پاکستان دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ پانی کی کمی کا شکار ملک ہے اور ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2025ء تک پاکستان پانی کی شدید قلت کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 9 فیصد ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ شرح 40 فیصد ہے۔ اس وقت ملک کے جنوبی علاقے پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ ایک طرف فصلیں سوکھ رہی ہیں اور دریائوں میں پانی کی اتنی کمی ہے کہ وہ اکثر مقامات پر صحرا کا منظر پیش کر رہے ہیں تو دوسری طرف درجہ حرارت میں اضافے کے سبب گلیشیرز‘ جنہیں پاکستان کا واٹر ٹینک مانا جاتا ہے‘ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یہ مستقل عمل سیلاب کی صورت تباہی پھیلانے اور مستقبل قریب میں پانی کی شدید قلت کا سبب بنے گا۔ اس کی حالیہ مثال رواں ماہ ہنزہ میں ششپر گلیشیر کے تیزی سے پگھلنے کا واقعہ ہے جس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے مقامی آبادی اور سیاحوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے ساتھ حسن آباد کی تمام رابطہ سڑکیں اور پل تباہ کردئیے۔ مارچ سے ملک مسلسل گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں میں پاکستان کے سالانہ اوسط درجہ حرارت میں تقریباً 0.5 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے جو پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
پاکستان میں دنیا کے نایاب ترین جانور اور پودے موجود ہیں‘ لیکن ان انواع کے زیادہ استعمال اور ان کی قدرتی رہائش گاہوں کے نقصان کی وجہ سے یہ انواع معدومیت کے خطرے سے نبرد آزما ہیں۔ ملک کے قدرتی وسائل پر بڑھتی ہوئی آبادی کا شدید دباؤ ہے۔ جنگلات کی کٹائی، مٹی کا کٹاؤ، کھاراپن، آبی ذخائر میں کمی جیسے عوامل ملک کی باقی ماندہ حیاتیاتی تنوع کیلئے بھی بڑے خطرات کا باعث ہیں۔ جنگلات کی کمی متعلقہ حیوانات اور نباتات کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر قدرتی اور زرعی ماحولیات پر سنگین اثرات مرتب کررہی ہے۔ ہمارا ملک حیاتیاتی اور کلچرل تنوع سے مالامال ہے۔ خاص طور پر اس کے Arid & Semi Arid zone جو کل زمینی رقبے کا تقریباً 80 فیصد احاطہ کرتے ہیں۔ عالمی رپورٹس کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن کا Flora and fauna موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سنگین خطرات کا شکار ہیں اور جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ زرعی پیداوار میں کمی، پانی کا بحران، ساحلی کٹاؤ، سمندری پانی کی incursion میں اضافہ جیسے عوامل ہمارے ملک کے معاشی مسائل میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ غلط معاشی پالیسیوں نے معاشرے میں عدم مساوات کو وسیع کیا ہے‘ جس کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگ زندہ رہنے کے لیے حیاتیاتی تنوع کا استحصال کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ سب مسائل نہ تو ایک دن میں پیدا ہوئے ہیں اور نہ ہی ایک دن میں حل ہو سکتے ہیں۔
انسانی خوراک کا 80 فیصد حصہ پودے فراہم کر تے ہیں۔ مچھلی تقریباً 3 ارب لوگوں کو20 فیصد حیوانی پروٹین فراہم کر تی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں دیہی علاقوں میں رہنے والے تقریباً 75 فیصد افراد صحت کی بنیادی دیکھ بھال کے لیے روایتی پودوں پر مبنی ادویات استعمال کرتے ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے zoo noses میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زونوسس ان بیماریوں یا انفیکشنز کو کہا جاتا ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ ایبولا وائرس، کانگو وائرس، برڈ فلو، سوائن فلو اور کورونا وائرس جیسے وبائی امراض اس کی چند حالیہ مثالیں ہیں۔ حیاتیاتی تنوع میں کمی سے خوراک کی پیداوار میں مزید کمی واقع ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے وبائی امراض اور ٹڈی دل وغیرہ کے اچانک حملوں سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا۔ 2020ء میں ٹڈی دل کے حملے نے نہ صرف ہماری فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچایا تھا بلکہ ٹڈی دل کے اس حملے نے ہمارے اداروں کی اس طرح کی آفات سے نمٹنے کی حکمت عملی اور ٹیکنالوجی کے فقدان کی قلعی بھی کھول دی تھی۔
1990ء کی دہائی سے فضا میں پانی کے بخارات میں کمی کے نتیجے میں 59 فیصد زرخیز علاقوں کی شرح نمو میں کمی واقع ہوئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں خشک سالی، طوفان، گرمی کی لہریں، سمندر کی سطح میں اضافہ، گلیشیرز کے پگھلنے اور سمندری حیات کے مسکن کو تباہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ کراچی شہر جس کا موسم سارا سال معتدل رہتا تھا اب کچھ برسوں سے heat waves کا سامنا کر رہا ہے۔ محکمہ موسمیات نے رواں برس اسلام آباد میں بھی ہیٹ ویو کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے انسانی معاشرے پر مضر اثرات مرتب ہونا فطری بات ہے۔ ان تبدیلیوں سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ زمین پر موجود دوسری حیات کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان موسمی خطرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے طرز زندگی کو بدلنے، پانی کے محتاط استعمال، ملک کی ضروریات کے مطابق پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو باقاعدہ بڑھانے کے ساتھ، صاف پانی کو آلودگی سے محفوظ رکھنے اور کھیتی باڑی میں پانی کے استعمال کے جدید طریقوں کے نفاذ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے حیاتیاتی ورثے کے تحفظ کے لیے لوگوں میں آگاہی مہم اور مجاز اداروں کی طرف سے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی نہ بنایا گیا تو ملک کے ماحولیاتی نظام کو مزید نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
قومی سطح پر طویل مدتی منصوبہ بندی کے سلسلے میں تعلیمی نصاب میں موسمیاتی تبدیلیوں، ماحولیاتی آلودگی اور حیاتیاتی تنوع کی اہمیت کے متعلق مزید مضامین شامل کرکے اپنی نئی نسل میں اس حوالے سے حساسیت پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عوام الناس میں آگاہی مہم اور مستقل بنیادوں پر انفرادی سے اجتماعی سطح تک اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس طرح ہم اپنے ماحولیاتی، حیاتیاتی ورثے کو محفوظ کر سکیں گے۔ ہر سال 21 مئی کو ثقافتی تنوع و مکالمے کا عالمی دن اور 22 مئی کو حیاتیاتی تنوع کا عالمی دن منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ حیاتیاتی تنوع کی اہمیت، مسائل کی تفہیم و آگہی میں اضافہ کیا جا سکے (کیونکہ یہ دونوں آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں جن خطوں میں حیاتیاتی تنوع زیادہ ہے وہاں ثقافتی تنوع کا تناسب بھی زیادہ ہوتا ہے اور پاکستان ان خوش قسمت خطوں میں سے ایک ہے)۔ 2022ء میں حیاتیاتی تنوع کا عالمی دن ''تمام زندگیوں کے لیے مشترکہ مستقبل کی تعمیر‘‘ کے موضوع کے تحت منایا جارہا ہے۔ یہ عالمی برادری کو قدرتی دنیا سے تعلقات کا ازسر نوجائزہ لینے کی طرف راغب کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ملک کو درپیش ماحولیاتی، موسمیاتی اور حیاتیاتی خطرات کو کم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر جنگلات اور مینگرووز کے تحفظ، غیر بائیو ڈیگریڈایبل فضلے کی مینجمنٹ کا مؤثر انتظام کرنے، پانی کا محتاط استعمال یقینی بنانے، بائیو ڈائیورسٹی کنزرویشن ایکٹ 2001 کے مؤثر نفاذ، تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے آگہی مہم چلانے، معدوم نباتات اور حیوانات کا مکمل ریکارڈ رکھنے کے ساتھ ساتھ ملک میں وائلڈ لائف کنزرویشن ایکٹ کے تحت پروٹیکٹڈ ایریاز سسٹم کے مؤثر نفاذ سے ہی ہم حیاتیاتی ورثے کو کسی حد تک تحفظ فراہم کرتے ہوئے ماحولیاتی مسائل پر قابو پا سکیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ جب حیاتیاتی تنوع کو مسائل درپیش ہیں تو نوع انسانی کو مسائل درپیش ہیں۔ درحقیقت حیاتیاتی تنوع کے وسائل وہ ستون ہیں جن پر ہم تہذیبوں کی تعمیر کرتے ہیں۔ حیاتیاتی تنوع ہمارے کرہ ارض کا زندہ تانا بانا ہے جو حال و مستقبل میں انسانی فلاح و بہبود کی بنیاد رکھتا ہے اور اس کا تیزی سے زوال فطرت اور انسان‘ دونوں کے لیے یکساں خطرہ ہے۔