بھارت کی بانی سیاسی جماعت کانگریس کی روحِ رواں سونیا گاندھی سموگ کی آلودگی کی وجہ سے دہلی یعنی بھارتی دارالحکومت سے پڑوسی ریاست راجستھان کے شہر جے پور کی طرف ہجرت کرگئی ہیں۔ اس بات کو تقریباً تین ہفتے بیت چکے ہیں۔ یعنی دہلی اور راجستھان کی فضا میں اتنا فرق ہے کہ سونیا گاندھی دہلی چھوڑ کر وہاں منتقل ہو چکی ہیں۔ راجستھان کی سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے۔ اسی ریاست میں بھارت کا سب سے بڑا ریگستان موجود ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اس ریاست میں آبادی بہت کم ہے۔ یہ ریاست رقبے کے اعتبار سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے جس کا رقبہ تین لاکھ بتالیس ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے جبکہ اس کی آبادی محض سات کروڑ ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا سب سے بڑا صوبے پنجاب ہے‘ جس کا رقبہ دو لاکھ پانچ ہزار مربع کلو میٹر سے کچھ زیادہ ہے لیکن آبادی تیرہ کروڑ سے بھی زائد ہے۔ بھارتی ریاست راجستھان کی صرف 25فیصد آبادی شہری علاقوں میں آباد ہے۔ یہ سارا منظر آپ کو یہ بات سمجھانے کے لیے پیش کیا گیا ہے کہ آلودگی کا زیادہ آبادی بالخصوص شہری آبادی سے کتنا قریبی تعلق ہے۔ اسی لیے سموگ ہو یا کوئی اور آلودگی‘ اس کا گڑھ بنیادی طور پر بڑے شہر ہوتے ہیں۔ یہاں پر یہ بھی بتاتے چلیں کہ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی دارالحکومت میں رہنے کا مطلب اپنی اوسط زندگی میں بارہ سال کی کمی کرنا ہے۔ یہ وہی شہر ہے جس میں 2015ء میں تقریباً دو دن قیام کرنے کے بعد امریکہ کے سابق صدر اوبامہ کو معالجین کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ جنابِ صدر آپ نے اپنی زندگی کے کچھ گھنٹے گنوا دیے ہیں۔
ماحولیاتی جبرکے تحت ہجرت
اب آتے ہیں اس مدعے کی طرف جس پر ہم نے بارہا بات کی ہے بلکہ تین سالوں سے مسلسل کر رہے ہیں کہ دنیا میں ماحولیاتی آلودگی لوگوں کی ہجرت کی اگلی بڑی وجہ بنے گی اور اس ہجرت کا سب سے بڑا مرکز جنوبی ایشیا ہوگا۔ اب سونیا گاندھی کی اپنے دارالحکومت سے رجستھان کی طرف ہجرت نے یہ مدعا بھی سچ ثابت کر دیا ہے کہ لوگ اپنے ہی ملک میں بڑے سے چھوٹے شہروں کی طرف بھی ہجرت کرسکتے ہیں۔ یہ تو سبھی جانتے ہی ہوں گے کہ سونیا گاندھی سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کی بیوی اور بھارت کے موجودہ سب سے بڑے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کی ماں ہیں یعنی وہ اعلیٰ اور امیر خاندانی پس منظر کی حامل ہیں ‘ جس کا مطلب ہے کہ ان کے گھر میں یقینا ہوا صاف کرنے کی مشینیں لگی ہوں گی‘ ان کی گاڑیاں بھی ایئر کنڈیشنڈ ہوں گی اور دفتر بھی لیکن پھر بھی انہیں آلودگی کی وجہ سے دوسری ریاست کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ اس صورتحال کا جو ایک اور پہلو نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ دہلی میں روز افزوں فضائی آلودگی کی وجہ سے مستقبل میں بھارت کو اپنا دارالحکومت بدلنا پڑ سکتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہاں پر قائم دیگر ملکوں کے سفارت خانے ہیں جن میں مقیم لوگ بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور آلودگی کی وجہ سے بھارتی شہریوں کی طرح ان کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ ویسے اس کا دوسرا حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھارت کم از کم اس شہر کی آلودگی ہی کو کنٹرول کر لے۔ ماحول کو صاف کرنے کے لیے دہلی سرکار نے بھی مصنوعی بارش کی تجویز پر غور تو کیا ہے۔ آپ اس سلسلے میں ہونے والی گفتگو کو بھارتی چینلز پر دیکھ سکتے ہیں۔
مجھے اس موضوع پر ہونے والا ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں عام آدمی پارٹی‘ جس کی دہلی میں حکومت ہے اور دیگر دو بڑی سیاسی پارٹیوں بی جے پی اور کانگریس کے نمائندوں کے مابین ہونے والی بحث بھری گفتگو سننے کا موقع ملا۔ اب وہی ہوا جو ہونا تھا‘ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں میں پروگرام کے آغاز میں ہی جھڑپ زدہ گفتگو شروع ہو گئی۔ بی جے پی کی نمائندہ خاتون نے جو سوال اٹھایا وہ یہ تھا کہ دہلی سرکار‘ یعنی عام آدمی پارٹی کب تک سموگ پر قابو پائے گی؟ اب اس ساری بحث میں زیادہ زور اس ایک بات پر تھا کہ کسان جو فصلوں کی باقیات جلاتے ہیں‘ وہ آلودگی کا سب سے بڑا سبب ہے لیکن وہاں موجود کوئی بھی تجزیہ کار یہ اعداد و شمار پیش کرنے سے قاصر تھا کہ فصلوں کی باقیات کو جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں کس حد تک سموگ کا ذمہ دار ہے۔ اگر عمل یہی آلودگی پھیلنے کا واحد سبب ہے تو بھارت کے دوسرے شہروں میں موجود آلودگی کی کیا وجہ ہے۔حتیٰ کہ اگر صرف دہلی ہی کی بات کریں اور فصلوں کی باقیات جلانے کو آلودگی کاواحد سبب ٹھہرائیں تب بھی یہ تاویل درست نہیں کیونکہ دہلی میں تو آلودگی سارا سال ہی پائی جاتی ہے جبکہ چاولوں کی فصلوں کی باقیات جلانے کا عمل تو زیادہ سے زیادہ نومبر تک ہی جاری رہتا ہے لیکن سموگ تو اس کے بعد بھی موجود رہتی ہے۔ سموگ تو اب جنوبی ایشیا کے پورے خطے میں پوری سردیاں موجود رہتی ہے۔ یہ بات تو پہلے بھی ہو چکی ہے کہ اس خطے کے شہروں میں سانس لینے کا مطلب روزانہ کی بنیاد پر تیس سے چالیس سگریٹ پینا اور اپنی زندگی میں کمی کرنا ہے۔ اسی لیے تو سونیا گاندھی کو دہلی سے دوسری ریاست میں منتقل کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب تک جے پور شہر میں قیام کرتی ہیں کیونکہ یہ سموگ تو کم از کم فروری کے آخر تک چھائی رہے گی۔ اگر کوئی ہنگامی انتظامات نہ کیے گئے تو یہ دورانیہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ ویسے تو بھارت نے رواں سال گرمیوں کے دنوں میں مصنوعی بارش کا ایک تجربہ کیا بھی تھا لیکن اب جبکہ مصنوعی بارش ناگزیر ہوچکی ہے تو پتہ نہیں کیوں دہلی سرکار یہ اقدام نہیں اٹھا پا رہی۔
اس پروگرام کی ساری گفتگو میں سب سے کمال کی بات یہ تھی کہ بی جے پی کی نمائندگی کرنے والی خاتون نے ساری بحث کو صرف دہلی تک محدود رکھتے ہوئے شرکا کو باقی شہروں کا ذکرہی نہیں کرنے دیا۔ سیاست دان کمال درجے کے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اُس مقام پر بھی پل بنانے کا وعدہ ہی نہیں کرتے بلکہ پل بنا بھی دیتے ہیں جہاں پر پل کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اب اس سلسلے کے ایک پروگرام میں ایک اینکر نے بہت کمال تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اگر سرکار عملاً کچھ نہیں کر سکتی تو کم از کم کچھ کرتی نظر تو آنی چاہیے۔ یاد رہے دہلی شہر کو گیس کا چیمبر کہا جاتا ہے اور اس کا آلودگی کے حوالے سے لاہور سے موازنہ کیا جاتا ہے کہ دونوں کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے‘ لیکن لاہور شہر کی انتظامیہ اب عملی طور پر مصنوعی بارش برسانے کے منصوبے پر سنجیدگی سے کام کرتی نظر آرہی ہے۔ سرکاری بابو اب منظوری دینے کے مرحلے سے انتظامات کی مکمل کرنے کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اس معاملے میں پنجاب حکومت کی دلچسپی اور دباؤ ہے۔
سانس سے خطرہ ہے لیکن زندہ رہنے
کیلئے سانس ضروری ہے
جنگوں سے متعلق کہا جاتا ہے کہ امن کو جنگوں سے خطرہ ہے لیکن امن یقینی بنانے کے لیے جنگیں ناگزیر ہیں۔اب مگر روز افزوں فضائی آلودگی کی وجہ سے ہم یہ کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ زندہ رہنے کے لیے سانس لینا ضروری ہے لیکن اس وقت زندگی کو سب سے زیادہ خطرہ سانس سے ہی ہے۔ اس کی وضاحت کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ زندہ رہنے کے لیے انسان کا ہر لمحے سانس لینا ضروری ہے لیکن آلودہ شہروں میں آپ جتنے زیادہ عرصے کے لیے رہیں گے‘ یعنی سانس لیں گے‘ آپ کی زندگی اتنی ہی زیادہ متاثر ہو گی۔ ہمارے ملک میں پہلے تو عوام روٹی‘ کپڑا اور مکان کے لیے سرگرداں نظر آتے تھے۔ روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے اب ان کی زندگی سے کپڑا اور مکان تو نکل ہی چکا ہے اور وہ صرف دو وقت کی روٹی کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ اب ان کی زندگی میں صاف پانی کے حصول کے لیے تگ و دو بھی شامل ہو چکی ہے۔ ایسی زندگی‘ جس میں انسان کو بنیادی سہولیات ہی میسر نہ ہوں‘ کوئی زندگی تو نہیں۔ لیکن اب لوگوں کو ایسی زندگی کے لیے بھی سر توڑ کوشش کرنا پڑتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مشکل پیدا ہو رہی ہے۔ لوگوں نے دن میں ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیا ہوا ہے۔ ملک میں اشیائے صرف آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ چلیں جیسے تیسے بھی لوگ مہنگائی میں گزارا تو کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس اس آلودگی کا کوئی حل موجود نہیں ہے جو ان کیلئے جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔ آلودگی کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اپنی نقل وحرکت کو کم کریں‘ لیکن اگر وہ نقل حرکت بند کر دیں گے تو کمائیں گے کیسے۔ بظاہر تو پنجاب کے بیشتر اضلاع میں سمارٹ لاک ڈاؤن نافذ ہے لیکن اس کے باوجود وہاں دھواں چھوڑنے والے کارخانے‘ اینٹوں کے بھٹے اور گاڑیاں اب بھی چل رہی ہیں۔ یہ تو ایسا ہی معاملہ ہے کہ کوئی شخص سخت بیمار ہو اور اسے ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے لے جانے کے بجائے صرف اس کی خاطر مدارت پر زور دیا جاتا رہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے بلا تاخیر ڈاکٹر کو دکھایا جائے۔ مہنگائی نے پہلے ہی لوگوں کے لیے جینا محال بنا رکھا تھا کہ اب آلودگی کی وجہ سے ان کے لیے سانس لینا بھی محال ہو چکا ہے۔