کیلئے کچھ خاص نہیں سوائے اس بات کے کہ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور جلد ہی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ اگر اس بات کا ایک تحقیقی جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ بھارت کی معیشت کا حجم بڑھنے کی وجہ اس کا آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونا ہے۔ بھارت نے حال ہی میں برطانیہ کی کُل معاشی پیداوار کو عبور کرتے ہوئے پانچویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ بھارت کی معیشت کا حجم اس وقت ساڑھے تین ٹریلین (3500 بلین) ڈالر ہے۔ اگر ہم دنیا کی تیسری بڑی معیشت یعنی جاپان کا جائزہ لیں تو اس کی معیشت کا حجم چار ٹریلین ڈالر ہے۔ فرض کریں کہ بھارت کی معیشت چار ٹریلین ڈالر ہو جاتی ہے یا اس سے بھی آگے بڑھ جاتی ہے تو اس کا مطلب بھارت کی معیشت کا آگے جانا نہیں ہو گا کیونکہ ایسی صورت میں بھارت کی ڈیڑھ ارب آبادی کی آمدن چار ٹریلین ڈالر ہوگی جبکہ جاپان کی کُل آبادی تیرہ کروڑ بھی نہیں ہے۔ اگر ہم اس کو تیرہ کروڑ مان کر چلیں تب بھی اس کے مقابل بھارت کی لگ بھگ ڈیڑھ ارب آبادی ہے۔ دونوں ممالک کا موازنہ کریں تو یہ ایک کے مقابل کم از کم گیارہ بنتا ہے۔ مطلب جتنی اوسط آمدن جاپان کے ایک شہری کے حصے میں آتی ہے اتنی ہی آمدن گیارہ بھارتیوں کے حصے میں آتی ہے۔
اس بات کو ایک اور طریقے سے بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت تاحال امریکہ ہے جس کی کُل سالانہ آمدن 25 ٹریلین ڈالر ہے۔ اس کے بعد چین کا نمبر آتا ہے جس کی سالانہ کل معاشی آمدن تقریباً 18 ٹریلین ڈالر ہے۔ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ چین امریکہ کے قریب ہے لیکن جب دونوں ملکوں کی آبادی کو دیکھا جائے گا تو اصل صورتحال سامنے آتی ہے۔ چین کی آبادی 140کروڑ کے قریب ہے جبکہ امریکہ کی آبادی 35 کروڑ۔ یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اوسط آمدن میں ایک امریکی کے مقابل چار چینی آتے ہیں۔ اس لیے اگر چین کی کل آمدن امریکہ سے بڑھ جائے تب بھی امریکہ ہی زیادہ امیر ہو گا کیونکہ اس کی آبادی چین کی آبادی کے پچیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس سے ہٹ کر ترقی کے اصل معیار یعنی ٹیکنالوجی کے شعبے کو دیکھیں اور ساتھ فی کس آمدن کو بھی شامل کر لیں تو بھارت تا حال دنیا کے تیسرے درجے کے ممالک یعنی ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے۔ آپ عالمی بینک سمیت دیگر عالمی اداروں کے جاری کردہ انڈیکس دیکھ سکتے ہیں۔ اگر بات ترقی سے متضاد امور کی کریں جیسے سیاسی و معاشرتی عدم استحکام، ماحولیاتی تباہی، بقا کے مسائل تو اس حوالے سے بھارت یقینا ٹاپ پوزیشنز کا حامل ملک ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں