آج اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جبکہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے‘اس وائرس کی وجہ سے اب تک 5.5ملین لوگ انتقال کر چکے ہیں ۔ اب اس وائرس کا پانچواں ویری اینٹ اومیکرون نسلِ انسانی کے لیے ایک آسیب کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم آپس کے اختلافات کو بھلا کر انسانیت کے بچاؤ اور کرۂ ارض پر زندگی کو خوبصورت و آسان بنانے کے لیے اقدامات کرتے لیکن اس کے بر خلاف دنیا کے ہر کونے میں انسان انسان کے خلاف نبردآزما ہے ۔مثال کے طور پر مقبوضہ کشمیر‘فلسطین و شام کے حالات ہوں یا ترقی پذیر ممالک سے خوشحال زندگی کے خوابوں کی تلاش میں یورپ اور امریکہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کی سمندر میں تیرتی لاشیں یاافغانستان میں جنم لیتا انسانی المیہ‘ یہ سب آدمیوں کی جانب سے انسانوں کے لیے پیدا کردہ حالات کی مختلف صور تیں ہیں جن کی وجہ سے ایک طرف انسانی رشتے متاثر ہو رہے ہیں‘ مائیں بچوں سے بہنیں بھائیوں سے‘ جیون ساتھی اپنے ہمسفروں کے ساتھ سے‘ اولاد والدین کی شفقت سے انفرادی طور پرمحروم ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف زندہ رہ جانے والے انسانوں کی وسیع تعداد سماجی تباہ کاریوں اور معاشی بدحالی کی وجہ سے اجتماعی سطح پر زندگی کی خوبصورتی‘ آسائشوں اور سکون کو برسوں تک محسوس کرنے سے قاصر رہتی ہے ۔
یوکرائن اور روس کے مابین 2014ء میں شروع ہونے والا تنازع اب تک تیرہ ہزار سے زائد انسانی جانیں لے چکا ہے۔یہ تنازع ایک بار پھر شدت اختیار کر چکا ہے جسے سیاسی انداز میں مذاکرات کے ذریعے روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے‘ جو دوسری عالم گیر جنگ کے بعد یورپ میں ہونے والا بڑا تصادم ثابت ہوگا۔
1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں کئی ریاستیں دنیا کے نقشے پر آزاد حیثیت سے ابھریں جن میں سے ایک یوکرائن بھی ہے۔ 1991ء سے لے کر تاحال کیف اور ماسکو میں موجود حکمرانوں کے درمیان علاقے میں بالا دستی اور معدنی ذخائر پر قبضے کی جنگ جاری ہے ۔یہ جنگ کبھی زبانی بیان بازی تک محدود ہوتی ہے تو کبھی خونریزی کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔ اس کشیدگی کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو درج ذیل وجوہات سامنے آتیں ہیں:
1۔ بحیرہ اسود میں موجود جزیرہ نما کریمیا یوکرائن کا واحد خود مختار علاقہ تھا لیکن اس نے ایک ریفرنڈم کے بعد روس سے الحاق کر لیا۔ کریمیا کی اکثریتی آبادی روسی باشندوں پر مشتمل ہے ۔یہ جزیرہ نما یالٹا کانفرنس 1945ء کی وجہ سے بھی تاریخی اہمیت رکھتا ہے ۔ یالٹا کانفرنس میں جوز ف سٹالن‘ فرینکلن ڈی روز ویلٹ اور ونسٹن چرچل نے دوسری عالم گیر جنگ کے خاتمے پر یورپ کو تقسیم سے روکنے کیلئے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے ۔ کریمیا کے روس سے الحاق کے بعد سے روسی بحری بیڑے کی بحیرہ اسود میں موجودگی یوکرائن کے ساتھ ساتھ یورپی یونین اور امریکہ کیلئے بھی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے ۔
2۔ دونوں ممالک (یوکرائن اور روس ) کے مابین تنازع کی دوسری وجہ تیل اور گیس کے وسائل ہیں۔ روس سے آنے والی بڑی گیس پائپ لائنیں یوکرائن سے گزرتی ہیں۔ ان معدنی وسائل پر بالا دستی قائم کرنے کی خواہش بھی کیف اور ماسکو کو مد مقابل لے آتی ہے ۔
3۔معدنی وسائل کے حوالے سے ادائیگیوں کا تنازع بھی کشیدگی کا سبب بنتا ہے ۔ ماضی میں کئی بار ایسا ہو ا ہے کہ روس نے توانائی کے عوض ادائیگیاں نہ کرنے پر یوکرائن کو تیل و گیس کی فراہمی روک دی تھی۔اسی طرح جب2005-06ء میں عالمی منڈی میں گیس کی قیمت میں اضافہ ہو ا تب بھی گیس کی قیمت اور ادائیگیوں کے معاملے پر دونوں ممالک کے مابین اختلاف اتنا زیادہ بڑھ گیا تھا کہ عالمی طاقتوں کی مداخلت کے بعد دونوں ملکوں میں تیل اور گیس کی فراہمی اور ادائیگیوں کے حوالے سے ایک باقاعدہ معاہدہ طے پایا جس سے کشیدگی میں کچھ کمی آئی۔ روس کی کوشش ہے کہ و ہ ممالک جو سوویت یونین کے ختم ہونے کے بعد آزاد ہوئے ہیں وہ امریکہ اور نیٹو ممالک سے قربت اختیار کر نے کے بجائے اس (روس ) کے قریب رہیں جبکہ امریکہ اور نیٹو ممالک وسطی ایشیااور مشرقی یورپ کی ان ریاستوں میں اپنا اثرو رسوخ بڑھا کر روس پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔
یوکرا ئن کی موجودہ حکومت نیٹو کی ممبر شپ حاصل کرنے اور امریکی بلاک میں شمولیت کی خواہاں ہے اور روس یو کرائن کی ان کوششوں کو اپنے خلاف جارحیت کے مترادف سمجھتا ہے ۔ امریکہ اور یورپی یونین بھی روس کی بڑھتی ہوئی طاقت اور جارحانہ رویے سے نالاں ہیں اور وہ روس کے پڑوسی ممالک میں روس مخالف سیاسی گروپوں کی مدد کر رہے ہیں ۔ سفارتی سطح پر جاری سرد جنگ نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بے حدپیچیدہ بنا دیا ہے ۔
2014ء میں بھی حالات ایسے ہی تھے جیسے آج ہیں‘ اس وقت اس کشیدگی نے جنگ کی صورت اختیار کرلی تھی۔ مسلسل لڑائی سے انفراسٹرکچر کی تباہی اورپرتشدد مظاہروں کے بعد یوکرائن کے روس نواز صدر وکٹریانوکووچ (Viktor Yanukovych) کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔ 2015ء میں آخر کار بیلا روس میں طے پانے والے معاہدے کے تحت جنگی قیدیوں کے تبادلے کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ یوکرائن کے امریکا نواز صدر پیٹروپو روشینکو(Petro Poroshenko)نے اپنے دورِ اقتدار میں روس کے ساتھ طے شدہ بہت سے اقتصادی معاہدے منسوخ کر دیے تھے ۔ 2019 ء میں برسراقتدار آنے والے یوکرائنی صدر ولادی میر زلنسکی (Volodymyr Zelensky)نے نہ صرف ملک کے بڑے روس نواز بزنس ٹائیکون پر پابندیاں عائد کیں بلکہ روس کے حامی سمجھے جانے والے ٹی وی چینلز بھی بند کر دیے اور نیٹو کی رکنیت کے حصول کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔ایسے میں امریکی جاسوس طیارے JSTAR کی روس کی سرحد کے قریب پرواز نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ایک مرتبہ پھر دونوں ملک جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ مبصرین کا دعویٰ ہے کہ روس نے یوکرائن سے ملحقہ اپنی سر حد پر ایک لاکھ سے زائد فوج اور بھاری ہتھیار پہنچا دیے ہیں ۔ امریکہ اور یورپی یونین نے روس کے ان اقدامات کی مذمت کی ہے ۔ یوکرائن امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے جدید طیارہ شکن سسٹم لینا چاہتا ہے‘ حال ہی میں برطانیہ نے یوکرائن کو ٹینک شکن ہتھیار فراہم کئے ہیں جبکہ کینیڈا کی فوج کا خصوصی دستہ کیف میں تعینات ہے ۔ جرمنی کی وزیر خارجہ کشیدگی کم کرانے اور سفارتی سطح پر مسئلے کے حل کے لیے کیف اور ماسکو کا دورہ بھی کر چکی ہیں‘ امریکہ نے روس پر پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن روس جانتا ہے کہ ان پابندیوں سے امریکہ کے اتحادی بھی متاثر ہوں گے‘ اس لئے روس کیلئے امریکی پابندیاں کو ئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ہیں۔
روس مشرقی یورپ بشمول یوکرائن‘کوہ قاف اور وسطی ایشیا میں نیٹو کی فوجی سرگرمیوں کا خاتمہ چاہتا ہے ۔ روس سے علیحدہ ہونے والی ریاستیں معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اپنی عوام تک ان کے ثمرات پہنچانے میں ناکام رہی ہیں جس کی بڑی وجہ کرپشن ہے ۔کرپشن صرف ان ہی ریاستوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ تیسری اور چوتھی دنیا کے تمام ممالک کا ہے ۔ کرپشن کا خاتمہ ہی ان ممالک کو معاشی و سیاسی استحکام دے سکتا ہے۔ سٹریٹجک ڈیپتھ‘ ڈیٹیرنس (deterrence)اور جیو پولیٹیکل مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر عالمی طاقتیں اپنی طاقت اور وسائل کو عالمی امن‘ انسان کی خوشحالی اور ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے پر صرف کریں تو دنیا کا منظر نامہ یکسر بدل سکتا ہے۔