اندرونی و خاموش جنگیں

بات چل رہی ہے جدید دنیا کی طرزِ زندگی کی‘ جو ایک تیز رفتار دوڑ کی صورت اختیار کر چکی ہے اور اس میں مقابلے کی فضا اس حد تک سنگین ہو چکی ہے کہ یہ ایک اندرونی جنگ بن چکی ہے جو انتہائی خاموشی کے ساتھ مسلسل جاری رہتی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں جو درد جنم لیتے ہیں‘ اس سے متعلق معروف کامیڈین چارلی چپلن سے منسوب ہے کہ ''خودکشی کرنے والے ہرگز اپنی جان نہیں لینا چاہتے مگر وہ اپنے درد سے نجات چاہتے ہیں‘‘۔
گزشتہ کالم کا خاتمہ اس بات پر ہوا تھا کہ امریکہ جیسے امیر اور ترقی یافتہ ملک میں بھی ہر سال پچاس ہزار لوگ اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لیتے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ان لوگوں کے اندر اپنے آپ سے جاری جنگ ہوتی ہے۔ امریکہ نے اپنے ہاں اس رجحان کو روکنے کے لیے ایک موبائل ہیلپ سروس شروع کر رکھی ہے، لیکن اس وبائی طرز کے ہلاکت خیز رجحان سے جان نہیں چھڑائی جا سکی۔ اپنے ذہنی اضطراب کی وجہ سے لوگ فائرنگ کر کے دوسروں کو بھی ہلاک کر دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ سالانہ خودکشی کرنے والوں کے اعداد و شمار میں 'ماس شوٹنگ‘ کے واقعات میں ہلاک ہونے والے شامل نہیں ہیں۔ اگر فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو لگ بھگ سالانہ بیس ہزار افراد امریکہ میں اس سبب ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یعنی صرف امریکہ میں کُل ملا کر ستر ہزار افراد سالانہ ذہنی اضطراب و کشمکش اور اندرونی جنگ کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ امریکہ جیسے جدید، معاشی خوشحال اور قانون کی عملداری والے ملک میں یہ صورتحال یقینا کسی اندرونی جنگ سے کم نہیں ہے۔ اگر آپ یہاں امریکہ کی جنگوں پر نظر ڈالیں تو پہلی عالمگیر جنگ میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب تھی۔ یعنی امریکہ میں ذہنی اضطراب سے ہر دو سال میں اتنے لوگ بے موت مارے جا رہے ہیں پہلی عالمی جنگ میں جتنے اس کے فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
اندرونی جنگوں کا تخمینہ اور لگان
مذکورہ صورتحال پر سادہ لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ جیسی طاقت ہر دو سال میں اتنا جانی نقصان اٹھاتی ہے جتنا اسے پہلی عالمی جنگ میں ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اندرونی طور پر مسلسل ایک عالمی جنگ لڑ رہا ہے، جبکہ یہ جو جانی نقصان ہے، یہ مکمل طور پر رائیگاں جاتا ہے۔ رائیگاں اس لیے کہ جب کوئی ملک جنگ لڑتا ہے تو اس کا کوئی مقصد ہوتا ہے اور فوجی اس مقصد کے حصول کی راہ میں اپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔ جیسے ایک جنگ کے نتیجے میں کوئی ملک اپنے کسی دشمن سے نجات حاصل کرتا ہے، اپنے کسی نظریے کی حفاظت یقینی بناتا ہے، ملکی سالمیت کا تحفظ کرتا ہے، اپنی حاکمیت کو بچا لیتا ہے یا پھر کوئی اور مقصد پورا کرتا ہے۔ لیکن اندرونی جنگ میں صرف اور صرف نقصان ہوتا ہے۔ اس قسم کے جانی نقصان کا ایک سماجی پہلو یہ ہے کہ جان کسی فوجی کی جائے یا عام شہری کی‘ ایک خاندان اور معاشرے کا صدمہ اور نقصان برابر ہوتا ہے۔ چونکہ اندرونی طور پر ہلاک ہونے والوں کی جان بے مقصد ضائع ہوتی ہے تو اس کو نقصان کے بجائے لگان کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ یہ ایسا لگان ہے کہ جس میں اپنا نقصان‘ وہ بھی اپنوں ہی کے ہاتھوں سے ہو رہا ہے، جس کا نہ کوئی بدلہ لیا جا سکتا ہے اور نہ کسی پر ذمہ داری ڈالی جا سکتی ہے۔ لہٰذا یہ ایک قسم کا خود کش نقصان ہے۔ مزید یہ کہ اس قسم کے جانی نقصان کے المیے کا دکھ اور صدمہ کہیں زیادہ اور گہرا ہوتا ہے۔
اس کا ایک پہلو کچھ یوں ہے کہ بیرونی محاذوں کی جنگ ایک مدت کے بعد ختم ہو جاتی ہے، لیکن اس طرح کی جان لیوا اندرونی جنگیں ہمیشہ طول پکڑتی رہتی ہیں اور پوری قوم کے مستقبل پر ایک خطرہ ہمیشہ منڈلاتا رہتا ہے، جس سے قوم ایک صدمے کی سی کیفیت سے دوچار رہتی ہے۔ اگرچہ مذکورہ بالا مثال امریکہ کی ہے مگر یہ اندرونی جنگیں پوری دنیا کو گھیر چکی ہیں۔ لوگ دنیا کی آسائشوں کے حصول اور نفع اور نقصان کی گنتی میں اپنی صحت کی دولت مکمل طور پر لٹا چکے ہیں۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ دنیا کا ہر شخص خوش رہنے کے لیے پریشان ہے۔ اس موقع پر مولانا جلال الدین رومی کا ایک فقرہ یاد آ رہا ہے کہ '' آنسو وہ خون ہے جو غم بناتا ہے‘‘۔ یہاں وہ فقرہ بھی یاد آ رہا ہے کہ ''ہر زخم سے خون نہیں رستا‘‘۔
اب لوگوں کے اندر جاری خفیہ جنگوں کی سمجھ آ چکی ہو گی کہ لوگ اپنے آپ سے ایک جنگی مقابلہ چھیڑ بیٹھے ہیں۔ جدید طرزِ زندگی میں نفع کما لیا، دولت اکٹھی ہو گئی، رتبہ مل گیا، اچھا اور بڑا بنگلہ بھی بن گیا لیکن دماغ کی بھوک نہ مٹے تو سب کچھ ہونے کے باوجود بھی انسان غریب ہی رہتا ہے۔ آگے بڑھتے ہیں! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو کچھ مل گیا ہے‘ اس پر انسان رک جائے یعنی زندگی کی جنگ کی رفتار کو کم کر لے تو اسے ایک عفریت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس عفریت کو روح کی بھوک کہتے ہیں، مطلب انسان نفسیاتی غربت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس ماجرے کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ زندگی کی جنگ جیتنے کے چکر میں وہ رشتوں ناتوں سے دور ہو چکا ہوتا ہے، بلکہ رشتے ناتے ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی استعارہ یا خیال بُننے کی ضرورت نہیں بلکہ ایک حقیقت کی طرف لیے چلتے ہیں۔ مغربی ممالک میں عمر رسیدہ لوگوں کے لیے مخصوص قسم کے ہاسٹلز‘ جنہیں اولڈ ایج ہومز کہا جاتا ہے‘ بنانا پڑتے ہیں، جہاں پڑے بزرگ افراد اپنے پیاروں کی ایک جھلک دیکھنے کے منتظر رہتے ہیں۔ ان بوڑھے لوگوں میں مائیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ ان مائوں کی تنہائی اور بے بسی مغرب کے اپنے طے کردہ حقوقِ نسواں کی پامالی کی بھیانک مثال ہے۔ ان لوگوں کو خوراک اور رہائش کا مسئلہ نہیں ہوتا لیکن یہ اندرونی طور پر ٹوٹ چکے ہوتے ہیں۔ یہ اندرونی جنگ کا ایک بہت بڑا محاذ ہے جس سے ان لوگوں کو نجات صرف موت کی شکل میں ملتی ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ زندہ کب ہوتے ہیں؟ اسی کو ''زندہ لاش ہونا‘‘ کہا جاتا ہے۔
نسلوں کی جنگ‘ نس نس میں جنگ
آپ ملکوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کی نسلوں کے بارے میں تو جانتے ہی ہیں‘ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مشہور پانچویں نسل کی جنگ (ففتھ جنریشن وار فیئر) ہے۔ اس پانچویں نسل کی جنگ کے متعلق تواتر سے بات ہوتی رہتی ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ غیر اعلانیہ ہوتی ہے، معاشی، نفسیاتی اور سماجی محاذوں پر لڑی جاتی ہے۔ دوست اور دشمن میں فرق نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح آپ یہ بھی نہیں جان سکتے کہ آپ کا ملک حالتِ جنگ میں ہے یا حالتِ امن میں۔ معاشرے کے کسی بھی طبقے کو اس میں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ جس ملک کو تباہ کرنا مقصود ہو‘ اس پر یہ جنگ بدستور مسلط کی جاتی ہے اور اس کے لیے دس سے پندرہ سال کا عرصہ وقف کیا جاتا ہے۔ میڈیا اور نصابِ تعلیم کے ذریعے معاشرے کے حقیقی ہیروز کی جگہ مصنوعی ہیرو اور جھوٹے رول ماڈلز پیدا کیے جاتے ہیں۔ معاشرے میں مذہبی، لسانی، علاقائی اور نسلی تقسیم کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ عوام اور ملک کے دفاعی اور ریاستی اداروں میں فاصلے اور عدم اعتماد پیدا کیا جاتا ہے؛ تاہم حملہ بنیادی طور پر عام شہریوں یعنی پوری قوم پر کیا جاتا ہے، اسی طرح کسی ملک کو کھوکھلا اور کمزور کیا جاتا ہے۔ اب کسی بھی ملک کی مثال لے لیں، مثلاً امریکہ‘ اس ملک کو کسی بڑی بیرونی مداخلت کا سامنا نہیں ہے مگر شخصی آزادی کے نام پر خاندانی نظام رفتہ رفتہ ختم کر دیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بقا ہی نہیں بلکہ انتہا کے لیے انسان کو ایک سانس لینے والی معاشی مشین بنا دیا گیا ہے۔ ڈرگز اور آرمز فری بھی معاشرے کو خود ہی کیا گیا ہے، لیکن یہ سب اب الٹا پڑ چکا ہے۔ اب اپنے آپ سے جنگ کی کیفیت درپیش ہے۔ کوئی بیرونی دشمن بھی نہیں مگر ملک اور سماج بکھرتا جا رہا ہے۔ اسی لیے اب اس جنگ کو چھٹی نسل کی جنگ کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ جنگ نسلوں کی جنگ ہے اور انسانوں کی نس نس میں سرائیت کر چکی ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں