شدید گرمی کے موسم میں بھی 10سے 12گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ ہمارے ملک میں گیس‘ تیل‘ بجلی‘ آٹے اور کھاد کے بحرانوں نے عوام کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے‘ بالخصوص بجلی اور گیس کے بحران سے مجموعی صنعتی پیداوار متاثر ہو رہی‘ جس کے باعث معاشی ترقی سست روی کا شکار اور ملک کی معیشت مسلسل دباؤ میں جا رہی ہے۔ کسی بھی ملک کی معاشی خوشحالی کی بنیاد اس کا توانائی کا شعبہ ہوتا ہے‘ جسے مضبوط کیے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ ہمارے ملک میں ایک تو ہائیڈرو پاور کی نسبت تھرمل پاور سے زیادہ بجلی حاصل کی جاتی ہے جو مہنگی پڑتی ہے‘ دوسرا بجلی کی تقسیم کا نظام بھی بوسیدہ ہوچکا ہے جس کے باعث صارف تک پہنچنے سے پہلے ہی توانائی کا کافی ذخیرہ ضائع ہوجاتا ہے۔ تقسیم و ترسیل کا موجودہ نظام بمشکل اٹھارہ سے انیس ہزار میگا واٹ کا لوڈ برداشت کر سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سسٹم میں موجود 20فیصد بجلی چوری ہو جاتی ہے اور 10فیصد بجلی کے بل ادا ہی نہیں کیے جاتے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بروقت فیصلہ سازی اور پلاننگ کی ضرورت ہے۔ ترسیل و تقسیم کے موجودہ نظام کو بہتر بنانے کیلئے کم از کم آٹھ ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے‘ یہ رقم بہت زیادہ ہے لیکن اس کے بغیر بجلی بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ گیس اور ایل این جی کی ترسیل کا حال بھی بجلی سے مختلف نہیں۔ سوئی سدرن اور سوئی ناردرن گیس کمپنیز‘ جودونوں سرکاری ہیں اور صرف پائپ لائنوں کی تعمیر کے کام کے لیے قائم کی گئی تھیں‘ نے اس پورے شعبے میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ یہ کمپنیاںمبینہ سستی ایل این جی درآمد کرکے مہنگے داموں بیچتی ہیں‘ اگر نجی شعبے کو بھی اجازت ہو تو مسابقت بڑھے گی اور کم قیمت پر درآمدی گیس فراہم ہوسکتی ہے۔ پٹرول کی بات کریں تو ملک میں اس وقت خام تیل صاف کرنے کی صرف پانچ بڑی ریفا ئنریاں ہیں‘ ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیے عالمی مارکیٹ سے مہنگے داموں صاف تیل خریدنا پڑتا ہے جوملکی بجٹ پر بڑا بوجھ ہے‘ ملک میں نئی آئل ریفائنریاں لگا کر اور موجودہ ریفائنریوں کی پیداواری صلاحیت بڑھا کر پٹرولیم بل کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب اقدامات طویل المدتی منصوبہ بندی اور سنجیدگی کے متقاضی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنا کر بھی پٹرول کی کھپت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف سڑکوں پر موجود بے ہنگم ٹریفک بلکہ گرین ہاؤس گیسز میں بھی کمی واقع ہوگی۔
90ء کی دہائی میں جب تیل سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے لگائے گئے تو اس وقت کیے گئے معاہدے میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ بجلی نہ خرید نے کی صورت میں بھی حکومت ان کمپنیوں کو ادائیگی کرنے کی پابند ہوگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ جب ملک میں گیس اور کوئلے سے بجلی بنانے والے کارخانے لگے تو بجلی کی رسد‘ طلب سے زیادہ ہو گئی جو حکومت کیلئے ایک نیا مسئلہ تھا۔ حکومت سستی بجلی کی دستیابی کے باوجود تیل سے بننے والی مہنگی بجلی خریدنے کی پابند ہے‘ اگریہ کارخانے بجلی نہیں بھی بنا رہے تو پھر بھی ان کی پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگی کرنا بھی حکومت پر لازم ہے۔ یہ وہ گھن چکر ہے جس کی وجہ سے ملک کے گردشی قرضوںکا حجم بڑھتا جا رہا ہے۔ پچھلی حکومت نے ان کمپنیوں کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے اور معاہدے کے لیے مذاکرات جاری تھے‘ اگر ان کمپنیوں (IPPs) اور حکومت کے درمیان کوئی معاہدہ ہو جائے تو ملک کے گردشی قرضوں کے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
کیا صرف حکومت ہی ملک کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے کی کوئی صورت نکال سکتی ہے‘یا پھر پاکستانی شہری ہونے کے ناتے ہماری بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے؟ مہنگائی کے طوفان نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ مہنگائی کی وجوہات کیا ہیں‘ یہ ایک الگ بحث طلب موضوع ہے‘ ہم صرف اپنی روز مرہ کی زندگی میں تھوڑی سی مثبت تبدیلیاں کرکے نہ صرف ملک کا زرِمبادلہ بچا سکتے ہیں بلکہ انفرادی و اجتماعی سطح پر کی جانے والی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہماری معاشرے میں صحت افزا ماحول کی تشکیل کریں گی۔ ہمارے مذہب اورہمارے نبی کریم ﷺکی احادیث و سنت میں صبح سویرے اٹھنے اور نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد کاروبار کے آغاز کو باعثِ برکت قرار دیا گیا ہے۔ آج کی جدید سائنس بھی یہ کہتی ہے کہ کام کرنے کا بہترین وقت صبح کا ہوتا ہے اور انسانی ذہنی صلاحیت نیند سے بیدار ہونے کے بعد ابتدائی وقت میں اپنے عروج پر ہوتی ہے‘ تمام تخلیقی کام اسی وقت سرانجام دیے جا سکتے ہیں۔
میں جب ہائیڈل برگ جرمنی میں تھی‘ وہاں ہفتے کے اختتام کے علاوہ باقی دن ٹرامز علی الصباح ہی لوگوں سے کھچاکھچ بھری ہوتی تھیں‘ لوگ دفاتر اور بچے سکول جا رہے ہوتے تھے‘ مارکیٹس بھی جلدی کھل جا تی تھیں‘ سر شام واپسی کا سفر شروع ہوجاتا تھا‘ سات بجے تک سورج کی روشنی کے باوجود تما م بازار بند ہو جاتے تھے‘ سڑکیں خاموش ہونا شروع ہو جاتی تھیں‘ پورے یورپ اور امریکہ میں روزمرہ کا یہی معمول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رات آرام کے لیے اور دن کام کے لیے خلق کیا ہے۔ سورج کی روشنی نعمتِ خداوندی ہے‘ ہم اسے سو کر ضائع کردیتے ہیں اور اندھیرے میں مصنوعی روشنیاں جلاکر کاروبار کرتے ہیں۔ اگر ملک میں کاروباری اوقات کار تبدیل کر دیے جائیں‘ دکانیں اور بازار جلدی کھولے اور بند کیے جائیں تو لگ بھگ 3500میگاواٹ سے زیادہ بجلی بچائی جا سکتی ہے۔ بطور قوم ہمیں ہر اُس کام اور عادت کو اپنانا چاہیے جس سے ملکی ترقی کی رفتار بڑھے۔ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ہر فضول و بری عادت کو چھوڑنا ہوگا۔ جب بھی مارکیٹیں جلدی کھولنے کی بات کریں تو تاجر سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ ٹیکس کے نظام کو بہتر کیا جائے‘ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے یا Documentation کی بات کی جائے تو بھی احتجاجی ہڑتالیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ترقی اور بہتری کے لیے ہر سطح پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں بچت کی عادت اپناتے ہوئے میانہ روی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ تبھی بہتری کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔
کراچی کی ایک مارکیٹ کے تاجروں نے وطن دوستی کی ایک اچھی روایت قائم کی ہے۔ وہ پچھلے سال سے صبح ساڑھے آٹھ بجے دکانیں کھولتے ہیں اور شام ساڑھے چھ بجے بند کردیتے ہیں‘ ان کے اس عمل کی تقلید پورے ملک میں کی جانی چاہیے۔ اس سے بجلی کی بچت ہوگی‘ ماحولیات پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور زندگی میں کچھ ڈسپلن بھی آئے گا۔ ایک طرف جہاں حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے پر کام کررہی ہے‘دوسری طرف ہم سب مل کر توانائی کی بچت کے ذریعے صورت حال کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کمروں کے ایئر کنڈیشنر کو 26ڈگری پر چلائیں‘ کمروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کھڑکیوں اور دروازوں کو اچھی طرح بند رکھیں۔ اس طرح کمرے زیادہ دیر تک ٹھنڈے رہیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک کمرے کو روشن کرنے کے لیے ایک لائٹ ہی کافی ہوا کرتی تھی‘ اب ایک کمرے میں ایک لائٹ پر گزارا کیوں نہیں ہو سکتا؟ نئے گھر بناتے ہوئے اپنے موسم کو مدِنظر رکھیں‘ گھر کی تعمیر ایسے انداز میں کی جائے کہ جس سے قدرتی ہوا اور روشنی کا استعمال زیادہ سے زیادہ اور بجلی کا خرچ کم سے کم ہو۔ بظاہر چھوٹی چھوٹی احتیاطیں ہمیںایک بڑے بحران سے نکال سکتی ہیں اور یہ سب صرف حکومت کے حکم سے ممکن نہیں بلکہ ملکی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کو بذاتِ خود رضاکارانہ طور پرپہل کرنا ہوگی۔