ورلڈ مائیگریٹری برڈڈے (WMBD)اور بین الاقوامی مائیگر یٹر ی برڈڈے (IMBW) 2018ء سے سال میں دوبار مئی اور اکتوبر کے مہینوں میں منایا جاتاہے۔دراصل یہ آگاہی مہم ہے جو ہجرت کرنے والے پرندوں اور ان کے مسکن کے تحفظ کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس کا مقصد نقلِ مکانی کرنے والے پرندوں کو درپیش خطرات‘ ان کی ماحولیاتی اہمیت اور ان کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر توجہ مبذول کر وانا ہے۔
پرندوں کی نقلِ مکانی دنیا کے عظیم قدرتی عجائبات میں سے ایک ہے۔ پرندوں کی ہر پانچ میں سے ایک قسم ہجرت کرتی ہے‘ ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرنا بذات خود ایک بڑا کارنامہ ہے جس میں استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔Ornithology کے ماہرین کے مطابق پرندوں کی ہجرت ان کے لائف سائیکل کا ایک لازمی حصہ ہے۔ افزائش اور‘خوراک کی تلاش کے لئے سفر کرتے وقت یہ پرندے بے ترتیب طریقے سے اپنے راستے کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ مقررہ راستوں کی پیروی کرتے ہیں‘ جن میں مناسب مساکن شامل ہوتے ہیں جہاں وہ آرام کرنے کے لئے رک بھی سکتے ہیں۔ یہ پرندے زیادہ تر رات کے وقت سفر کرتے ہیں جب ہوا کے دھارے ہموار اور چاند اور ستارے ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔بالغ پرندے نیویگیٹ کرنے کے لیے مقناطیسی کمپاس کا استعمال کرتے ہیں‘یہاں تک کہ جب کوئی نشانیاں نہ ہوں یہ اندرونی جی پی ایس سسٹم انہیں گم ہونے سے روک سکتا ہے۔نیویگیٹ کرنے کی صلاحیت پرندوں کو وراثت میں ملتی ہے لیکن سفر کے دوران دوسروں سے سیکھتے بھی ہیں۔ سیکھنے کا ایک طریقہ دوسرے ہجرت کرنے والے پرندوں کی رات کی پروازکا پکار میں تبدیل ہونا بھی ہے۔پرندوں کی اپنی بولی سے الگ یہ صوتی اشارے خاص طور پر نہ تجربہ کار پرندوں کی رہنمائی کرتے ہیں‘ بعض اوقات دوسری نسلوں کی بھی۔
موسم سرما میں سائبیر یا اور چین سے ہزاروں اقسام کے لاکھوں پرندے پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور انڈس فلائی وے پر پرواز کرتے ہوئے ستمبر سے نومبر تک پاکستان کے آبی ذخائر‘ ویٹ لینڈز‘ قدرتی جھیلوں اور ساحلی پٹی پر خوراک اور افزائش کے لئے بسیرا کرتے ہیں۔ فروری سے مارچ کے درمیان ان کی واپسی کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔نقل مکانی کرنے والے یہ مہمان پرندے ہزاروں سال سے انڈس فلائی زون کو استعمال کرتے ہوئے اس خطے میں آتے ہیں۔یہ سرزمین اور یہاں کے باسی اپنی روایات کے مطابق ان کی مہمان نوازی کرتے تھے۔ پاکستان نقل مکانی کر کے آنے والے پرندے 4500کلومیٹر فاصلہ طے کرتے ہوئے کوہ قراقرم‘ کوہ ہندوکش اور کوہ سلیمان کے سلسلوں سے نیچے دریائے سندھ کے ڈیلٹا اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں تک پہنچتے ہیں۔ ان پرندوں میں کونج‘ ہنس‘ گیز‘ گل‘ فلیمنگو‘ کرین‘ بطخ‘ وُڈر‘ فیلکن‘ تلور‘ سٹنٹ‘ سنائپس‘ کارمونٹ‘ مالارڑ‘ اسکواس‘ شوولر اور کامن پوچارڑ وغیرہ اقسام کے پرندے شامل ہیں۔ ہمارے ملک میں 19 ایسے مقامات ہیں جہاں پرندے اترتے ہیں جیسے گلگت بلتستان‘ کوہاٹ‘بنوں‘شمالی وزیرستان‘‘منگلا اور راول ڈیم‘ مظفر گڑھ‘خوشاب میں کھارے پانی کی جھیلیں‘تھر‘ رن آف کچھ‘کینجھر‘منچھر‘ہالیجی‘حمل‘لانگ جھیلیں‘لسبیلہ‘ حب‘جیوانی اور اورماڑہ کا ساحلی علاقہ وغیرہ ایسے مقامات ہیں جہاں خوراک کی تلاش ا ور افزائش نسل کے لیے مسافر پرندے قیام کرتے ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں سے ان پرندوں کی آمد میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ وجوہات قدرتی اور انسانی سرگرمیاں ہیں۔ دریائے سندھ کے ڈیلٹا اور سمندر کے درمیان واقع قدرتی مینگرووزکی تباہی‘ بارشوں میں غیر معمولی کمی‘ سکڑتے ہوئے آبی ذخائر‘ ماحولیاتی آلودگی‘ پلاسٹک کی آلودگی‘زرعی ادویات کا حد سے زیادہ استعمال‘ قدرتی جھیلوں اور سمندری پٹی کی آلودگی‘ بے دریغ غیر قانونی شکار کے لئے جال کا ستعمال‘ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے رہائش اور کاشت کاری کے لئے ویٹ لینڈز کا استعمال وغیرہ ان پرندوں پر زندگی تنگ کر رہا ہے۔ جال کا استعمال پرندوں کی معدوم ہوتی اقسام کے لئے مزید خطرے کا باعث بن گیا ہے۔ شکار اب شوق یا کھیل سے زیادہ کاروبار بن چکا ہے۔ شکاری پانی کی سطح پر جال بچھا دیتے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں پرندے ان میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ امر پرندوں کی آبادی کے لیے خطرے کا سبب بن رہا ہے۔فطرت کے تحفظ اورماحولیاتی نظام کی بہتری کے لیے پرندوں سمیت جنگلی انواع کی حفاظت کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔تمام متعلقہ محکمہ جات کو غیر قانونی تجارت اور بے رحمانہ شکار کو روکنا اور قوانین پر مزید سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
2020 ء میں پاکستان میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے ٹھہرنے کا دورانیہ زیادہ رہا اور ان کی افزائش بھی اچھی رہی۔ماہرین لاک ڈاؤن کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لاک ڈاؤن اور عالمی سفری پابندیوں کے سبب غیرملکی شکاری بھی پاکستان نہیں آسکے اور مقامی لوگوں کی مداخلت بھی کم رہی۔ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو سالانہ ان ہجرت کرنے والے پرندوں کو پناہ دیتے ہیں۔اس حوالے سے عالمی رامسر کنونشن 1971ء اور بون کنونشن 1979ء پر دستخط کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔رامسر کنونشن آبی پرندوں اور بین الاقوامی اہمیت کے حامل پرندوں کی آبی رہائش گاہوں کے تحفظ کا عالمی معاہدہ ہے۔ اس کنونشن میں شامل بین الاقوامی اہمیت کی حامل سائٹس میں سے دس سائٹس پاکستان میں واقع ہیں۔ قدرت کے ان تحفوں کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔
گلگت بلتستان میں واقع قراقرم کی پہاڑی چوٹیوں میں گھری ہوئی بورتھ جھیل وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان گزرنے والے پرندوں کے لئے شکار پر پابندی کے نتیجے میں محفوظ حیاتیاتی مقام بن گئی ہے۔یہ جھیل صحت مندماحولیاتی اور حیاتیاتی تنوع کی قابلِ تقلید مثال ہے۔ اسی طرح صحرائے تھر کے دور دراز علاقے میں زیر زمین کوئلے کے ذخائر کی دریافت کے بعد بجلی کی پیداوار کے لئے کوئلے کی کان کنی کے پراسس کی وجہ سے یہاں واقع گورانو ڈیم کھارے پانی سے بھرا ہوا ہے۔ یہ ڈیم اب ان پرندوں کے لیے ایک نئی اورمحفوظ پناہ بن گیا ہے‘جہاں ابھی شکاری نہیں پہنچے۔ عرب شیوخ مقامی سیاست دانوں‘بااثر افراد‘اور سرکاری اہلکاروں کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کرتے ہیں۔ یہ میزبان اپنے مہمانوں کے لیے سفاری کا انتظام کرتے ہیں۔
ہم نے مانا کہ ان غیر ملکی شکاریوں کی آمد اور شکار کی سرگرمیو ں سے مقامی افراد کے لیے روزگار کے مواقع پید ا ہوتے ہیں اورمقامی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے میں مد د ملتی ہے‘ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ وہ مہمان جو دوسرے مہمانوں کی آمد اور روزگار کے مواقع کا محرک ہیں ان کی اہمیت زیادہ ہے اور ہمیں ان بے زبان مہمانوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ جس تیزی کے ساتھ ان کی آمد کم ہو رہی ہے تو کیا ہجرت کرنے والے پرندوں کی غیر موجودگی میں دوسرامہمان انفراسٹرکچر کی بہتری اور ملازمتوں کے مواقع دینے کے لیے اسی طرح آتا رہے گا ؟ جواب نفی میں ہی ہو گا کیونکہ منطق یہی بتاتی ہے کہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو ذبح کر کے سارے انڈے ایک ساتھ حاصل کرنے کی خواہش سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ہمارے ملک میں موسمیاتی تبدیلیوں کہ اثرات دس سال پہلے کے مقابلے میں آج کہیں شدید اور واضح ہیں‘ سردی اور گر می کے موسموں کی شدت تک بدل چکی ہے‘ اوپر سے بے قابو شکار نے مہمان پرندوں کو حالیہ برسوں میں جنوبی ایشیا میں دیگر محفوظ مقامات کی تلاش پر مجبور کر دیا ہے۔نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی تعداد میں 20سے 30فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ پاکستان میں واقع پرندوں کے نیچرل مسکن کو زیادہ محفوظ اور ماحول دوست بنا نے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سیاحت کو زیادہ فروغ مل سکے‘ جس سے ملک میں زرمبادلہ اور پائیدار ملازمتوں کے مزیدمواقع پیدا ہوں گے۔