جب قوم کی تعمیر و ترقی کی بات آتی ہے تو ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے کے حصول کے لیے تین اہم اجزا کا ہونا لازمی ہے : 1۔ انتظامی ڈھانچہ، 2۔ تعلیم، 3۔انصاف کے عمل کا نظام۔ یہ عوامل کسی بھی سول سوسائٹی کی بنیاد ہوتے ہیں جو انسانی فلاح و بہبود کو اپنے وجود کا ایک اہم مقصد بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ جہاں ان عوامل کا فقدان ہوگا تو وہ معاشرہ دلدل میں پھنس جائے گا اور ریاست ایک ناکام ریاست کی صورت کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے گی۔ ماہرین عمرانیات معاشرے میں اخلاقی اقدار کی پامالی، غربت اور بدحالی کی ذمہ دار قیادت، ادارے، انسانی سرمائے، مقننہ (پالیسی کا انتخاب)‘ ثقافت، انٹرپرنیورشپ پر عائد کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان عوامل میں قیادت+مقننہ (پالیسی کا انتخاب) + ثقافت کا مجموعہ انسانی سرمائے کے معیار کا تعین کرتا ہے‘ جو کسی بھی قوم کے اداروں کو آگے بڑھانے کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ہیومن کیپیٹل ہی انٹرپرنیورشپ سیکٹر کا مرکز بن کر پیداواری صلاحیت کو آگے بڑھاتا ہے اور معاشی خوش حالی اور سیاسی استحکام کو تحریک دیتا ہے۔ یہ چھ متغیرات ایک دوسرے پر منحصر ہیں اورکسی ایک کے بھی باقیوں کے ساتھ ہم آہنگی سے باہر جانے کی صورت میں اس کے منفی اثرات باقی متغیرات پر بھی اثر انداز ہوں گے، جس سے قومی ترقی اور نمو میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ قیادت اگر خود نظام کو آلودہ کرنے کا سبب ہوتو وہ دوسرے تمام متغیرات کی خرابی کا سبب بنتی ہے۔
اخلاقیات کی صلاحیت انسانی فطرت کا ایک لازمی وصف ہے، جبکہ اخلاقی ضابطے ثقافتی ارتقا کی پیداوار ہیں۔ انسانوں میں فطرتاً اخلاقی احساس ہوتا ہے کیونکہ ان کی حیاتیاتی ساخت اخلاقی رویے کیلئے تین ضروری شرائط کی موجودگی کا تعین کرتی ہے:1۔ اپنے اعمال سے نتائج کا اندازہ لگانے کی صلاحیت، 2۔ فیصلہ کرنے کی صلاحیت، 3۔ اپنے عمل کے متبادل کی تلاش کی صلاحیت۔ انسان کی ممتاز دانش ورانہ صلاحیت کے لازمی نتیجے کے طور پر اخلاق انسانی فطرت کا حصہ ہے؛ تاہم اخلاقی ضابطے ثقافتی ارتقا کے نتائج ہیں جو آبادی کے درمیان ثقافتی اصولوں کے تنوع اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے ارتقا کے ذمہ دار ہیں۔ اخلاقیات صرف نفسیات کا کوئی پرانا موضوع نہیں بلکہ زندگی کے معنی کے بارے میں ہمارے تصور کے قریب تر ہے۔ اخلاقی اچھائی وہ ہے، جو ہم میں سے ہر ایک کو یہ احساس دلاتی ہے کہ ہم ایک لائق انسان ہیں۔
انسانی سماج کی خصوصیت ثقافت ہے جسے انسانی سرگرمیوں اور تخلیقات کے مجموعہ کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے ثقافت میں سماجی اور سیاسی ادارے، کام کرنے کے طریقے، مذہبی اور اخلاقی روایات، زبان، سائنسی علم، فن و ادب، ٹیکنالوجی اور عمومی طور پر انسانی ذہن کی تمام تخلیقات شامل ہیں۔ ثقافت تکنیکی اور سماجی اختراعات کا ایک ایسا ذخیرہ ہے جسے لوگ اپنی زندگی گزارنے میں مدد کرنے کے لیے جمع کرتے ہیں۔ ثقافت کی آمد اپنے ساتھ ثقافتی ارتقا لے کر آئی جو کہ نامیاتی موڈ پر سپر آرگینک موڈ ہے جو پچھلے چند ہزار سالوں میں انسانی ارتقا کا غالب موڈ بن گیا ہے۔ ثقافتی تبدیلی اور وراثت کی وجہ سے ثقافتی ارتقا ہوا ہے جو ماحول کے ساتھ موافقت حاصل کرنے اور اسے نسلوں کے ذریعے منتقل کرنے کا ایک مخصوص انداز ہے۔ فلسفیوں کا خیال ہے کہ انسان فطرتاً اخلاقی اقدار کا حامل ہے انسان نہ صرف Homo sapiens بلکہ وہ Homo moralis بھی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے انسانی معاشرے کی بنیادی اقدار کو متزلزل کر دیا ہے، جس نے ایک طرف معاشرتی پیچیدگیوں میں اضافہ کیا ہے تو دوسری جانب اخلاقی اقدار کی اہمیت اور معاشرے کے لیے ان کے فوائد کو بھی واضح کر دیا ہے۔ اخلاقیات انسانی رویے کی رہنمائی کرتی ہے اور اخلاقی اقدار روحانیت اور ثقافت سے مضبوطی سے منسلک رہتے ہوئے سیاست سے مسلسل متاثر ہوتی ہیں۔ گلوبلائزڈ دنیا میں سماجی زندگی پر تیز رفتار تکنیکی ترقی نے بہت زیادہ اثر ڈالا ہے اور اقدار پر عمل کو مشکل کردیا ہے۔ اخلاقی اقدار طرز زندگی کا حصہ ہوتی ہیں اور انہیں زندگی کے دیگر تمام تجربات اور پہلوؤں سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اخلاقی تعلیم کا مقصد طلبا کی اخلاقی نشوونما اور کردار کی تشکیل کرنا ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں صارفیت اور مادیت پرستی معمول بن چکے ہیں‘ ایک بار پھر کردار سازی پر بدعنوانی کے اثر کو دیکھتے ہوئے اخلاقیات کی تعلیم کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔
آج کی تیز زندگی میں والدین کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کر سکیں۔ اخلاقی نظم و ضبط کی مثال پیش کرنے کے لیے والدین جب تک ان اخلاقی اصولوں پر خود عمل نہیں کریں گے تو بچوں کے سامنے کون سا رول ماڈل رکھیں گے۔ وہ بچہ جو زندگی کی ابتدائی دنوں میں شعوری یا لا شعوری طور والدین کی جانب سے نظر انداز ہو رہا ہے آنے والے وقت میں کیا والدین اپنی نظر اندازی کا شکوہ کرنے میں حق بجانب کہلا سکتے ہیں؟ ہم بھول جاتے ہیں کہ کل اسی بچے کے ہاتھ میں اس گھر اور اپنے معاشرے کی باگ ڈور ہو گی اور اس وقت اس کی نظر اندازی کا پہلا نشانہ اس کے اپنے گھر کے افراد ہوں گے اور اس کے بعد اس کا معاشرہ‘ جس نے اس کی تربیت میں جو جو اچھائیوں اور کوتاہیوں والا کردار ادا کیا ہوتا ہے وہ دراصل اسے وہی لوٹا رہا ہوتا ہے اور بعض دفعہ وہ ان تمام رویوں کو سود سمیت پرزور انداز میں واپس کرتا ہے جس کی وجہ سے یا تو معاشرہ اس کو داد دیتا ہے یا اس کے خلاف فریادی ہوتا ہے۔ دراصل نظم و ضبط، صبر، محنت، علم کا حصول، استقامت، برداشت، دیانتداری، بے غرضی جیسے اوصاف کا فقدان ہمارے معاشرتی مسائل کا سبب ہے۔ یہ وہ بنیادی اصول ہیں جن کو اپنا کر قوموں نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ بنیادی مذہبی اصولوں سے دوری کی وجہ سے یہ مسائل زیادہ گمبھیر ہوگئے ہیں۔ الہامی قوانین کو معاشرتی اور عملی زندگی میں نہ اپنانے کی وجہ سے زندگی میں دو رخی نے جنم لیا ہے۔ ان اصولوں پر انفردی اور اجتماعی سطح اور اس سے بڑھ کر تمام سرکاری دفاتر میں عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے تاکہ قوم کی کردار سازی ہو سکے۔ اچھے اور ذمہ دار شہری تیار کرنے کے لیے ہمیں بہتر تعلیم اور تمام تعلیمی پروگراموں کے اہداف میں نوجوانوں کے احساسِ تعلق کو تقویت دینے کے ساتھ، اعتدال، انصاف اور رواداری کو با قاعدہ شامل کر نے کی ضرورت ہے اور اتنی ہی باقاعدگی سے اس کی عملیت پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اچھی اور محفوظ زندگی، قابل اعتماد انصاف کا نظام، صحت کی سہولیات کی فراہمی اچھے معاشرتی ڈھانچے کی تعمیر میں اہم قدم ثابت ہوں گے۔ درست سمت میں بڑھنے کے لیے قانون کی حکمرانی اس پر عمل کرنے، اس کی برتری کے لیے خود کو جوابدہ رکھنے کا عزم، قطع نظر اس کے کہ اس میں کوئی بھی ملوث ہے، قومی ترقی اور استحکام کا راستہ ہے۔ جس خطرناک دوراہے پر ہم اس وقت ایک قوم کے طور پر کھڑے ہیں اس سے نکلنے کے لیے اخلاقی اقدار کو اپنانے کی ابتدا ہم سب کو اپنے اپنے گھر سے کرنا ہو گی۔ آئیے گھر میں صحیح کام کرنا شروع کریں، باقی سکولوں، بازاروں، سرکاری دفاتر اور زندگی کے مختلف طبقہ ہائے فکر خود بخود درست سمت میں چلنا شروع ہو جائیں گے۔