انڈیا ایک بہت بڑی معیشت ہے‘ اس بات کا موجودہ انڈین حکومت بہت پرچار کرتی ہے۔ آئیے اس بات کی تہہ تک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی سال پہلے ایک انڈین صحافی نے انڈیا کی ایک نوبل انعام یافتہ شخصیت امرتیہ سین سے پو چھا کہ آپ نے اپنی کتاب An Uncertain Glory: India and its Contradictions میں یہ کیوں لکھا کہ حقیقت میں انڈیا ترقی کی طرف نہیں جا رہا؟ ایسا کیوں ہے کہ انڈیا دو بڑی سیاسی جماعتوں کے نظریات میں بٹا ہوا ہے جنہیں نریندر مودی اور راہل گاندھی انڈین عوام پر لاگو کرنا چاہتے ہیں؟ ان نظریات کی بنیاد دو چیزیں ہیں۔ اقتدار کے حصول کے لیے انڈین عوام کو بطور سیڑھی استعمال کرنا‘ مخصوص طبقے کو اوپر اٹھانے کے لیے ہندوتوا نظریات کا بے دریغ استعمال۔ اپنی کتاب میں اُس شخص نے بہت خوبصورتی سے انڈیا کی ترقی کی اصل حقیقت کو اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں نظریات غلط بنیادوں پر قائم ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ امرتیہ سین کا کہنا تھا کہ بلاشبہ جاپان ایشیا کی ایک بڑی طاقت ہے لیکن اس کی معاشی ترقی کو سمجھنے کے لیے اصل کہانی کو سمجھنا ضروری ہے۔ جاپان میں یہ کہانی 1860ء میں شروع ہوئی تھی جب ریڈیو دنیا میں اپنی پہچان کروا رہا تھا۔تب جاپان کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ اپنے تمام عوام کو خواندہ بنایا جائے۔
جاپان کو اس کوشش کا یہ فائدہ ہوا کہ اس کے عوام کی قابلیت میں اضافہ ہوا اور وہ خود بخود ترقی کا سفر طے کرنے لگے‘ یوں انہوں نے اپنے ملک کی معاشی ترقی میں حصہ لینا شروع کر دیا اور اس فارمولے نے جاپان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ یہی فارمولا بعد میں جنوبی کوریا‘ ہانگ کانگ‘ تائیوان اور سنگا پور میں بھی کسی حد تک اپنایا گیا۔ چین اس فارمولے پر عمل کرنے والے چند آخری ممالک میں شامل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چین نے پہلے صحت کی پالیسیاں بنائیں۔ چین نے اس ضمن میں سب سے پہلے آبادی میں بے تحاشا اضافے پر زبردستی قابو پانے کی پالیسی اختیار کی۔ چین کے عوام نے شروع شروع میں اس حکومتی پالیسی کی مخالفت کی لیکن بعد میں ریاست نے اپنے عوام کو پوری طرح قائل کر لیا۔ یہی ایشیا کی ترقی کا نیا ماڈل ہے۔ ترقی کے انہی ماڈلز کو امریکہ اور یورپ تقریباً دو صدیوں سے اپنے اوپر لاگو کیے ہوئے ہیں لیکن انڈیا ان چیز سے کوسوں دور ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم دوبارہ چین کی مثال لیں گے۔ چین اپنے مجموعی بجٹ کا 2.17فیصد شعبۂ صحت پر لگاتا ہے جبکہ انڈیا اپنے مجموعی بجٹ کا 1.2 فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتا ہے جو چین کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد کم ہے۔
اس کے برعکس انڈیا اپنی خود ساختہ پالیسیوں میں بری طرح اُلجھا ہوا ہے۔ اس کا سارا زور اپنی اندرونی سیاست پر ہے۔ مثال کے طور پر بھارت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ایک ایسے بل کو بھی پاس نہیں ہونے دیتیں جو انڈین عوام کے حق میں بہتر ہے۔ یہ بہت عجیب بات ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ انڈیا کے پاس وسائل نہیں ہیں‘ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انڈیا اقتدار کی اندرونی جنگ میں اُلجھا ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا چیزہے جو انڈیا کو اپنے ہی لوگوں کے مسائل کوحل کرنے سے روک رہی ہے؟ وہ مسائل چاہے صحت کے شعبے کے ہوں‘ عورتوں کے انصاف کے متعلق ہوں‘ غربت کے خاتمے کے حوالے سے ہوں‘ عوام کے منتخب نمائندے یہ مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں۔ انڈیا میں حقیقی ترقی بہت پیچھے رہ گئی ہے اب وہاں بس تخت کی چاہ باقی ہے۔ امرتیہ سین کا اُس انٹر ویو میں یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت دنیا کا انوکھا ملک ہے جو بغیر تعلیم و تحقیق کے ترقی یافتہ ملک بننا چاہتا ہے۔ اس مصنف نے دورانِ انٹر ویو یہ بھی انکشاف کیا کہ بھارت میں چار میں سے ایک فرد بجلی کی سہولت سے محروم ہے۔ انڈیا کے 40سے 44فیصد عوام ٹوائلٹ جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ خوراک کی قلت کے باعث نئے پیدا ہونے والے بچوں میں سے 40فیصد سے زائد کا وزن بھی پورا نہیں ہوتا۔ امرتیہ سین کا یہ انٹرویو تقریبا دس سال پرانا ہے‘ اُس وقت بھارت کی چین کے ساتھ لگنے والی سرحد پر حالات کشیدہ نہیں تھے اور نہ ہی منی پور اور دیگر ریاستوں میں فسادات ہو رہے تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر اس وقت بھارت کو کینیڈا اور امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کی طرز پر قتل کے الزمات کا سامنا نہیں تھا۔ اور سب سے بڑھ کر ابھی انڈیا آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بھی نہیں بنا تھا۔
Contradictions of India
بھارت کی اس نوبل انعام یافتہ شخصیت کی کتاب کا ٹائٹل یہ بھی کہتا ہے کہ بھارت میں تضادات بہت زیادہ ہیں۔ اگر بھارت کے حوالے سے کوئی کتاب لکھی جائے حتیٰ کہ کوئی مضمون بھی تحریر کیا جائے تو اس میں جو چیز ضرور شامل کی جائے گی وہ بھارت کی ماحولیاتی آلودگی ہے۔ بھارت میں روز افزوں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے عوام کو زندگی کی بقا کے خدشات لاحق ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت اس وقت دنیا کا سب سے آلودہ ملک ہے۔ آپ کسی بھی بڑی موسمیاتی ویب سائٹ پر جائیں تو آپ یہ دیکھ کر پریشان ہو جائیں گے کہ سوائے جنوب مغربی بھارت کے ایک چھوٹے سے حصے کے باقی پورا بھارت خطرناک ترین آلودگی کی لپیٹ میں ہے۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ اس آلودگی سے نمٹنے کیلئے بھارتی حکومت کی طرف سے کوئی بڑا یا واضح اقدام بھی نظر نہیں آ رہا حالانکہ اب تو وہاں عام انتخابات بھی آن پہنچے ہیں۔ اسی طرح بھارت اپنی آبادی پر قابو پانے کیلئے بھی کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا رہا۔ بھارت کے پاس چین نہ سہی تو بنگلہ دیش سے سیکھنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کی کل آبادی میں سالانہ ایک کروڑ ستر لاکھ نفوس کا اضافہ ہوتا ہے۔ بھارت میں 2021ء میں مردم شماری ہونا تھی جو کووڈ کی وجہ سے نہ ہو سکی لیکن ابھی تک وہاں مردم شماری کی کوئی نئی تاریخ بھی نہیں دی گئی ہے۔ امریکہ کے سابق صدر باراک اوبامہ نے اپنے دورۂ بھارت کے موقع پر اپنے ایک بیان میں نریندر مودی کو خبردار کیا تھا کہ بھارت سماجی تقسیم کی سنگینی کے اُس موڑ پر ہے جہاں سے یہ کئی حصوں میں بٹ سکتا ہے۔ عالمی ماہرین اس امر کی نشاندہی بھی کر چکے ہیں کہ بھارت نسل کشی کی آخری سٹیج کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ رواں برس مئی میں منی پور میں شروع ہونے والے نسل کشی کے فسادات پر بھارتی حکومت چھ ماہ بعد کسی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہو سکی تھی۔ اس ریاست میں ہندو آبادی کا جھگڑا مسیحی آبادی سے تھا جس میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے اسلحے کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ ان فسادات میں مسیحی برادری کا بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔ ان کے اڑھائی سو کے قریب چرچ بھی جلا دیے گئے تھے۔
بھارت کی خارجہ پالیسیوں کے تضادات کا جائزہ لیں تو اُس نے اپنے وجود کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔ اس وقت دنیا میں امریکہ اور چین کے درمیان جو نئی سرد جنگ جاری ہے‘ اس میں بھارت چین کو چھوڑ کر واضح طور پر امریکی بلاک کا حصہ ہے۔ جبکہ بھارت کی سب سے بڑی سرحد‘ تقریباً 3500کلو میٹر‘ چین کے ساتھ لگتی ہے جوکہ پوری کی پوری متنازع ہے۔ چین بدستور بھارت کے اندر گھس رہا ہے۔ بھارت کی ارونا چل پردیش ریاست کو چین اپنے نئے نقشے کے مطابق اپنا حصہ ڈکلیئر کر چکا ہے۔ اس ریاست کے پندرہ سے زیادہ مقامات کو چین اپنی زبان میں نئے نام بھی دے چکا ہے جو ایک نہایت ہی غیرمعمولی بات ہے۔ بھارت کو اس بات کو ایک باقاعدہ خطرہ سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے اور بھارت واحد ملک ہے جو چین کے ترقیاتی منصوبوں کی باقاعدہ مخالفت کرتا ہے۔
بھارت ہی کیوں؟
بہت سارے لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آپ کا بھارت پر فوکس بہت زیادہ ہوتا ہے‘ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کا سب سے پہلا جواب تو یہ ہے کہ مغربی طاقتیں کبھی بھی کسی ایشیائی ملک کو ترقی میں مدد کرنا تو کجا اس کی ترقی کو پسند ہی نہیں کرتیں۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ مغربی طاقتیں ایشیا سے بہت خائف رہتی ہیں کہ ان کے مقابل اگر کوئی طاقت سامنے آ سکتی ہے تو وہ ایشیا ہی سے آ سکتی ہے۔ چین ایشیا سے ایسی طاقتور ریاست کی صورت میں سامنے آ چکا ہے جو مغرب کو ہر میدان میں پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے چین ہر صورت اپنے پڑوس میں امن چاہتا ہے اور ہر طرح کے تنازعات کا خاتمہ اپنے مقصد یا فائدے کیلئے چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے چین بھوٹان‘ منگولیا اور سنٹرل ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنی سرحد کی حد بندی کو واضح کر چکا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چین نے ان سب ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعات ختم کرنے کیلئے انہیں اپنا علاقہ تک دے دیا ہے۔ چین نے افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک کو تجارت اور ترقی کے منصوبوں پر لگا دیا ہے۔ ایشیا کے استحکام کیلئے ایران اور سعودی عرب کی دوستی کروا دی ہے۔ لیکن بھارت تاحال چین کی مخالفت کی اپنی خودکش روش پر گامزن ہے۔ بھارت ایک ایشیائی ملک ہو کر اس کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے۔چین اور امریکہ کی سرد کا جنگ خاتمہ تبھی ہو سکے گا جب چین اس علاقے سے امریکہ کی بالادستی ختم کردے گا۔ اگر بھارتی مخالفت کے باوجود چین اپنی بالادستی قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر چین بھارت کیساتھ معاملات مذاکرات کے ذریعے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے حل کرے گا۔