ہر دور میں انسان اپنے جو خوبصورت اور دلفریب احساسات دوسروں تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوا ہے‘ اس میں بڑا حصہ فنون لطیفہ کا ہے۔ مصوری، سنگ تراشی، خطاطی، ڈرائنگ، دستکاری، زیورات کے ڈیزائن، فن تعمیرات، رقص، موسیقی، ادب‘ تھیٹر، فوٹوگرافی، فیشن ڈیزائننگ، مہر سازی اور سرامکس وغیرہ‘ یہ تمام فنونِ لطیفہ کے دائرے میں آجاتے ہیں۔ اکیسویں صدی سائنس و ٹیکنالوجی کی صدی ہے، لیکن کرۂ ارض پر زندگی سے وابستہ تمام ثقافتوں کو سمجھنے کے لیے آج بھی فنون لطیفہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ فنونِ لطیفہ نہ صرف ماضی بلکہ حال کی تمام دنیاوی ثقافتوں کو سمجھنے میں بھی آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔ انسانی ارتقا کی گرہیں کھولنے اور وقت گزرنے کے باوجود کئی نسلوں میں فرحت کا احساس پیدا کرنے کا گر بھی فنون لطیفہ میں نمایاں نظر آتا ہے۔
دنیا میں فنون لطیفہ کی ترقی اور فروغ کے لیے یونیسکو کی جنرل کانفرنس کے 40ویں اجلاس میں ترکی کے مندوب بیدری بایکام (Bedri Baykam) نے فنون لطیفہ کا دن منانے کے تجویز دی تھی۔ ان کی اس تجویز کی حمایت اور تائید فرانس، چین، میکسیکو، سلواکیہ اور جاپان کے مندوبین نے کی اس طرح 2012 سے ہر سال 15 اپریل کو فنونِ لطیفہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 15 اپریل کی تاریخ چننے کا مطلب عظیم مصور لیونارڈو ڈا ونچی کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا۔ ان کا شمار تاریخ کے عظیم ترین مصوروں میں ہوتا ہے۔ ڈا ونچی کو عالمی امن، اظہار رائے کی آزادی، رواداری، بھائی چارے، ثقافتی تنوع اور دیگر شعبوں میں فن کی اہمیت کی علامت کے طور پر چنا گیا۔ لیونارڈو ڈا ونچی (15 اپریل 1452 تا 2 مئی 1519) کو اعلیٰ نشاۃ ثانیہ کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ مصور، انجینئر، سائنسدان، تھیورسٹ، مجسمہ ساز اور معمار تھا۔ ڈاونچی کی شاندار تخلیق مونا لیزا اور دی لاسٹ سپر ہیں لیکن وہ اپنی نوٹ بکس کے لیے بھی مشہور ہیں۔ ان نوٹ بکس میں اناٹومی، فلکیات، نباتات، نقش نگاری، پینٹنگ اور پیلینٹولوجی (paleontology) کے موضوعات پر ڈرائنگ اور نوٹس موجود ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ سلطنت عثمانیہ میں فن تعمیر کے ماہر معمار سنان پاشا کی بھی تاریخ پیدائش بھی 15 اپریل 1489 ہے جن کی بنائی ہوئی عمارات ترکی کے منفرد طرز تعمیر کا علامت ہیں۔ عالمی سطح پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر میں تخلیقی صلاحیتوں کے بارے میں بیداری کو فروغ دیا جائے، کیونکہ فنونِ لطیفہ ہی ہیں جو سب لوگوں کے لیے تخلیقی صلاحیتوں، اختراعات اور ثقافتی تنوع کو پروان چڑھاتے ہیں۔
فنونِ لطیفہ انفرادی سطح پر ہی نہیں مجموعی طور پر قومی سطح پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ اقوام کی تہذیب، ثقافت، معاشرت اور تمدن کو اجاگر کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں۔ ان فنون کے ذریعے عالمی برادری میں کسی قوم کا تشخص واضح کیا جا سکتا ہے۔ یوں بین الاقوامی رواداری کے فروغ کیلئے فنون لطیفہ ایک اہم عامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ زندہ قومیں فنونِ لطیفہ کے فروغ کی کوشش کرتی ہیں۔ جمالیات کی وہ صفت جس کے ذریعے کوئی شے اس کے فوائد سے قطع نظر ہمیں پسند آتی ہے اور بے غرضی اور مسرت پر اکساتی ہے وہ فنونِ لطیفہ کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ فنون ایک ایسا دریچہ ہیں جو تخلیقی اور جدید حل کی راہ کھولتے ہیں۔ زندگی کو انوکھے زاویے سے دیکھنا اور جینا سکھاتے ہیں۔
قدیم مصر اور یونان سے آرٹ کے جو شاہکار ملے ہیں‘ وہ اب بھی ہمیں ہنر کی بے نظیر مثالیں دکھاتے ہیں جو خوبصورتی کے تاثر میں لوگوں کی بہت سی نسلوں اور ان کے اتحاد کے درمیان تعلق کی علامت ہیں۔ فنونِ لطیفہ جمالیاتی حس کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ بصری فن کی تخلیق نوع انسانی کی خصوصیات میں سے ایک ہے‘ لیکن آثار قدیمہ کے شواہد کی کمی کی وجہ سے ہمارے پاس انسانی ثقافت کے اس پہلو کی ابتدا اور ارتقا کے بارے میں محدود معلومات ہیں۔ ان محدود معلومات کے باوجود آرٹ کے ان قدیم نمونوں نے کرہ ارض پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ ہیں: Stonehenge، اہرام مصر، موہن جوداڑو سے ملنے والے مصوری کے شاہکار، یونانی پارتھینون، رومن کولرزیم، Gothic Cathedras، نیلی مسجد، تاج محل، موتی مسجد، مکلی قبرستان وغیرہ میں سے ہر ایک آرٹ کا ایک بہترین نمونہ ہے جو اس وقت، جگہ اور سیاق و سباق کے بارے میں اہم پیغامات پہنچاتا ہے جس میں وہ فنی شاہکار تخلیق کیا گیا تھا۔
آرائشی فنون کے طور پر فنونِ لطیفہ کے ابتدائی نقوش قدیم غاروں کی دیواروں پر مصوری کی صورت میں موجود ہیں۔ اس طرح یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مصوری آرٹ کا پہلا طریقہ تھا۔ آرٹ بہت سی چیزوں کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ یہ ان احساسات سے نمٹنے کا ایک ذریعہ بھی ہے جس کا اظہار عام ذرائع سے ممکن نہیں۔ آج 21ویں صدی میں فنونِ لطیفہ کی جہتیں ماضی کے مقابلے میں بہت بدل چکی ہیں۔ آج آرٹ نہ صرف اپنے خیالات کے اظہار کا ایک طریقہ ہے، بلکہ اسے عوام تک کسی قسم کی معلومات یا پیغام بھیجنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ لوگ مختلف زاویوں سے چیزوں کو دیکھیں اور سمجھیں۔ فن انسان کی موت اور زوال سے بالاتر ہونے کی خواہش کو پورا کرتا ہے جس کے تابع تمام زمینی چیزیں ہیں۔ یہ انسان کو ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں وہ اپنے جذبات سے ہر چیز کی ترجمانی کرتے ہیں۔ عصری ثقافت میں فن اور خوبصورتی کے مقام کو سمجھنے کیلئے آرٹ کی تاریخ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ قدیم مصر، میسوپوٹیمیا، فارس، ہندوستان، وادیٔ سندھ، چین، قدیم یونان، روم، Inca empire، مایا اور اولیمک (Olmec) ابتدائی تہذیب کے ان مراکز میں سے ہیں جو اپنی منفرد اور عظیم تہذیبوں کا پتہ دیتے ہیں۔ ان تہذیبوں کے زیادہ تر فن پارے زندہ رہے ہیں‘ اور ان کا زیادہ اثر دوسری ثقافتوں اور بعد کے زمانے میں منتقل ہوا ہے۔
فنون لطیفہ کا عالمی دن منانے کا بنیادی مقصد انسانی فنون کی نہ صرف یاد تازہ کرنا ہے بلکہ ان فنون کو سمجھنا اور آنے والی نسلوں تک ان کو منتقل کرنا اور اس میں مستقل جدت پیدا کرنا بھی ہے ۔ جس طرح فن خطاطی کی ایک وسیع دنیا ہے اسی طرح دنیا بھر میں موسیقی کے کئی ساز اور رقص کی ہزاروں اقسام پائی جاتی ہیں اور ان سے محظوظ ہونے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اسی طرح عورتوں اور مردوں کے زیورات دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف ہیں اور وہ ان کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ فن تعمیر میں مختلف اقوام منفرد پہچان رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں اس وقت ہزاروں زبانوں میں ادب تخلیق ہو رہا ہے جن کی معرفت ادیب سوسائٹی کو بہتر سے بہتر کرنے اور اپنی تخلیقات کی معرفت انسانی زندگی کو ملنے والے دکھ اور تکلیفوں سے بچانے اور خوشیوں کو بڑھاوا دینے میں سرگرم عمل ہے۔ یہ تو چند مثالیں ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر کے انسانوں کو اپنی ثقافتوں سے جڑے فنون لطیفہ کی اہمیت کا نہ صرف احساس اجاگر کرنا ہے بلکہ ان میں موجود صدیوں کے سرمایہ کو معدوم ہونے سے پہلے محفوظ کرنے کی ضرورت کا احساس اجاگر کرنا بھی ہے۔
میرے وطن پاکستان کی موسیقی اور موسیقار، گلگت بلتستان کشمیر سے لے کر تمام صوبوں میں موسیقی کے منفرد ساز، رقص کے مختلف انداز، پاکستانی کی کئی درجن زبانوں میں لکھا جانے والا ادب، صدیوں سے زیورات کی میراث، آثار قدیمہ میں فن تعمیر کے شاہکار اور دیگر تمام فنون لطیفہ دراصل اس دن پر اکابرین فن و دانش کی توجہ کے طلبگار ہیں، جن کی توجہ سے ایک طرف یہ سرمایہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ ہو سکے گا تو دوسری طرف ان کی دلچسپی سے اس میں جدت و ترقی کے امکانات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔