پاکستان کی کل آبادی کا 39 فیصد 18 سال سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم کے مطابق ہمارے ملک میں ایک کروڑ سے زائد بچے مزدوری کرتے ہیں‘ ان میں سے ساٹھ لاکھ بچے دس سال سے بھی کم عمر کے ہیں۔ پاکستان جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں 43 ویں نمبر پر ہے جہاں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی حالت انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ وہی بچے ہیں جو یہ فیصلہ کرنے کے لیے بہت اہم ہیں کہ کچھ سال بعد دنیا کیسی ہونے والی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 24 ملین بچے‘ جن کی عمر پانچ سے 16 سال کے درمیان ہے‘ سکول نہیں جاتے۔ تقریباً 86لاکھ لڑکیاں اور 1 کروڑ 70 لاکھ لڑکے پرائمری سکولوں میں داخلہ لیتے ہیں جبکہ یہ شرح ثانوی سطح پر پہنچتے پہنچتے انتہائی کم رہ جاتی ہے اور 36 لاکھ لڑکے اور 28 لاکھ لڑکیاں ثانوی سطح کے سکولوں تک پہنچ پاتے ہیں۔ چائلڈ لیبر کو روکنا بہت اہم ہے لیکن اگر بچہ خود کام کرنے پر آمادہ ہو یا والدین اپنے بچے کو سکول بھیجنے پر راضی نہ ہوں تو کچھ بھی کارآمد نہیں ہو سکتا۔ چائلڈ لیبر کی ایک بنیادی وجہ خاندان کی ضروریات ہوتی ہیں جو ایک طرف تو بچے کی فکری نشوونما کو سلب کر لیتی ہیں تو دوسری طرف اکثر بچوں کی جسمانی حالت تسلی بخش نہیں رہتی۔ بچپن کی شرح اموات میں اضافہ اور کم عمری کی شادیاں ایسے دو عوامل ہیں جن کے نتیجے میں شرحِ افزائش بلند ہوتی ہے۔
لاقانونیت‘ تشدد اور بچوں اور نوجوانوں کے بنیادی حقوق سے انکار سے کیا ہم اپنے لئے بہتر مستقبل کی امید کرسکتے ہیں؟ ہمارے ملک میں بچوں کو درپیش چیلنجز کی جڑیں غربت اور سماجی تحفظ کی کمی میں تو ضرور پیوست ہیں لیکن دیگر کثیر جہتی ‘ پیچیدہ بنیادی وجوہات اور ادارہ جاتی رکاوٹیں بھی ہیں جو براہ راست بچوں کو متاثر کرتی ہے۔ صحت اور تعلیم کی ناکافی سہولتیں بڑا مسئلہ ہیں۔ کمیونٹیز بچوں کی اجتماعی صحت کے لیے اپنی وابستگی اور بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دستیاب وسائل کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوتیں۔اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ایسے بچوں کے لیے ایک الگ تعلیمی نظام وضع کیا جائے جہاں انہیں بنیادی تعلیم کے متوازی پیشہ ورانہ تربیت دی جائے۔اس پیشہ ورانہ تربیت سے انہیں مستقبل میں روزی روٹی کمانے اور تعلیم میں بھی مدد ملے گی۔
والدین ‘دادا‘ دادی اور اس طرح کے دیگر رشتے عام طور پر اپنے خاندانوں میں بچوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہوتے ہیں کہ وہ صحت مند ہوں اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری مواقع میسر آئیں۔بچوں کو ایک اچھا انسان اور شہری بنانے اور ان کی علمی مہارتوں کو فروغ دینے کے لیے گھر ایک بنیادی درسگاہ ہوتا ہے جہاں غیر محسوس طریقے سے بچوں کی ذہنی پرورش ہو رہی ہوتی ہے۔ موبائل فون سے پہلے جنم لینے والی جنریشن میں سے شاید ہی ایسا کوئی ہو جس نے دادا‘ دادی نانا ‘ نانی یا والدین سے بچپن میں کہانیاں نہ سنی ہوں۔شاید ہی کوئی ایسا بچہ ہو جو لوری سنے بغیر بڑا ہوگیا ہو۔ ان کہانیوں‘ لوریوں پہیلیوں‘ لطیفوں اور کھیل کود سے وابستہ گیتوں میں موجود پیغام کے ذریعے اخلاقی اقدار‘ حب الوطنی ‘ جدوجہد‘ رشتوں کا بھرم ‘ثقافت و تہذیب کی قدریں غیر محسوس طریقے سے بچے کی فکری نشوونما کا حصہ بن جاتی تھیں۔ اب اس گہما گہمی اورتیز ترین ٹیکنالوجی کی مصروف ترین دنیا میں بچوں کو یہ ساری قدریں اور احساسات سکھانے کے لیے نہ صرف ان کو ادب کے قریب لانا ہوگا بلکہ ضروریاتِ وقت کے مطابق جدید ٹولز کی معرفت‘ جسے بچے پسند کرتے ہیں‘ اور ادب کی ذریعے ان کے اندر اخلاقی اقدار‘ امن دوستی‘ برداشت ‘ حب الوطنی ‘ مسلسل محنت وغیرہ کے احساسات کو اجاگر کرنے کی شعوری کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ ادبِ اطفال اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ بچوں کو ان کے ثقافتی ورثے کے ساتھ دوسروں کے ثقافتی ورثے کے بارے میں جاننے کا مواقع فراہم کرتا ہے۔ بچوں کے لیے ان اقدار کو سیکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہماری اپنی ثقافت اور دوسروں کی ثقافتوں کی جانب مثبت رویوں کو فروغ دینا سماجی اور ذاتی ترقی دونوں کے لیے ضروری ہے۔ یہ ان کی جذباتی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔ ادب سماجی اقدار کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتا ہے۔ ادب اطفال بچوں کی cognitive developmentکو مضبوط کرتا ہے۔ ان کو اپنی رائے بنانا‘ پیش کرنا اور دوسروں کی رائے کا احترام کر نا سکھاتا ہے۔لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی ترغیب دیتاہے اور سماجی رابطے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
ادب اطفال کے حوالے سے برصغیرکے قدیم ادب کو دیکھیں تو ہماری نظر امیر خسرو کی عربی ‘فارسی اور ہندوی زبان کے مترادف الفا ظ کی سہ لسانی فرہنگ'' خالق باری‘‘ پر پڑتی ہے۔ اس کی تتبع میں بہت سے لوگوں نے اس''باری‘‘ سلسلے کو آگے بڑھایا۔ اردو کے پہلے صاحب ِدیوان شاعر قلی قطب شاہ کے دیوان میں شامل بچوں کے لیے نظمیں ‘ عوامی شاعر نظیراکبر آبادی کی بچوں کے لیے شاہکار نظمیں ہوں یا پھر میرتقی میر اور مرزا سودا جیسے بڑے شعرا کی بچوں کے لیے نظمیں‘ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارے ادبا ادبِ اطفال کی اہمیت سے غافل نہیں تھے۔ بیسویں صدی میں جس طرح ادب کے دیگر اصناف پر بہت زیادہ کام ہوا‘ بالکل اسی طرح بچوں کے لیے بھی بڑے ادبا نے ادب تخلیق کیا۔ان ادبامیں الطاف حسین حالی ‘محمد حسین آزاد اسماعیل میرٹھی‘محمدی بیگم‘ پریم چند ‘ چراخ حسن حسرت‘ صوفی تبسم‘ امتیاز علی تاج‘ عشر ترحمانی‘ قتیل شفائی‘ ابن انشا‘ مرزا ادیب‘ حجاب امتیاز‘ قرۃالعین حیدر اور احمد ندیم قاسمی کے ساتھ توصیف تبسم‘ محمود شام‘ امجد اسلام امجد‘ ثاقبہ رحیم الدین‘ افتخار کھوکھر‘ رضوانہ سید علی‘ عاطف صدیقی‘ نظیر انبالوی اور محبوب الٰہی مخمور وغیرہ شامل ہیں۔ شاعر ِمشرق علامہ اقبال کا ایک مضمون بعنوان ''بچوں کی تعلیم و تربیت ‘‘ رسالہ مخزن میں جنوری1902ء میں شائع ہوا تھا۔ بانگ ِدرا کے حصہ اول میں شامل بچوں کے لیے لکھی گئی نظمیں اپنے عنوانات اور موضوعات‘ ہر دو حوالوں سے ادبِ اطفال میں اہم ہیں۔
مہذب قومیں اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کو خاص اہمیت دیتی ہیں ان معاشروں میں بچوں کو وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو کسی بھی عاقل و بالغ شہری کو حاصل ہوتے ہیں کیونکہ یہ بچے ہی ہیں جن کے ہاتھ میں قوم کا مستقبل ہوتا ہے۔ آج کے بچوں کو کل ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے ‘اسی لئے تمام تمدنوں اور مذاہب میں بچوں کی تربیت ان کی تعلیم اور کردار سازی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔بچے قدرت کا ایک اہم ترین تحفہ اور امانت ہیں ‘ان کی تعلیم و تربیت ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان معصوم جانوں کو ہماری ضرورت ہے۔ انہیں ہماری مدد‘ہمارے اعتماد اور ہمارے یقین کی ضرورت ہے کہ آنے والاکل مختلف و حیرت انگیز ہو سکتا ہے۔ آج کے بچے کل کے مصروف شہری اور پیداواری کارکن ہوں گے۔اس لیے اگر کوئی بھی انسان کسی بچے کی زندگی میں کچھ اچھا کر سکتا ہے تو اس کے اس شفیق عمل کے نتیجے میں آنے والے دنیا میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے ‘کم از کم ایک معمولی سی تبدیلی! اور اگر ہم میں سے اکثریت انہی خطوط پر سوچے اور عمل کرے تو قوم کے بچوں کی زندگیوں میں کافی حد تک بدلاؤآسکتا ہے اورجب یہ بچے بڑے ہوں گے تو انسانیت پر یقین کر سکیں گے اورپاکستان کی خوشحالی کے ضامن ہوں گے۔