''اندو سرکار‘‘ ایک ایسی فلم ہے جس میں بھارت پر سب سے طویل عرصہ تک حکمرانی کرنے والے نہرو خاندان کی دوسری وزیراعظم‘ اندار گاندھی کی حکومت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ فلم اندرا گاندھی حکومت کی جانب سے بھارت میں دو سال کے لیے لگائی جانے والی ظالمانہ ایمرجنسی کے موضوع پر ہے۔ ایمرجنسی ہی کے سبجیکٹ پر گزشتہ کئی ماہ سے ایک اور فلم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور اس فلم کو 24 نومبر کو پیش کیا جانا تھا لیکن اب یہ اگلے سال ریلیز ہو گی۔ اس فلم کا نام ''ایمرجنسی‘‘ ہے۔ اس کا ایک ٹریلر دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ جس میں دکھایا گیا ہے کہ اندرا گاندھی دورِ حکومت میں بھارت کے پرائم منسٹر آفس کو ایک فون کال آتی ہے اور پوچھا جاتا ہے کہ امریکی صدر نکسن جب اندرا گاندھی سے بات کریں گے تو وہ ان کو کیا کہہ کر مخاطب کریں؟ ''میڈم‘‘ ٹھیک رہے گا؟ اس پر اندرا گاندھی کہتی ہیں کہ ٹھیک ہے! لیکن امریکی صدر سے کہنا کہ میرا سٹاف مجھے ''سر‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ حالانکہ یہ بات کچھ مناسب نہیں لگتی۔ امریکی ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ صدر نکسن نے ایک موقع پر اندار گاندھی کو ''بوڑھی چڑیل‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ اس کا ذکر آگے چل کر کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ جس گفتگو کا ذکر ہو رہا ہے‘ وہ ''تخریبِ ڈھاکہ‘‘ کے فوری بعد کی ہے۔ دسمبر کی ان تاریخوں کے حوالے سے آج یہ واقعہ موضوعِ کالم بنا ہے۔ البتہ اس فلم کی بات اس وقت کریں گے جب یہ ریلیز ہو جائے گی۔
زیادہ تر تحریروں اور تقاریر میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سانحے کو ''سقوطِ ڈھاکہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن اصل میں یہ تخریبِ ڈھاکہ تھی۔ اس کا اندازہ ہمیں اس حقیقت کے ادراک سے ہو جاتا ہے کہ ''شیخ مجیب الرحمن ہر طرح سے سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے رابطے میں تھا اور بنگلہ دیش بنانے کا مشن پورا کرنے کے بعد بنگلہ آرمی میں موجود روس کے ایجنٹوں نے شیخ مجیب کو قتل کر دیا‘‘۔ یہ تاریخی الفاظ جنوبی ایشیا بالخصوص بھارت اور مشرقی پاکستان کے امور کے انچارج اور بھارت میں رہنے والے روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایک سابق جاسوس آفیسر کے ہیں۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ''مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک مکمل طور پر روس نے شروع کی اور پروان چڑھائی۔ اس خطرناک مشن کو مکمل کرنے کے لیے تمام طرح کی زمینی مدد بھارت نے فراہم کی تھی۔ بھارت کے راستے مشرقی پاکستان کے اندر کلاشنکوف اور دیگر اسلحہ لایا گیا۔ جن صندوقوں کے اندر یہ اسلحہ بھر کر لایا جاتا تھا ان کے اوپر ''اشاعتی مواد‘‘ لکھا ہوتا تھا‘‘۔ اس حوالے سے سب سے بڑا جو انکشاف کیا گیا‘ وہ یہ کہ ''تخریبِ ڈھاکہ میں سوویت یونین کو امریکہ کی مکمل تائید اور حمایت میسر تھی‘‘۔
پاکستان دنیاکے نقشے پر بالحاظِ آبادی سب سے بڑے مسلم ملک کی حیثیت سے ابھرا تو پوری دنیا بالخصوص دونوں بڑی عالمی طاقتوں کو کھٹکنے لگا۔ یہ دو بڑی طاقتیں سوویت یونین اور امریکہ تھیں اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سے سرد جنگ کی شکل میں ایک دوسرے کے مدمقابل تھیں۔ ا ن کے مابین کمیونزم کو لامحدود اورمسدود کرنے کی جنگ جاری تھی۔ روس اشتراکی نظام کو دنیا بھر میں پھیلانا چاہتا تھا جبکہ امریکہ اس کو روکنا چاہتا تھا۔ ایسے میں پاکستان کا اسلامی نظریے کی بنیاد پر ابھرنا اور اسلام کے نام پر قائم ہو جانا‘ ایک تیسرے نظام کے تعارف کے طور پر لیا گیا۔ اس لیے پاکستان کو اپنے قیام کی ابتدا ہی سے ایک طرف ورلڈ سپرپاورز کی مخالفت کا سامنا تھا تودوسری طرف بھارت کی صورت میں اپنی ہمسائیگی میں بھی شدید مخالفت کا سامنا تھا۔ بھارت اور بھارتی رہنما کسی بھی طور پاکستان بھارت سے ملا کر ''اکھنڈ بھارت‘‘ کے ایجنڈے کی تکمیل چاہتے تھے۔ بھارت کے اس وقت کے رہنما برملا کہا کرتے تھے کہ پاکستان محض چند سالوں کے لیے قائم ہوا ہے‘ عنقریب پاکستانی حکمران بھارت سے الحاق کے لیے ترلے منتیں کیا کریں گے۔ اس وقت ہندوستانی رہنمائوں بالخصوص انڈین کانگریس کا خیال تھا کہ پاکستان زیادہ سے زیادہ ایک‘ ڈیڑھ سال تک قائم رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا رہا‘ بھارت کی بے چینی بڑھتی گئی لہٰذا پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے کی سازشیں شروع کر دی گئیں۔
مشرقی پاکستان جنوب مشرقی ایشیا کے زیادہ قریب تھااسی لیے امریکہ نے پاکستان کو سیٹو (South East Asia Treaty Organization) کا ممبر بنایا۔ SEATO کا مقصد کمیونزم کو جنوب مشرقی ایشیا میں پھیلنے سے روکنا تھا۔ دوسری جانب پاکستان کے سیاسی حالات بھی بہتر نہ تھے۔ 1950ء سے 1957ء تک سات سال میں سات وزیر اعظم بدلے۔ ملک کا پہلا آئین‘ نو سال کی تاخیر سے‘ 1956ء میں بنا۔ یہ دونوں باتیں اس دور کے بدترین سیاسی بحران کی غماز ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایوب خان کی تائید و حمایت سے اسکندر مرزا کا سویلین مارشل لا لگانا ایک بڑا دھچکا تھا۔ اس مارشل لا اور مسلسل آمریت نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ذہنوں کو مخالفت کا ایک سبب فراہم کر دیا۔
اگلا فیکٹر معاشی تھا۔ چونکہ روزِ اول ہی سے نہ تو پاکستان کو بھارت کی طرف سے ہندوستان کی قومی دولت کا حصہ پورا دیا گیا اور نہ ہی وسائل کو عوام کی فلاح پر خرچ کرنے دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد کشمیر کا مسئلہ درپیش آ گیا، علاوہ ازیں بھارت کے جنگی جنون نے پاکستان کو قومی بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر لگانے پر مجبور کر دیا۔ شروع میں پاکستان 65 سے 70 فیصد تک بجٹ دفاع پر لگانے پر مجبور تھا کیونکہ اسلحہ سازی کے لگ بھگ سبھی کارخانے بھارت میں تھے، پاکستان کو اس کے حصے کا اسلحہ تک نہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی فلاح اور تعمیر و ترقی کے حصے میں بہت کم وسائل آتے تھے۔ معاشی بحران یا غربت کے دور میں جمہوریت یا حکومت تو کجا‘ ایمان بچانا تک مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب بھارت نے مشرقی پاکستان کے عوام کو اپنے خصوصی نشانے پر رکھا ہوا تھا اور مسلسل یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا کہ بنگالیوں کی غربت کی وجہ مغربی پاکستان اوربڑھتے عسکری اخراجات ہیں۔ ان حالات میں جب مفلوک الحال لوگوں کو بھارت کی جانب سے نہ صرف اسلحہ اور جنگی تربیت بلکہ پُر کشش معاوضہ بھی دیا جانے لگا تو لوگوں کی بڑی تعداد اس جانب راغب ہونے لگی۔ بھارت پہلے1962ء میں چین کے ہاتھوں جنگ میں بدترین شکست کھانے اور اپنے بڑے علاقے گنوانے اور پھر 1965ء کی جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں امریکہ اور برطانیہ کی مداخلت کی مدد سے بمشکل بچنے کی وجہ سے اپنے لوگوں کا اعتماد مکمل طور پر کھو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1965ء کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان میں تخریب کا عمل بڑھا دیا گیا۔ واضح رہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ہی اندار گاندھی فتح کا کھوکھلا پر چار کرکے عوام کی جذباتی حمایت حاصل کرنے میں کسی قدر کامیاب ہو پائی تھی مگر یہ حمایت بھی چند سال تک ہی اس کی کام آئی۔
بھارت کو مشرقی پاکستان میں اپنا عمل دخل بڑھانے اور در اندازی کا موقع اس لیے بھی مل جاتا تھا کہ بنگلہ دیش کی سرحد تین اطراف سے بھارت سے ملتی ہے جبکہ چوتھی سمت سمندر ہے۔ اس لیے بھارت ہی مشرقی پاکستان کا واحد پڑوسی تھا۔ بھارت کو ایک یہ برتری حاصل رہی کہ اس کا پہلا وزیر اعظم مسلسل 17 سال تک برسرِ اقتدار رہا۔ جی ہاں! جواہر لال نہرو 1947ء سے 1963ء تک وزیر اعظم رہے۔ بھارت میں برسر اقتدار ایک ہی فرد کو بھرپور موقع ملا کہ وہ پورے جنون کے ساتھ تخلیقِ پاکستان کی تعمیر کو تخریب میں بدل سکے جس کا سب سے بڑا مظہر مکتی باہنی کی تحریک اور بھارتی سر زمین کا روس کے ہاتھوں استعمال ہے۔ چند سال قبل موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کے دورے کے دوران برملا اورفاتحانہ انداز میں دعویٰ کیا کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں بھارت نے بھرپور کردار ادا کیا۔ مودی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی میں عملاً حصہ لیا، اس کا مطلب ہے کہ آر ایس ایس کے رکن نوجوان بھی مکتی باہنی کے روپ میں مشرقی پاکستان میں سرگرم تھے۔ اس کے علاوہ دو عالمی طاقتوں کا پاکستان کو توڑنے پر یکجا ہونا بھی ایک بڑا فیکٹر تھا۔ روس تو پاکستان مخالف تھا ہی مگر امریکہ کو بھی یہ بات بہتر محسوس ہوتی تھی کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو جائے۔ شیخ مجیب کو بغاوت پر قائل کرنے اور استعمال کرنے میں روس نے بے تحاشا وسائل استعمال کیے۔ ابتدا میں جس روسی جاسوس کا ذکر ہوا‘ اس کا نام ہے یوری بیزمی نو (Yuri Bezmenov)۔ اس کی کتاب ''Deception was my job‘‘ اور انٹرنیٹ پر موجود اس کے انٹرویوز میں یہ ساری تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ بنگلہ آرمی میں موجود روس کے خفیہ آلہ کاروں ہی نے 1975ء میں شیخ مجیب کو قتل کیا تھا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اندار گاندھی مغربی پاکستان پر بھی چڑھائی کرنا چاہتی تھی مگر اس وقت کے امریکی صدر نکسن نے اندرا گاندھی کو فون پر ڈانٹتے ہوئے کہا: Old Witch! Enough is Enough۔ اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی علاقائی نہیں‘ بین الاقوامی پلاننگ کا حصہ تھی جس میں شیخ مجیب جیسے متعدد سیاسی رہنما اور ''useful idiot‘‘ استعمال ہوئے۔ ''مفید احمق‘‘ کی اصطلاح بھی مذکورہ روسی جاسوس کی استعمال کردہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب ہم کوئی تحریک کسی معاشرے میں شروع کرتے اور چلاتے تو جو لوگ ہمارے لیے کام کرتے‘ وہ ہوتے تو احمق تھے لیکن ہمارے لیے خاصے مفید ثابت ہوتے۔
ہمارے ہاں ففتھ جنریشن وار فیئر یعنی پانچویں نسل کی جنگ کا بہت چرچا ہے۔ اس سے قبل سرد جنگ کا دور تھا جسے چوتھی نسل کی جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ چوتھی نسل کی جنگ اپنے اوصاف کے اعتبار سے پانچویں نسل کی جنگ کے بہت زیادہ مشابہ ہے۔ چوتھی نسل کی دو بڑی جنگیں ویتنام اور افغانستان میں (سوویت یونین کے خلاف) لڑی گئی تھیں۔ ان کے علاوہ مشرقی پاکستان کے اندر پیدا کیا جانے والا خلفشار، سول وار اور بالآخر گرم جنگ بھی چوتھی نسل کی جنگ ہی کی مثال ہے۔ اگر آپ پانچویں نسل کی جنگ کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ آپ پہلے چوتھی نسل کی جنگ کو سمجھیں۔ اس سارے عمل کو Subversion کا فٹ کیس بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور یہی چوتھی نسل کی جنگ کا بنیادی نکتہ ہوا کرتا تھا۔ یہ کام آج کے دور میں بھی جاری ہے مگر قدرے مختلف اور کچھ جدید ذرائع کے ذریعے۔