روس یوکرین تنازع ‘عالمی طاقتیں اور اسلحے کابیوپار

روس اور یوکرین کے درمیان جاری موجودہ جنگ کی بنیاد اس وقت رکھی گئی تھی جب 2008ء میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے یوکرین اور جارجیا کے نیٹو میں شامل ہونے کے امکانات کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔ اس حمایت نے یوکرین اور جارجیا کی توقعات کو بڑھاوا تو دیا ہی لیکن ساتھ ہی روس میں عدم تحفظ بھی پیدا کیا۔ روس نے اپنی ناراضی اور تحفظات کا اظہارسفارتی سطح پر متعدد مواقع پر کیا۔ روس کا کہنا ہے کہ 1990ء میں دیوار ِبرلن کے انہدام اور مشرقی و مغربی جرمنی کے الحاق کے وقت ہونے والی بات چیت میں امریکہ نے اُس (روس) سے یہ وعدہ کیا تھا کہ نیٹو مشرقی یورپ کی طرف پیش قدمی نہیں کرے گا۔ اس یقین دہانی کے باوجود امریکہ نے مشرقی یورپ کے ملکوں کو ایک ایک کرکے نیٹو کی رکنیت دینے کے ساتھ وہاں اسلحے کی ترسیل کے علاوہ بڑے پیمانے پر میزائل بھی نصب کردیے جسے روس اپنی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتا ہے ۔ اب امریکہ اور نیٹو ممالک کی پیش قدمی ان ممالک کی جانب ہے جو روس کا حصہ رہے ہیں اور جنہیں روس اپنی سرخ لکیریں تسلیم کرتا ہے ۔یہی وہ عدم تحفظ کا احساس ہے جس کی بنا پر 2014ء میں روس نے جزیرہ نما کریمیا (Crimea)کا الحاق کیا اور مشرقی یوکرین کے علاقوں لوہانسک اور ڈونیٹسک ‘جنہیں ملاکر ڈونباس (Donbas)کہا جاتا ہے ان علاقوں کی اکثریتی آبادی روسی نژادہے یہاں روس نواز علیحدگی پسندوں کو روس کی حمایت ہمیشہ حاصل رہی ہے ‘میں روسیوں کے نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہوئے یوکرین پر حالیہ حملہ کیاہے اور ان دونوں علاقوں کو آزاد مملکتیں ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔یوکرین اور روس کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں روس یہ مطالبہ بھی کر رہا ہے کی لوہانسک اور ڈونیٹسک کی آزادی کو تسلیم کیا جائے۔
روس اور یوکرین کے درمیان اس کشیدگی میں موجودہ جنگ کے آغاز سے قبل 14000سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ موجودہ حالات میں اب تک چھ لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگ گھربار چھوڑ کر پولینڈ ‘سلواکیہ ‘ہنگری‘رومانیہ اور مالڈووا میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں ۔اگر اس تنازعے کا جلدکوئی پرامن حل نہ تلاش کیا گیا تو یہ ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دے گا۔ دوسری جانب یوکرین امریکہ سے ملٹری فنڈنگ حاصل کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے ۔ دونوں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ بھی ہے ۔ یوکرینی اپنی سرزمین کا دفاع بڑی بہادری سے کر رہے ہیں اور افغان صدر اشرف غنی کے برعکس یوکرین کے صدرزیلنسکی نے ملک سے فرار ہونے کی امریکی آفر کو یہ کہتے ہوئے رد کردیا کے مجھے سواری نہیں بلکہ ہتھیارچاہئیں‘ اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لیے۔ جنگ میں ہارجیت سے قطع نظرزیلنسکی کے اس قول و فعل کو دنیا کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی مذمتی قرار داد کو روس نے ویٹو کردیا جبکہ چین ‘ بھارت اورمتحدہ عرب امارات نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا ۔ چین اس تنازعے میں شدت کی وجہ اور روس کو جنگ کرنے پر مجبور کرنے کا محرک امریکہ کو سمجھتاہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لی جیان ژاؤنے چین کی روایتی پالیسی کے برخلاف ایک فہرست شیئر کی جس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک 81فی صد جنگیں امریکہ نے شروع کی ہیں جبکہ چائنا سوسائٹی فار ہیومن رائٹس سٹڈیز (سی ایس ایچ آر ایس) نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی غیر ملکی جنگوں نے بڑے پیمانے پر فوجی جانوں‘ شہریوں اور املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔رپورٹ میں کہاگیا کہ امریکہ کی خود غرضی بھی ان غیر ملکی جنگوں کے ذریعے پوری طرح بے نقاب ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1945ء سے 2001ء تک دنیاکے153خطوں میں ہونے والے248مسلح تنازعات میں سے201کاآغازامریکہ نے کیاتھا۔ اس سب سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ چین کی پالیسی میں بھی تبدیلی آرہی ہے ۔ جو مستقبل کی عالمی سیاسی شطرنج پر ایک سے زیادہ سپر پاورز کا عندیہ دے رہی ہے ۔
امریکہ ‘برطانیہ اور یورپ نے روس پر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کردی ہیں ۔مشرقی یورپ میں نیٹو افواج کی تعداد میں اضافے کے علاوہ فضائی نگرانی بھی کی جارہی ہے ۔ یوکرین کو جرمنی (اپنی پالیسی کے برخلاف) اور دیگر یورپی ممالک نے ہتھیار فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ردعمل کے طور پر روسی صدر نے جوہری فورسز کو خصوصی الرٹ پر رکھنے کا حکم دیاہے جس سے ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جوہری ہتھیاروں کو الرٹ پر رکھا گیا ہو ‘ سرد جنگ کے دوران دنیا کئی بار جوہری جنگ کے دہانے سے واپس ہوئی ہے‘ مگراسے کھیل نہ سمجھا جائے آخر کب تک Sanity Prevail کرے گی؟ کسی بھی وقت کوئی سر پھرا دنیا کے وجود کو ختم کر سکتا ہے ‘اس لیے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو اپنے دہرے معیاروں اور پالیسیوں کو ختم کرکے سنجیدگی سے اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی لیے زبانی کلامی دعووں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے ۔
میڈیا رپوٹ کے مطابق ابھی تک روس نے اپنی اس فوجی طاقت کا ‘جو اس نے یوکرین کی سرحدوں پر جمع کی تھی‘ صرف 50 یا 70 فیصد ہی میدان جنگ میں اتارا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ماہرین روس کی فوجی حکمت عملی پر سوال اٹھارہے ہیں۔ جنگ کی طوالت سے صدر پوتن کے آپشنزکم ہوتے جارہے ہیں اور روس یوکرین میں پھنستا ہوا محسوس ہورہا ہے ۔ یہ صورت حال یقینی طور پر ایک مضبوط فوجی طاقت کے اس امیج کو نقصان پہنچائے گی کیونکہ جنگ پہلے ہی روس کی مستقبل کی حیثیت پرشدید اثرات مرتب کر سکتی ہے ۔اگر روس یوکرین پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے یا اسے غیر مستحکم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو امریکہ اور یورپ کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے اور روس کے ساتھ کسی بڑی جنگ کے آغاز کے دہرے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اگر روس کامیاب نہیں ہوتا تو اس کا واضح مطلب یہ ہو گا کہ یہ ایک ایسا trap تھا جس کو سمجھنے میں صدر پوتن سے غلطی ہوئی اور انہوں نے اپنے ملک کو دلدل میں پھنسا دیا ۔ کیایو کرین روس کے لیے افغانستان تو نہیں بن جائے گا؟ چین‘ بھارت اور ایران سمیت بہت سے ممالک اس ساری صورت حال کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں ۔
روس اور یوکرین کے درمیان اس جنگ سے غذائی اجناس کی عالمی سپلائی کو بھی نقصان پہنچے گا کیونکہ یہ دونوں ممالک دنیا کو گندم کی برآمدات کے ایک تہائی‘ مکئی کی تجارت کے پانچویں حصے اور سورج مکھی کے تیل کی پیداوار کے تقریباً50 فیصد کے حامل ہیں؛چنانچہ اس جنگ سے ان اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے ۔ عالمی مارکیٹ میں پہلے ہی خام تیل‘ قدرتی گیس اور غذائی اجناس کی قیمتیں بلند ترین سطح کو چھو رہی ہیں اور اس تنازعے سے پیدا ہونے والی صورتحال میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں افراط زر کا خطرہ شدید نظر آتا ہے ۔ یورپ‘ مشرقی وسطیٰ‘ شمالی افریقہ اورپاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کئی ممالک گندم کی سپلائی کیلئے یوکرین پر انحصار کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق یوکرین پر روس کے حملے سے پہلے ہی عالمی سطح پر خوراک کی قیمتیں دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھیں جبکہ 25فروری کے بعد سے گندم کی قیمتوں میں 40 فیصد اور مکئی کی قیمتوں میں 16 فیصد اضافہ ہواکیونکہ جنگ کی کیفیت پہلے ہی ایندھن کی عالمی سپلائی میں خلل ڈالنے کا باعث بن رہی تھی۔ اگر روس کی توانائی کی برآمدات پر بھی پابندی عائد کی گئی تو یہ مسئلہ ڈرامائی طور پر مزید بگڑ جائے گا۔عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان جاری ہے اور اس کی قیمت 126 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ گیس کی قیمت بھی پونے پانچ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے قریب آ چکی ہے۔
یورپ کی بریڈباسکٹ کہلانے والا ملک یوکرین جس نے 1986ء میں چرنوبل ایٹمی حادثے کو بھی برداشت کیا تھا‘ موجودہ مسائل سے بھی نکل آئے گا مگر اس جنگ سے اسلحے کے کاروبار میں ضرور اضافہ ہوگا‘ تاہم قیمتی انسانی جانوں کا زیاں‘ گھر سے بے گھر ہونے والے لوگوں کا دکھ اور بچوں پر ہونے والے گہرے نفسیاتی اثرات کا مداوا کیسے ممکن ہوگا ؟یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ چھوٹے ملکوں کو اب یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ و ہ آخرکب تک عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر اپنے عوام کی زندگیوں کو ضائع ہونے دیں گے ‘ جبکہ عالمی طاقتوں کو اب بیٹھ کر یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اپنی سرحدوں میں رہتے ہوئے اسلحے کے کاروبار کے بجائے کسی ایسے کاروبار کو ذریعہ معاش بنائیں جو ان کی فکری اور مالی طاقت کو ضرور برقرار رکھے مگر دھرتی پر بسنے والے جانداروں سے جینے کا حق نہ چھینے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں