دنیا کی سب سے بڑی متضاد مشکل کا ذکر کیا جائے تو یہ جان کر یقینا حیرانی ہو گی کہ سالانہ جتنے لوگ خوراک نہ ہونے یعنی بھوک اور قحط سے مرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ لوگ بسیار خوری کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کا اگر کوئی انتظام ہو جائے اور جو لوگ زیادہ کھانے سے مرتے ہیں‘ اگر وہ اپنی اضافی خوراک بھوکے افراد کو دے دیں تو شاید دونوں کی جان بچ جائے۔ اسی صوتحال کے لیے کہا گیا ہے کہ کثرت اور قلت‘ دونوں ہی ہلاکت لے کر آتی ہیں۔ کثرت اور قلت کی ایک مثال یوںبھی بیان کی جاتی ہے کہ ''امیر ترین لوگوں کے پالتو جانور جو خوراک روزانہ کھاتے ہیں اس معیار کی خوراک غریب کی اکلوتی اولاد کو کسی تہوار والے دن بھی میسر نہیں ہو پاتی‘‘۔ یہ تضاد تو اب ایک اگلے درجے تک پہنچ چکا ہے، یعنی اس سے بڑا تضاد اور کیا ہو گا کہ جو جانوروں کو کھانے کو میسر ہے وہ کروڑوں انسانوں کو میسر نہیں ہے۔
شہری زندگی کا گھن چکر
جدیددور کی انسانی ترقی اپنے ساتھ جدید المیے بھی لائی ہے۔ ان المیوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں شہروں کی دنیا میں جھانکنا ہو گا۔ شہروں سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں کی زندگی میں تیزی بہت زیادہ ہوتی ہے‘ یہاں کے راتیں بھی جاگتی رہتی ہیں۔ اس کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ ''Cities never sleep, nor let you sleep‘‘۔ مطلب شہر کبھی سوتے نہیں اور نہ ہی آپ کو سونے دیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال وہ بڑے برانڈز اور ریسٹورنٹس ہیں جو رات بارہ بجے کے بعد اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں جسے عرفِ عام میں ''ڈیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ جو لوگ ان کھانوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں وہ رات بارہ بجنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ ایسے بیشتر کھانوں میں صرف لطف ہی ہوتا ہے اور غذائیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی لیکن لوگ ان کے لیے جاگتے رہتے ہیں اور بھوک کو برداشت کرتے رہتے ہیں۔ اسی خاطروہ نیند کے قدرتی سائیکل کو بھی دائو پر لگا دیتے ہیں۔ زیادہ تر افراد انتظار کے دوران موبائل فون پر سوشل میڈیا کے استعمال کو بہتر وقت گزاری سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وہ زیادہ تر جس چیز کی تلاش میں ہوتے ہیں وہ وائرل وِڈیوز ہوتی ہیں۔ ان وائرل وِڈیوز میں جو مواد ہوتا ہے‘ وہ مزید نقصان کا باعث بنتا ہے، یا کم از کم کسی فائدے کا باعث نہیں بنتا۔ ان وِڈیوز میں کوئی گانا، ڈانس(جو فحش نہ بھی ہو تو نیم فحش ضرورہو گا)،جگتیں، طنزیا پھر کسی حادثے کی کوئی وڈیو شامل ہو گی۔ یہ سب کچھ دیکھنے سے ذہنی اضطراب، بے چینی یا ہیجان پیدا ہوتا ہے۔
واپس آتے ہیں دیر سے کھانا کھانے کی طرف۔ عمومی طور پر بازاری کھانوں کے ساتھ کولڈ ڈرنک کو ایک لازمہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ کولڈ ڈرنک سردیوں میں بھی پی جاتی ہے۔ نصف رات کے بعد ہیوی کھانا اور پھر کولڈ ڈرنک‘ اس کھانے کے بعد چہل قدمی کا تو کوئی تصور ہی نہیں بچتا۔ اس لیے کھانے کے بعدبھی سوشل میڈیا، حتیٰ کے کھانا کھانے کے دوران بھی اس کا استعمال جاری رہتا ہے اور اس کے بعد جب موبائل بند ہو گا تو سیدھا نیند کی وادی میں جانا۔ اس ساری روٹین میں ایک تو نیند کا دورانیہ کم ہوا، دوسرا‘نیند کا سرکل دسٹرب ہوا۔ خوراک بے وقت اور معیار سے ہٹ کر کھائی گئی، اس سے صحت کو جو مسائل لاحق ہوں گے ان کا تو ادراک ہی نہیں ہو پاتا۔ وقت گزرتا رہتا ہے اور بہت تاخیر سے پتا چلتا ہے کہ کتنا نقصان ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب نوجوانوں میں بھی موٹاپے کی شکایات عام ہیں۔ کسی گرائونڈ یا پارک میں جاکر ہلکی پھلکی ورزش یا بھاگ دوڑ کا کلچر تو پہلے ہی غارت ہو چکا، اب تو فقط ایک تندرستی ہی بچی ہے مگر لوگ اسے بھی اپنے ہاتھوں دائو پر لگاتے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں تندرستی سے مراد ہاتھ پائوں کا چلنا اور بستر سے نہ لگنا ہے، وگرنہ مکمل صحتمند ہونے کو بجا طور پر آج کے دور میں ایک عیاشی قرار دیا جا چکا ہے۔ جو بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ شہری زندگی کے اس گھن چکر میں جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ دماغی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس خرابی کو مغربی ممالک میں خصوصی طور پر دیکھا جا سکتا ہے جہاں پر ایک طرف موٹاپا سب سے بڑی قومی بیماری بن چکی ہے‘ وہیں ذہنی ہیجان‘ جو عموماً تنہائی کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے‘ کا دائرہ بھی پھیلتا جا رہا ہے۔
ابلاغ اور خیالات کی کثرت
شہروں کی ایک خاصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں لوگوں کا ایک ہجوم ہوتا ہے، اسی طرح سے خیالات‘ جو انسان کے دماغ میں پنپ رہے ہوتے ہیں‘ ان کی بھی کثرت ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ ایک ہی وقت میں زیادہ چیزیں سوچنا اور پھر تیزی سے سوچنا بھی شہروں میں ایک وائرل بیماری کی طرح پھیل چکی ہے۔ صرف ایک دن میں کی جانے والی گفتگو کی اوسط دیکھ لیں یعنی روزانہ کی بنیاد پراپنے موبائل فون کی کالز کا حساب لگائیں، اسی طرح جو چیزیں آپ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں‘ دیگر پوسٹس پر جو کمنٹس کرتے ہیں‘ ان سب کا حساب لگائیں تو پتا چلتا ہے کہ اب ہر شخص ابلاغیات کے ایک دلدل میں دھنس چکا ہے۔ ابلاغ کا ایک اصول ہوتا ہے کہ آپ دن میں کتنا وقت اس کام میں خرچ کر سکتے ہیں۔ ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ ہم اوسط سے کہیں آگے جا چکے ہیں اور وہ بھی ایسا ابلاغ‘ جو ہمارے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ اس سارے ابلاغی عمل سے ذہن کسی بھی غیرپیداواری رجحان پر چل سکتا ہے بلکہ چل پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ جھگڑے، قتل، ڈکیتی کی واردات یا پھر جانوروں کی وڈیوز دیکھتے ہیں جن میں ایک بڑا جانور چھوٹے جانوروں کو کھا رہا ہے تو نفسیات دانوں کے بقول‘ اس طرح کے مناظر دیکھنے سے ذہن پر صدمے کی سی کیفیت لاحق ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی بہت ساری وڈیوز اَپ لوڈ کی جاتی ہیں کہ جن میں بے بس اور مظلوم شہریوں پر تشدد ہوتا دکھایا جاتا ہے، یا کسی چھوٹے جانور کو کوئی بڑا طاقتور جانور شکار کرتا اور کھا جاتا ہے۔ اگر یہ وڈیو ذہن پر اثر کر جائے تو انسان ایک منفی ذہنی کیفیت یعنی صدمے کا شکار ہو سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ وڈیو نہ دیکھے تو اس کی زندگی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس بات کا مقصد یہ ہے کہ یہ وڈیوزعمومی طور پر لوگوں کے کسی کام کی نہیں ہوتیں۔ نہ انہیں اس قسم کی وڈیوز دیکھنے کا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر ابلاغ کی دلدل میں لوگ اس طرح پھنسے اور دھنسے ہوئے ہیں کہ اس قسم کی وڈیوز کو دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ اسی طرح اخلاق باختہ یا فحش وڈیوز کا معاملہ ہے، ان کے ذہن پر کیا اثرات ہوتے ہیں وہ حساب آپ خود لگا لیں۔ اسی لیے سوشل میڈیا سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے لوگوں کو غیر سماجی یعنی سماج سے دور کر دیا ہے۔
تنہائی اور گمنامی کی موت
مذکورہ بالا مثالوں سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ شہروں کی زندگی ایک ریس بن چکی ہے۔ یہ ریس بنیادی طور پر قلت اور وسائل کی کمی کے شکار افراد میں مال کی کثرت کے حصول کے لیے ہے مگر اس سارے چکر میں وہ ایک ایسی تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں جو انہیں ذہنی اور نفسیاتی غربت سے دو چار کر دیتی ہے۔ اس تنہائی کا شکار وسائل کی کثرت والے لوگ پہلے ہی ہو چکے ہوتے ہیں۔ مال و دولت کی دوڑ میں انسان اپنے رشتوں سے دور ہو جاتا ہے۔ قریبی اور مخلص لوگوں سے محروم ہو جاتا ہے، حالانکہ یہ سب کچھ انسان کی دماغی و نفسیاتی طاقت و امارت کے لیے ناگزیر ہوتا ہے لیکن شہری زندگی کی دوڑ میں وہ ایک جنگی کیفیت کی سی مصروفیت کا شکار ہونے کی وجہ سے ان سب چیزوں سے دور ہوتا جاتا ہے۔ جنگ کوئی بھی ہو‘ اس میں نقصان ضرور ہوتا ہے۔ بظاہر مال، مقام، رتبے اور علاقے کے حصول کی جنگ اگر جیت بھی جائیں‘ تب بھی نقصان ناگزیر ہے۔ اگر صرف بہتر آمدن، انصاف کی فراہمی اور جدید سہولتوں ہی سے انسان خوش رہ سکتا تو امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور مثالی ملک میں سالانہ پچاس ہزار افراد خود کشی نہ کرتے۔ ہر روز اوسطاً 132 افراد وہاں اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں خود کشی اور ذہنی امراض کی شرح مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔