ایران کی خارجہ پالیسی میں نیا موڑ

ایران کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہاں ہمیں سات ہزار سال قبل مسیح کی شہری آبادیوں کے نشان ملتے ہیں۔ ماضی میں ایران ایشیا کی ثقافتی راہداری کے طور پر جانا جاتا تھا جو ایشیا کو افریقہ اور یورپ سے جوڑتا تھا۔ ایک بڑا تجارتی مرکز اور ہنرمند کاریگروں کی آماجگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی ثقافت متنوع رنگ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ان ثقافتی اقدار نے کئی طاقتور عناصر کا اثر برداشت کیا ہے۔ ایران صدیوں سے مسلسل اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے ایک الگ ثقافتی و سیاسی وجود کے طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ 1979 کے بعد سے امریکہ ایران کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کیلئے معاشی پابندیوں کو حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ان اقتصادی پابندیوں کا آغاز 1987 سے ہوا اور ان میں 1995 میں اور 2006 سے اب تک مختلف سطحوں پر توسیع اور سختی آتی رہی ہے۔ ان پابندیوں کی سیاسی وجوہات کے علاوہ ایک وجہ ایران کا جوہری پروگرام بھی ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن اور شہری مقاصد بشمول بجلی کی پیداوار اور طبی مقاصد کیلئے ہے۔ معیشت پر سینکڑوں قسم کی امریکی پابندیوں اور دبائو کے باوجود ایران کا جی ڈی پی 490 بلین ڈالر ہے جو حجم کے لحاظ سے بلجیم اور تھائی لینڈ کے جی ڈی پی کے برابر ہے اور گزشتہ برس اس میں دو اعشاریہ پانچ فیصد کا اضافہ ہوا۔
حالیہ برسوں میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ملک کی برسوں سے چلی آرہی خارجہ پالیسی کی روایت ''نہ مشرق نہ مغرب‘‘ کو ترک کرتے ہوئے خارجہ پالیسی میں مشرق کو ترجیح دینے کے خیال کی حمایت کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران نے اپنے عرب، جنوبی اور وسطی ایشیا کے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کو ترجیح دینا شروع کی اور ان طاقتوں (چین اور روس) کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جو امریکہ کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ مارچ 2021 میں ایران نے چین کے ساتھ 25 سالہ سٹریٹیجک تعاون کا معاہدہ کیا۔ اس دوطرفہ معاہدے میں اقتصادی و ثقافتی تعاون، تیل کی صنعت اور کانکنی سے لے کر صنعتی کارکردگی میں اضافے تک کئی طرح کی اقتصادی سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس طرح چین کے ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ میں ایران کی شمولیت کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے۔ انہی خطوط پر ایران روس کے ساتھ بھی ایک طویل مدتی (20 سالہ) معاہدے پر گفت و شنید کر رہا ہے۔ ایران کے موجودہ صدر ابراہیم رئیسی کے جون 2021 میں اقتدار میں آنے سے قدامت پسند حلقوں کی ملک پر گرفت مضبوط ہوگئی ہے اور یہ حلقے مغرب پر عدم اعتماد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ابراہیم رئیسی ستمبر 2021 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے بجائے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کو اہمیت دیتے ہوئے اس میں شرکت کرنے کیلئے دوشنبے‘ تاجکستان چلے گئے۔ رئیسی روس اور چین کے ساتھ تعلقات میں توسیع چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے جنوری کے وسط میں روس کا دورہ کیا۔ یہ دورہ اس وقت عمل میں آیا جب امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے ساتھ روس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ایرانی اور روسی حکام اس دورے کو دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ قرار دے رہے ہیں۔ دونوں صدور کے مابین باہمی تعلقات، دہشتگردی کے خلاف جنگ، افغانستان عراق، شام پر تعاون کو توسیع دینے کے امکانات کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام پر بھی بات چیت ہوئی۔ ایران امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے روس کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے اور اسے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ویانا میں جاری مذاکرات میں ماسکو کی حمایت کی ضرورت بھی ہے۔ روس امریکی پابندیاں ہٹانے کے ایران کے مطالبے کی حمایت کرتا ہے۔ روس کے چیف مذاکرات کار میخائل الیانوف نے ایران کی جانب سے دسمبر کے آخر میں ایران کیلئے امریکی ایلچی ''رابرٹ میلے‘‘ سے بھی ملاقات کی جس سے ایک طرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان تھرڈ پارٹی کے ذریعے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایران کے دوست اس کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کروانا چاہتے ہیں۔
اپریل 2021 سے عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے (JCPOA) کی بحالی کیلئے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں یکطرفہ طورپر اس معاہدہ کو منسوخ کردیا تھا۔ ویانا میں جاری حالیہ مذاکرات اس وقت پیچیدہ ہوگئے جب ایران نے براہ راست امریکی حکام سے بات چیت کرنے سے انکا ر کردیا۔ یوں امریکہ کو یورپی سفارتکاروں کے ذریعے ایران سے مذاکرات کرنا پڑ رہے ہیں۔ جوبائیڈن انتظامیہ کے اندر اس وقت تشویش بڑھ رہی ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان2015 کے جوہری معاہدے کی مکمل واپسی کیلئے مذاکرات کا وقت کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ امریکہ کاخیال ہے کہ ایران مبینہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہے۔ روسی وفد نے ویانا میں ایرانی وفد سے علیحدگی میں ملاقات کے دوران ممکنہ عبوری معاہدے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے تہران کے جوہری پروگرام پر کچھ پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے بدلے میں معاشی پابندیوں میں محدود ریلیف کی پیشکش کی۔ روس کی کامیاب سفارتکاری کا نتیجہ ہے کہ ایران نے عندیہ دیاکہ وہ امریکہ سے براہ راست بات چیت پر غور کرسکتا ہے۔
ویانا میں جاری ان مذکرات میں کافی پیشرفت ہوئی ہے لیکن اب بھی کچھ اہم مسائل باقی ہیں جن کیلئے سیاسی فیصلوں کی ضرورت پڑے گی۔ تہران ماسکو کا کئی معاملات میں اتحادی ہے، خاص طور پر بشارالااسد کی حکومت کی حمایت کے سلسلے میں اور شنگھائی تعاون تنظیم کی مکمل رکنیت (ستمبر2021 ) کا حصول بھی روس کی مضبوط حمایت کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ ایران روس کی زیر قیادت ''یوریشین اکنامک یونین‘‘ میں شمولیت اور اس سے دس بلین ڈالر مالیت کا جدید اسلحہ جیسے Su35 لڑاکا طیارے اور S400 میزائل دفاعی نظام کی خریداری کیلئے مذاکرات کررہا ہے، لیکن روس فی الحال مگ 23 اور مگ 29 طیاروں کے استعمال، مرمت اور ماڈرنائیزیشن کے موجودہ معاہدے کی توسیع تک خود کو محدود رکھے ہوئے ہے۔ ماسکو اور تہران نے شام، یمن، لیبیا اور افغانستان میں امن کی بحالی، پناہ گزینوں اور دہشت گردی جیسے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ تہران، ماسکو اور بیجنگ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں امریکی مداخلت پر مبنی پالیسیوں کے خلاف ہیں اور عالمی معیشت پر امریکی ڈالر کی بالا دستی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران ایران نے چین اور روس کے ساتھ مل مختلف فوجی مشقیں بھی کیں ہیں‘ مثلاً حال ہی میں شمالی بحر ہند میں باب المندب اور آبنائے ہرمز کی معروف اور کلیدی آبی تجارتی گزرگاہ کے قریب ایران‘ چین اور روس کی بحری افواج نے ''بحری سلامتی بیلٹ‘‘ کے عنوان تین روزہ فوجی مشقیں کیں جن کا مقصد خطے میں سلامتی اور کثرالجہت تعاون کو وسعت دینا تھا۔
ایران کی خارجہ پالیسی میں آنے والے اس پیراڈائم شفٹ کی بدولت ہی وہ روس اور چین کے ساتھ کامیاب سفارت کاری سے مختلف سطحوں کے دفاعی اور اقتصادی تعاون کے طویل مدتی معاہدے کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ایران، چین اور روس دوستانہ تعلقات میں توسیع اور عالمی منظرنامے میں ایک ایسی مثلث کے طور پر سامنے آ رہے ہیں جو طاقت کی غیر مساوی بالا دستی کا اختتام ثابت ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں