چند ہفتے اور…

ماحولیات کے عالمی ماہرین کے سابقہ و حالیہ بیانات کے مطابق موجودہ سال یعنی 2023ء اوسط درجہ حرارت کے حساب سے انسانی تاریخ کا سب سے گرم سال ہے۔ مطلب گلوبل وارمنگ کی جس تھیوری کو کئی سال بلکہ دہائیاں ہو چکی ہیں‘ اب وہ ایک حقیقت بن چکی ہے۔ گلوبل وارمنگ کو اس کے مجموعی اثر کے حوالے سے موسمیاتی تبدیلیاں کہا جاتا تھا۔ اس کو ''تھا‘‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ موسمیاتی ماحول اس قدر خراب ہوچکا ہے کہ یہ تبدیلیاں اب موسمیاتی تباہیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ موسم کا تبدیلیوں سے تباہی کی جانب سفر مسلسل جاری ہے اور اب یہ مزید خرابی کی طرف گامزن ہو چکا ہے۔ اگر اس کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو تین نکات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں؛ سب سے پہلے دنیا کی آبادی کا آٹھ ارب سے زیادہ ہو جانا اور اس میں سالانہ آٹھ کروڑ کا اضافہ۔ دوسرا بڑا فیکٹر ہے کہ اس آبادی کا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماحول پر زیادہ اثر انداز ہونا یا پھر زیادہ بوجھ ڈالنا، اور تیسرا بڑا فیکٹر دنیا کی زیادہ تر آبادی بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک کا ماحول پرمنفی ترین اثر ہے۔ یعنی پسماندہ ممالک میں دھواں دینے والی گاڑیا ں عام چلتی ہیں۔ ربڑ کے پرانے ٹائر جلا کر انرجی حاصل کی جاتی ہے۔ کچی پکی سڑکوں پر مٹی اڑتی رہتی ہے، درخت لگانے کی سوچ ان میں نہیں پائی جاتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کل آبادی کا سالانہ نوے فیصد اضافہ انہی تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے۔
انسانوں کی پالیٹکس سے گرین پالیٹکس
انسانی تاریخ میں جب تک زراعت سب سے بڑا معاشی شعبہ تھا اور دنیا کی آبادی چند کروڑں میں ہوتی تھی‘ اس وقت بادشاہوں کا خیال تھا کہ ان کی رعایا کی تعداد زیادہ ہو، یعنی انسانی آبادی کو وسائل میں پہلا نمبر دیا جاتا تھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت زراعت کے لیے زمین لامحدود ہوتی تھی، اسی طرح چرا گاہیں اور جنگلات بھی بے شمار تھے، لیکن انسانی مزدوروں کی کمی ہمیشہ رہتی تھی۔ اسی طرح پانی کی کمی کا بھی کوئی تصو ر نہیں تھا کیونکہ لگ بھگ سبھی تہذیبوں نے بڑے دریائوں کے کناروں پر جنم لیا۔ خواہ وہ بابل و نینوا کی تہذیب ہو‘ قدیم مصر کی‘ موہنجودڑو اور مہر گڑھ کی یا کوئی اور۔ اب ذرا تصور کریں کہ اس وقت قدرتی ماحول کتنا زیادہ صاف بلکہ صحت افزا ہو گا ۔ اس دور میں مشینوں کا کوئی تصور نہیں تھا اور سارے کام ہاتھ سے چلنے والے آلات سے کیے جاتے تھے۔ اس دور میں بادشاہوں کا کام تھا کہ وہ اپنی رعایا کو بیرونی خطرے سے حفاظت فراہم کریں۔ یہ بیرونی خطرہ عمومی طور پر کسی دوسری ریاست کی طرف سے ہونے والا حملہ ہوتا تھا۔ اس بات کو مزید غور سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ حملہ اگر ہو بھی جاتا تو صرف سرحدوں پر ہوتا اور سرحدی چوکیاں اور وہاں موجود فوجی ہی ان حملوں کی زد میں آتے۔ اگر باقاعدہ جنگ ہوتی توبھی شہروں سے باہر‘ کسی کھلے میدان یا قلعہ کے گرد ہوتی تھی۔ جو اس جنگ میں جیت جاتا‘ وہی حکمران قرار پاتا۔ اگر حملہ آور فوج فاتح ہو جاتی تو نیا بادشاہ آ جاتا۔ البتہ یہ خبر پوری رعایا تک پہنچنے میں کئی دن حتیٰ کہ کئی ہفتے بھی لگ جاتے تھے ۔ ان حالات میں دور دراز مقیم شہریوں کے معمولاتِ زندگی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ نیا بادشاہ مفتوحہ علاقوں پر ٹیکس یعنی لگان کچھ زیادہ کر دیتا ۔ نئے بادشاہ کے لیے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہوتی تھی کہ اس کی رعایا میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ مزید رقبہ اس کی ریاست میں شامل ہونا ایک ثانوی بات تھی۔
اب ایک تلخ لیکن اہم بات‘ تاریخ کے پرانے ادوار میں جب جنگیں ہوتی تھیں تو شکست خوردہ لوگ غلام بنا لیے جاتے تھے۔ ان غلاموں سے اور کچھ نہیں بلکہ مزدوری کا کام لیا جاتا تھا۔ یہ مزدوری ان کو کھیتوں میں کاشتکاری کی شکل میں کرنا ہوتی تھی یا پہاڑوں کو کاٹ کر راستہ ہموار کرنا ہوتا تھا۔ تاریخ میں اکثر جنگیں محض اس لیے ہوئیں کہ لوگوں کو بیگار کے لیے اپنے ماتحت کیا جا سکے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت انسان ہی مالِ غنیمت ہوا کرتے تھے۔ اس وقت کے غلاموں کا حال بھی جان لیں کہ ان کی زندگی اور ان کے سرپرستوں کی زندگیوں میں زیادہ فرق اس لیے نہیں ہوتا تھا کہ خوراک سادہ ہوتی تھی ۔ لباس کی بات کی جائے تو اس میں بھی بہت زیادہ ورائٹی نہیں ہوتی تھی۔ اس کو سادہ لفظوں میں یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایک اَپر کلاس ہوتی تھی اور دوسری لوئر کلاس۔ مڈل کلاس کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اگر سفر کرنے کی بات کریں تو تمام لوگ جانوروں پر ہی سواری کیا کرتے تھے۔ فرق یہ تھا کہ امیر طبقے کی سواری زیادہ آرام دہ ہوتی تھی ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ بادشاہ کے لیے ایک بگھی تیار کر لی جاتی جس میں ایک سے زیادہ گھوڑے جوتے جاتے لیکن سفر کرنے کی رفتار سب کی لگ بھگ یکساں ہی تھی کیونکہ گھوڑے زیادہ ہونے سے بھی رفتار نہیں بڑھتی تھی کیونکہ جو بگھی گھوڑے کھینچتے تھے اس کے وزن میں اضافہ ہو چکا ہوتا تھاجبکہ بگھی کے اندر ایک سے زیادہ لوگ سوار ہوتے اور کچھ سامان بھی لادا جاتا تھا۔
سب لوگ خوشحال تھے
اس دور کے تمام لوگوں کو امیر نہ بھی کہیں تو خوشحال ضرور کہا جا سکتا ہے۔ بظاہر یہ بات عجیب لگتی ہے لیکن اس کو آج کے حالات کے حساب سے دیکھیں تو حیرتوں کا نیا جہان کھل جائے گا۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ سب لوگوں کو‘ بادشاہ سے غلاموں تک‘ سانس لینے کے لیے صاف ہی نہیں بلکہ صحت بخش ہوا میسر ہوتی تھی۔ پینے کا پانی بھی صاف اور محفوظ ترین تھا اور دریائوں کے سبب بہ آسانی میسر ہوتا تھا۔ یہ وہی دور ہے جب لوگ بہتے ہوئے دریا کے پانی کو بے جھجھک پی لیا کرتے تھے۔ اس دور کے تمام لوگوں کی خوارک ہر طرح سے خالص ہوتی تھی ۔ اس خوراک کے لیے کسی قسم کی مصنوعی کھاد کا تصور تک نہیں پایا جاتا تھا۔ یہی خالص خوراک جانور بھی کھاتے تھے جن کا دودھ اور گوشت لوگ استعمال کرتے تھے ۔ اس کے بعد جس دھوپ سے ان کا واسطہ پڑتا تھا وہ بھی خوب شفاف ہوتی۔ یاد رہے کہ صنعتی ترقی کے دور میں انسان نے سب سے پہلے اوزون لیئر کو نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے زمین پر وہ خطرناک شعائیں بھی پہنچناشروع ہو گئیں جو انسان اور جانوروں‘ دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ آج جب کسی علاقے کا موسم چیک کیا جاتا ہے تو اس میں ایک خاص بات ضرور نوٹ کی جاتی ہے‘ وہ یہ کہ الٹرا وائلٹ شعائوں سے ماحولیاتی خطرے کا درجہ کیا ہے۔ مختصراً یہ کہ پرانے وقتوں میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ چرند پرند اور جانور بھی صاف ہوا، صاف پانی، صاف دھوپ اور صاف زمین سے فیض یاب ہوتے تھے۔
اب ساری دنیا ہی بدحال ہو چکی
اس سارے پس منظر کے ساتھ آج کی دنیا کی بات کریں تو پتا چلتا ہے کہ اب سب لوگ بد حال ہوچکے ہیں۔ عالمی اداروں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ دنیا کی 99 فیصد آبادی کسی نہ کسی شکل میں آلودگی کا سامنا ضرور کرتی ہے۔ اب سوال ہے کہ یہ باقی کے ایک فیصد لوگ کون ہیں؟ تو گزارش ہے کہ آج بھی کچھ لوگ‘ جو دنیا کی کل آبادی کا ایک فیصدسے بھی کم ہیں‘ چھوٹے چھوٹے قبیلوں کی شکل میں دنیا کے مختلف جنگلات میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ آج بھی زرعی دور کی سی زندگی گزارتے ہیں، یعنی انتہائی سادہ۔ باقی دنیا کے صاحبِ اقتدارمارے مارے پھر رہے ہیں کہ اپنے ہاں جنگلات نہ سہی‘ درختوں ہی کی تعداد کو بڑھایا جائے۔ پینے کے صاف پانی کے لیے کچھ ایسا بندوبست کیا جائے کہ پانی نہ صرف محفوظ ہو بلکہ صحتمند بھی ہو۔ یہاں تو کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو پانی کی سہولت سے یکسر محروم ہو رہے ہیں اور نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
آخری بات مصنوعی بارش کے حوا لے سے: حکومت اس سلسلے میں ایک قدم مزید آگے بڑھ گئی ہے اور مصنوعی بارش برسانے کے منصوبے پر قائم ہے۔ منگل کو پنجاب کے چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ہوئے اجلاس میں اس کی منظوری کا اہم مرحلہ طے ہو گیا ہے، اب بس چند ہفتے اور۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں