جدید دور کی جدید مشکلات

سوشل میڈیا کو عمومی طور پر غیر مصدقہ اور سنسنی پھیلانے والا فورم مانا جاتا ہے لیکن کبھی کبھار ایسی پوسٹس بھی نظر آ جاتی ہیں جو اس قابل ہوتی ہیں کہ انہیں آگے شیئر کیا جانا چاہیے۔ آج کے کالم کا آغاز بھی اسی قسم کی ایک پوسٹ سے کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک تحریری پوسٹ ہے جس کا عنوان‘ سوشل میڈیا کے روایتی الفاظ میں یہ ہے کہ ''ایک ایسی سچی کہانی جو آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی‘‘۔ اس عنوان میں کہانی کی سچائی پر تو شک کی گنجائش نہیں ہے لیکن جھنجھوڑنے والی بات سوشل میڈیا کا تڑکا محسوس ہوتی ہے۔ لہٰذا ''جھنجھوڑ کر رکھ دے گی‘‘ کو یوں پڑھا جائے کہ ''جھنجھوڑ سکتی ہے‘‘۔
وقت آگیا ہے کہ وقت ہی نہیں رہا
ہنری کا تعلق امریکہ کے شہر سیاٹل سے تھا، وہ مائیکرو سافٹ میں ایگزیکٹو منیجر تھا۔ اس نے 1980ء میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کیا اور اس کے بعد مختلف کمپنیوں سے ہوتا ہوا مائیکرو سافٹ پہنچ گیا۔ مائیکرو سافٹ کی نوکری اس کے کیریئر میں ''ہیلی پیڈ‘‘ ثابت ہوئی اور وہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا گیا۔ 1995ء میں وہ کمپنی کے بھاری معاوضہ لینے والے افراد میں شمار ہوتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جب تک ہنری کسی سافٹ ویئر کو مسکرا کر نہ دیکھ لے‘ مائیکرو سافٹ اس وقت تک اس سافٹ ویئر کو مارکیٹ میں نہیں اتارتی۔ ہنری نے کمپنی میں یہ پوزیشن بڑی محنت اور جدوجہد سے حاصل کی تھی۔ وہ روزانہ 16 گھنٹے کام کرتا تھا۔ وہ صبح 8 بجے دفتر آتا اور رات بارہ بجے گھر جاتا تھا۔ ہنری کا ایک ہی بیٹا تھا مگر دفتری مصروفیات کے باعث وہ اپنے بیٹے کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا تھا۔ وہ جب صبح اٹھتا تو اس کا بیٹا سکول جا چکا ہوتا تھا اور وہ جب دفتر سے لوٹتا تھا تو بیٹا سو رہا ہوتا تھا۔ چھٹی کے دن اس کا بیٹا کھیلنے کے لیے باہر نکل جاتا تھا جبکہ ہنری سارا دن سوتا رہتا تھا۔
1998ء میں سیاٹل کے ایک ٹیلی ویژن چینل نے ہنری کا انٹرویو نشر کیا۔ اس انٹرویو میں ٹیلی ویژن شو کے میزبان نے ہنری کا تعارف ان الفاظ میں کرایا کہ ''آج ہمارے ساتھ سیاٹل میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی شخصیت بیٹھی ہے‘‘۔ جب کیمرہ میزبان سے ہنری پر آیا تو اس نے فخر سے مسکرا کر کیمرے کو دیکھا اور اس کے بعد انٹرویو شروع ہو گیا۔ اس انٹرویو میں ہنری نے انکشاف کیا وہ مائیکرو سافٹ سے لگ بھگ 500 ڈالر فی گھنٹہ لیتا ہے۔ یہ انٹرویو ہنری کا بیٹا اور بیوی بھی دیکھ رہے تھے۔ جب انٹرویو ختم ہوا تو ہنری کا بیٹا اٹھا اور اس نے اپنا ''منی باکس‘‘ کھولا اور اس میں سے تمام نوٹ اور سکے نکال کر انہیں گننا شروع کر دیا۔ یہ ساڑھے چار سو ڈالر تھے۔ ہنری کے بیٹے نے یہ رقم جیب میں ڈال لی۔ اس رات جب ہنری گھر واپس آیا تو اس کا بیٹا جاگ رہا تھا۔ بیٹے نے آگے بڑھ کر باپ کا بیگ اٹھایا‘ ہنری نے جھک کر بیٹے کو پیار کیا۔ بیٹے نے باپ کو صوفے پر بٹھایا اور بڑی عاجزی کے ساتھ بولا: ''ڈیڈی! کیا آپ مجھے پچاس ڈالر ادھار دے سکتے ہیں؟‘‘ باپ مسکرایا اور جیب سے پچاس ڈالر نکال کر بولا: ''کیوں نہیں! میں اپنے بیٹے کو اپنی ساری دولت دے سکتا ہوں‘‘۔
بیٹے نے پچاس ڈالر کا نوٹ پکڑا اور اپنی جیب سے ریزگاری اور سارے نوٹ نکالے‘ پچاس ڈالر کا نوٹ ان کے اوپر رکھا اور یہ ساری رقم باپ کے ہاتھ پر رکھ دی۔ ہنری حیرت سے بیٹے کو دیکھنے لگا۔ بیٹے نے باپ کی آنکھوں میں دیکھا اور مسکرا کر کہا ''یہ پانچ سو ڈالر ہیں۔ میں ان پانچ سو ڈالرز سے سیاٹل کے سب سے امیر ورکر سے ایک گھنٹہ خریدنا چاہتا ہوں‘‘۔ ہنری سکتے کی سی حالت میں اپنے بیٹے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بیٹا مزید بولا ''میں اپنے باپ سے صرف ایک گھنٹہ چاہتا ہوں‘ میں اسے جی بھر کر دیکھنا چاہتا ہوں‘ میں اسے چھونا چاہتا ہوں‘ میں اسے پیار کرنا چاہتا ہوں‘ میں اس کی آواز سننا چاہتا ہوں‘ میں اس کے ساتھ باتیں کرنا چاہتا ہوں‘ میں اس ایک گھنٹے میں اس کے ساتھ ہنسنا‘ اور کھیلنا چاہتا ہوں۔ ڈیڈی! کیا آپ مجھے ایک گھنٹہ دیں گے‘ میں آپ کو اس کا پورا معاوضہ دے رہا ہوں‘‘۔ بیٹے کی باتیں سن کر ہنری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے اپنے بیٹے کو گلے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس ایک واقعے نے ہنری کی زندگی کا رخ بدل دیا۔
ہنری نے 1999ء میں ''فیملی لائف‘‘ کے نام سے ایک آرٹیکل لکھا۔ مجھے یہ مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ اس مضمون میں اس نے لکھا کہ دنیا میں سب سے قیمتی چیز خاندان ہوتا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی خوشی اور سب سے بڑا اطمینان ہماری بیوی اور بچے ہی ہوتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ انہیں سب سے کم وقت دیتے ہیں۔ ہنری کا کہنا تھا کہ دنیا میں سب سے بڑی بے وفا اور بے اعتبار چیز ہماری نوکری‘ ہمارا پیشہ اور ہمارا کام ہوتا ہے۔ ہم آج بیمار پڑ جائیں‘ آج ہمارا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو ہمارا ادارہ شام سے پہلے ہماری کرسی کسی دوسرے ورکر کے حوالے کر دے گا۔ ہم آج اپنی دکان بند کر دیں تو ہمارے گاہک کل کسی دوسرے سٹور سے خریداری کر لیں گے۔ آج ہمارا انتقال ہو جائے تو کل ہمارا شعبہ‘ ہمارا پیشہ ہمیں فراموش کر دے گا۔ لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ دنیا کی سب سے بیوفا چیز کو زندگی کا سب سے قیمتی وقت دیتے ہیں۔ ہم اپنی بہترین توانائیاں اس بے وفا دنیا میں صرف کر دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے دکھ درد کے حقیقی ساتھی ہوتے ہیں‘ جن سے ہماری ساری خوشیاں اور ہماری ساری مسرتیں وابستہ ہوتی ہیں اور جو ہمارے ساتھ انتہائی وفادار ہوتے ہیں‘ ہم انہیں بالکل فراموش کر دیتے ہیں‘ ہم انہیں اپنی زندگی کا انتہائی کم وقت دے پاتے ہیں۔
اپنے لیے ہی وقت نکال لیں
یہ تو بات ہوئی فیملی کو وقت نہ دینے کی مگر اب اس طرف چلتے ہیں‘ جو مذکورہ واقعے سے بھی آگے کا المیہ بیان کرتا ہے۔ اب حالات یہ ہو گئے ہیں کہ ایک شخص جو زندگی میں ترقی کے نام پر ہمہ وقت مصروف رہتا ہے‘ وہ اپنے خاندان تو کجا‘ اپنے لیے بھی وقت نہیں نکال پاتا‘ اپنی ذات کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر پا تا‘ بلکہ یوں کہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں خود اپنے آپ پر ظلم کر رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ خود کو وقت دینے‘ اپنے آپ سے انصاف سے کیا مراد ہے۔ تھوڑا سا غور کریں تو پتا چلے گا کہ ہمارے پاس ایک دن میں جو چوبیس گھنٹے ہیں‘ اس میں سے کم از کم ایک تہائی وقت یعنی آٹھ گھنٹے‘ جو سونے اور آرام کرنے کے لیے مخصوص ہیں‘ وہ بھی اب زندگی کی مصروفیات پر قربان ہو چکے ہیں۔ کم از کم آٹھ گھنٹے کی نیند پوری نہ کرنا اپنے آپ یعنی اپنے جسم کے ساتھ ایک ایسی زیادتی ہے‘ جو خوراک اور نیوٹریشن کی کمی کی طرح ہمارے جسم کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ جی ہاں! اگر آپ نیند پوری نہ کریں تو آپ کے جسم میں قوتِ مدافعت کم ہوتی جاتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق ایسی صورت میں آپ کے بیماریوں کا شکار ہونے کے خدشات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف‘ جس پر آج کے کالم کا مدار ہے۔ یہ بات واضح طور پر نوٹ کی گئی ہے کہ دنیا میں اب مکمل طور پر صحت یاب ہونا ایک عیاشی قرار پا چکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک تو بیماریاں کافی بڑھ گئی ہیں‘ دوسرا‘ بیمار لوگوں کی شرح میں اس انداز سے اضافہ ہوا ہے کہ لوگ اب نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر آپ ہر روز ایک یا دو دوائیاں کھا کر زندگی بخوبی گزار رہے ہیں تو اس پر شکر ادا کریں کہ کروڑوں لوگوں سے بہتر ہیں۔ یہ بات تیس‘ پینتیس سال سے زائد عمر کے لوگ تسلسل سے کرتے نظر آتے ہیں۔ اب کم عمر یا جوان لوگ بھی بڑھی ہوئی توند کے مسائل کا شکار ہیں۔ شوگر‘ بلڈ پریشر‘ یورک ایسڈ‘ یہ ایسی بیماریاں ہیں جو ہر گھر میں مستقل ٹھکانہ بنا چکی ہیں۔ لہٰذا اور کچھ کریں یا نہ کریں‘ لیکن اپنی نیند اور اپنے آرام کے لیے دن میں آٹھ گھنٹے ضرور نکالیں۔ اس حوالے سے یہ بھی خیال رہے کہ بستر پر موبائل فون کے استعمال سے سخت گریز لازم ہے۔ نیند اچھی صحت کے لیے کتنی ضروری ہے‘ اس کا اندازہ ان سائنسی تجربات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک جگہ دو لوگوں کو رکھا جائے‘ اور ان دونوں میں سے ایک کو متوازن خوراک نہ دی جائے، جبکہ دوسرے کو نیند پوری نہ کرنے دی جائے تو چند ماہ کے بعد جس شخص کی ذہنی و جسمانی‘ دونوں حالتیں زیادہ خراب ہوں گی‘ وہ ہو گا جو نیند کی کمی کا شکار رہا۔ جس کو خوراک متوازن نہیں دی جائے گی‘ اس کی جسمانی و ذہنی حالت میں شاید ہی پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہوں گی جبکہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر قدرے صحت مند ہی رہے گا۔
اب بات اس ہوشربا حقیقت کی‘ جس پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے۔ اس وقت ذہنی امراض دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلے والی بیماریاں ہیں۔ ان بیماریوں کو ایک وبا کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ ذہنی صحت کے مختلف لیول اور نام ہیں۔ ذہنی اضطراب، پریشانی، ہیجان اور آخر میں ذہنی پیچیدگیاں‘ جن کو میڈیکل کی زبان میں ڈپریشن کہتے ہیں۔ ڈیرپشن کی وجہ مالی مشکلات، گھریلو مسائل یا کوئی اور مشکل نہیں ہوتی۔ کوئی امیر‘ خوشحال زندگی گزارنے والا فرد بھی اس ذہنی عارضے کا شکار ہو سکتا ہے اور یہ بیماری کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اپنے دن میں سے کم از کم آٹھ گھنٹے نکالیں اور اپنے جسم کے ساتھ انصاف کریں۔ نیند پوری کریں اور نیند بھی وہ‘ جو صرف آنکھوں کی نیند نہ ہو بلکہ اس میں دماغ کو بھی ریلکس کا موقع ملنا چاہیے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں