سری لنکا کا معاشی بحران‘ لمحۂ فکریہ

22 ملین آبادی پر مشتمل قدرتی حسن سے مالامال سری لنکا کی تاریخ تین ہزار سال پرانی ہے جس میں قبل از تاریخ کی انسانی بستیوں کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ ثقافت و تمدن کے بھرپور ورثے کا مالک یہ ملک قدیم شاہراہ ریشم کے ابتدائی دنوں سے آج کے میری ٹائم سلک روڈ تک جغرافیائی سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے‘ شرح خواندگی 92 فیصد ہے۔ معیشت کا دارومدار سیاحت، زراعت (چائے، کافی، ناریل، ربڑ، تمباکو وغیرہ ) ٹیلی مواصلات، ٹیکسٹائل مینوفیکچررز کی برآمدات پر ہے۔ اس وقت سری لنکا پر 51 بلین ڈالر کے غیرملکی قرضے واجب الادا ہیں۔ اس معاشی بحران کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں ملک کے شمال مشرقی حصے میں تامل باغیوں کے ساتھ 1983ء تا 2009ء جاری رہنے والی خانہ جنگی نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔ یہاں سیاحت ایک بڑی صنعت ہے جس کو 2019ء میں ایسٹر کے موقع پر چرچ اور لگژری ہوٹلوں میں بم دھماکوں سے شدید دھچکا لگا۔ سیاحوں کی آمد میں کمی واقع ہوئی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آئی، رہی سہی کسر مارچ2020 میں Covid19 کی وبانے پوری کردی۔
سری لنکا اس وقت بدترین معاشی بحران سے نبردآزما ہے۔ غیرملکی قرضوں کی ادائیگی اور بڑے تجارتی خسارے کی وجہ سے ملک بنیادی اشیا اور ادویات درآمد کرنے سے قاصر ہے۔ اشیائے خورونوش، خشک دودھ، ادویات، بجلی اور کھانا پکانے والی گیس جیسی بنیادی ضروری اشیاء مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔ عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی معطل کر دی ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ سے بیل آئوٹ پیکیج پر مذاکرات جاری ہیں۔ صدر اور حکومت کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور صدر گوٹابیا راجا پاکسے کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
بحر ہند میں خلیج بنگال کے جنوب مغرب میں واقع جزیرہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ جمہوریہ سری لنکا ایک کثیرالقومی ریاست ہے اور متنوع ثقافتوں، زبانوں اور نسلوں کا گھر ہے۔ اکثریتی آبادی سنہالی، جبکہ تامل، مسلمان، ملائی، برگرز، چینی اور ویدا اقلیتیں یہاں آباد ہیں۔ زمانہ قدیم سے ہی یہ ملک پُرتعیش اشیا اور مسالا جات کی تجارت کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب و ایرانی تاجر اسے سراندیپ کہتے تھے۔ سنہالی سلطنت کے سیاسی بحران کے دوران پرتگال کے تاجروں نے 1505ء میں اس جزیرے کی منافع بخش بیرونی تجارت پر کنٹرول حاصل کر لیا اور اسے Ceilao کا نام دیا۔ مقامی گروہوں نے پرتگالی تسلط کے خلاف مزاحمت شروع کی تو ان گروہوں کی مدد کی آڑ میں ولندیزیوں نے پرتگالیوں کو شکست دے کر 1658ء میں جزیرے پر قبضہ کر لیا۔ 1815ء میں برطانوی سامراج نے اس جزیرے کو اپنی نوآبادی بنالیا اور اسے سیلون کا نام دیا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی یہاں آزادی کی تحریک شروع ہوئی اور 1948ء میں برطانوی سامراج سے پہلے مرحلے میں محدود آزادی (dominion) اور 1972 میں مکمل آزادی حاصل ہوئی۔
موجودہ صدر گوٹابیا راجا پاکسے کی قیادت میں نئی حکومت نے اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے کئی پاپولر فیصلے کیے، مثلاً ٹیکسوں کی شرح میں غیرمعقول کمی کی گئی، ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی شرح کو 15 فیصد سے کم کرکے 8 فیصد کردیا گیا، دیگر بالواسطہ ٹیکس اور اقتصادی سروس چارجز کو ختم کردیا گیا۔ ان فیصلوں سے وقتی طور پر سیاسی فوائد تو ضرور ہوئے لیکن ان کا ملکی خزانے پر بہت برا اثر پڑا۔ اپریل 2021 میں ملک کو سو فیصد آرگینک کاشتکاری کرنے والا ملک قرار دیتے ہوئے کھاد کی درآمدات پر مکمل پابندی عائد کردی گئی‘ جس کے باعث زرعی پیداوار میں شدید کمی واقع ہوئی جس سے درآمدات پرمنفی اثر پڑا۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چین اور سری لنکا کے مابین اقتصادی تعاون میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ چین نے 4 اعشاریہ 6 بلین ڈالر کا قرض سری لنکا کو دیا ہے۔ اس سے قبل اس پورے ریجن پر انڈیا کا غلبہ تھا لیکن اب خطے میں چین کا اثرورسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ سری لنکا میں ہمبنٹوٹا بندرگاہ (Hambantota) چین کی مدد سے تعمیر کی گئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کے لیے اس بندرگاہ کو 99 سال کی لیز پر چینی مرچنٹ گروپ کو دیا گیا جس نے سری لنکا کو 1 اعشاریہ 12 بلین ڈالر ادا کیے۔ اس کے باوجود مالی خسارے پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ مالی بدانتظامی اور حکومت میں اقربا پروری بھی اس بحران کے اہم محرکات ہیں۔
جنوبی ایشیا کے ممالک میں سیاست اور حکومتوں پر چند خاندانوں کا قبضہ اس خطے میں غربت اور حکومتی سطح پر مالی و انتظامی معاملات میں شفافیت نہ ہونے کا ایک سبب اور حقیقی جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہے۔ سری لنکا کی سیاست بھی خطے کے دوسرے ممالک سے مختلف نہیں ہے۔ اگر سری لنکا کے حکومتی عہدوں پر موجود طاقتور اشخاص کا جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہاں دو دہائیوں سے اقتدار راجا پاکسے خاندان کے پاس ہے۔ صدر، وزیر اعظم، سمیت بیشتر اعلیٰ عہدے اسی خاندان کے افراد کے پاس ہیں۔ صدر گوٹابیا راجا پاکسے کے ایک بھائی وزیر اعظم ہیں‘ دوسرے وزیر داخلہ، تیسرے بھائی وزیر خزانہ، وزارت زراعت ان کے چوتھے بھائی کے پاس ہے تو کھیلوں کی وزارت ان کے بھتیجے کے حصے میں آئی ہے۔ حکومت کو خاندانی کمپنی کی طرح چلانے کا خمیازہ عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک میں اشیائے خورونوش، ادویات اور ایندھن کی شدید قلت ہے۔ افراطِ زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ توانائی کی قلت کی وجہ سے ملک میں پاور ہاؤس بند پڑے ہیں۔ ملک کی سٹاک ایکسچینج کو ایک ہفتے کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔ 2008ء میں ایمریٹس آف دبئی کے ساتھ انتظامی معاہدے کی منسوخی سے قبل سری لنکن فضائی کمپنی منافع میں چل رہی تھی۔ معاہدے کی منسوخی کی وجہ یہ بنی کہ فضائی کمپنی نے کرایہ ادا کرنے والے مسافروں کو صرف اس لیے آف لوڈ کر دیا کہ ان کی سیٹیں راجا پاکسے خاندان کے افراد کو دی جا سکیں‘ جو لندن میں چھٹیاں گزار کر واپس آرہے تھے۔ ایئر لائنز کے امارات کے مقررکردہ چیف ایگزیکٹو نے جب اعتراض کیا تو اسے برطرف کرکے صدر نے اپنے بہنوئی کو کمپنی کا سربراہ بنادیا۔ نتیجہ‘ کمپنی بھی دیوالیہ ہوگئی۔ ہماری قومی ایئرلائن بھی اسی طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ اگر ہم نے اپنی قومی ایئرلائن کے انتظامی معاملات بہتر نہ کیے تو مستقبل میں سری لنکن ایئرلائن جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سری لنکا کا موجودہ معاشی بحران خطے کے تمام ممالک کیلئے چشم کشا ہے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر ہے۔ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جو غربت میں اضافے کا باعث بھی ہے ملکی انتظامی معاملات کو چلانے کے لئے ارباب اختیار عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ترقی یافتہ ممالک سے بڑے قرض لیتے ہیں اور پھر قرض کی ادائیگی کیلئے مزید قرض لیا جاتا ہے۔ ہم اگر اپنے ملک پاکستان کے قرضوں کی بات کریں تو اس وقت کل سرکاری قرضہ 42 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ انتظامی اور مالی بے ضابطگیوں پر بات تو بہت کی جاتی ہے لیکن عملی طور پر investigation کے نظام میں اتنے زیادہ loopholes ہیں کہ سالوں تک چلنے کے باوجود مقدمات کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو پاتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ گردشی قرضوں کو کنٹرول اور معاشی معاملات کو باقاعدہ بہتر کرنے کے لیے اس کرم خوردہ نظام کی overhauling کی جائے، کیونکہ ففتھ جنریشن وار فیئر کا ایک حربہ اقتصادی دبائو اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) بھی ہیں، ایسے حربوں سے معاشی طور پر ملکوں کو کمزور کرکے ان کے وسائل، خود مختاری، جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں پر قبضہ کیا جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں