بھارتیہ جنتا پارٹی نازی ازم کی پروردہ

انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نوپور شرما کی جانب سے 26مئی 2022ء کو ایک ٹی وی پروگرام میں توہین آمیز ہرزہ سرائی اور بی جے پی دہلی کے ترجمان نوین کمار جندا ل کے سوشل میڈیا پرگستاخانہ بیان پر بھارتی مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ یہ ریمارکس جس ٹی وی چینل پر دیے گئے اس کو ملک سے باہر اور خاص طور پر خلیجی ممالک میں زیادہ دیکھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ قطر‘ کویت اور ایران نے حکومتی سطح پر فوراً احتجاج کیا‘ جس کے بعد تقریباً 15سے زیادہ مسلم ممالک‘ اسلامی تعاون تنظیم‘ مغربی ایشیائی ممالک کی تنظیم نے بھی انڈین حکومت سے احتجاج کرتے ہوئے عوامی سطح پر معافی کا مطالبہ کیا۔ سوشل میڈیا پر انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی گئی جس نے انڈین حکومت کو زیادہ پریشان کیا کیونکہ اکیسویں صدی میں ان جارحانہ اقدامات کوروکنے کا مؤثر ترین ذریعہ مصنوعات کا بائیکاٹ ہی ہے۔
نریندر مودی جب گجرات کا وزیراعلیٰ تھا تو اُس وقت احمدآباد‘ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ ڈیرھ لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے۔ مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2014ء مودی اور اس کی بھارتیہ جنتا پارٹی مرکز میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس وقت سے بھارت میں اقلیتوں اور خاص طور پر 20 کروڑ مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی گئی ہے‘ ان کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہیں‘ اسلامو فوبیا ریاستی پالیسی کا معاملہ بن گیا ہے۔ اسلامو فوبیا کے شکار ہندو بنیاد پرست مقبوضہ کشمیر‘ آسام‘ گجرات اور اتر پردیش میں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیاں ہٹلرکے نظریات سے متاثر ہیں اور یہ اُسی طرح کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں جیسا کہ ہٹلر نے جرمنی میں یہودیوں کے خلاف اختیارکیا تھا۔
''ہندو توا‘‘ کی اصطلاح 1923ء میں ونایک ساورکرکی ایجاد کردہ ہے جس کا مطلب ہندویت یا ہندوپن لیا جا سکتا ہے۔ ساورکر کوبرطانوی اسسٹنٹ سیکرٹری کے قتل کی سازشی میں 1910ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ساورکر کا شمار ہندو مہا سبھا پارٹی کے سرکردہ لیڈروں میں ہوتا تھا۔ اس کی تحریریں 2014ء میں بی جے پی کے منشور کی بنیاد تھیں۔ پچھلے آٹھ سال میں بی جے پی کے مسلم مخالف بیانات اور پالیسیوں میں تیزی آئی ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کوحاشیے پر لا کھڑا کیا ہے‘ ان کو دوسرے درجے کے شہریوں کے حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو سیاسی طور پر بڑی حد تک پسماندہ کر دیا گیا ہے۔ امتیازی پالیسیاں اور قوانین جیسا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور نیشنل رجسٹریشن آف سیٹیزنز وغیرہ کا سہارا لے کر مسلمانوں کی شہریت ختم کی جا رہی ہے۔ ریاست آسام میں 2019ء میں مسلمانوں سمیت تقریباً 20لاکھ افراد کو شہریت کی فہرست سے ہٹادیا گیا‘ اگست 2019ء میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 354 کو منسوخ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی اور مقبوضہ وادی کو عملی طور پر جیل میں بدل دیا گیا ہے۔ کشمیر میں ظلم کا بازار گرم ہے۔ کورونا کی عالمی وبا کے دوران مسلمان مریضوں کو طبی سہولتیں نہیں فراہم کی گئیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے انڈین حکومت پر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگاتے ہوئے اسلامو فوبیا کے خلاف خبر دار کیا۔ Genocide Watchکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کی ابتدائی علامات اور عمل موجود ہیں جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارتی حکام مذہبی اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کو نظر انداز کرتے یا اس کی حمایت کرتے ہیں۔ بھارت اقلیتوں کے ساتھ اس سلوک پر دیگر ممالک و عالمی تنظیموں کی تنقید کو ہر بار یہ کہتے ہوئے رد کرتا رہا ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
1990-91ء میں جب بھاجپا اپوزیشن میں تھی تو اس نے ایودھیا میں بابری مسجد‘ جو 1529ء میں تعمیر کی گئی تھی‘ کو بھگوان رام کی جنم بھومی قرار دیتے ہوئے اس کا ایک حصہ منہدم کردیا تھا جس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات میں ہزاروں مسلمان کو قتل کیا گیا تھا۔ طویل قانونی جنگ کے بعد مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ بھارتی قانون پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991ء کے تحت 15اگست 1947ء کو بھارت میں جو عبادت گاہیں تھیں‘ ان کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ اس کے باوجود وارا نسی کی گیان واپی مسجد کو شیومندر بنانے کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے دہشت گرد ہر طرح کا حربہ استعمال کر رہے ہیں‘ ان میں سے ایک مذکورہ ٹی وی شو میں دیے جانے والے ریمارکس بھی تھے۔ ان ریمارکس کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوئے اور خود کو دنیا کی بڑی جمہوریت کہنے والی بھارتی حکومت نے پوری ریاستی طاقت کے ساتھ احتجاج کو کچل دیا اور احتجاج کرنے والوں کے مکانات تک کو مسمار کر دیا گیا۔ اقلیتوں بالخصوص جس طرح کا سلوک مودی حکومت مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے‘ اگر مسلم ممالک اس پر آواز اٹھائیں تو انتہاپسند بھارتی رہنما یہ کہتے ہیں کہ مسلمان باہر سے آئے ہوئے ہیں‘ ان کا اس ملک اور دھرتی سے کوئی تعلق نہیں‘سو ان پر مزید سختیاں کی جاتی ہیں۔ اس کی مثال حالیہ تنازع بھی ہے جب مسلم ممالک خاص طور پر خلیجی ممالک نے نئی دہلی سے احتجاج کیا تو دکھاوے کیلئے یہ کہہ دیا گیا کہ دونوں رہنماؤں کی پارٹی رکنیت معطل کردی گئی ہے اور یہ کہ یہ ان کی ذاتی رائے تھی‘ ان پر مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے‘ لیکن مقامی سطح پر ان مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پر ان ریمارکس کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔
بی جے پی کے لفظوں پر کیسے بھروسا کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہندو بنیاد پرست جماعت کی سیاست میں مسلم مخالف بیان بازی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2024ء کے جنرل الیکشن میں کامیابی کے حصول کیلئے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی شعوری طور پر عوام میں مذہبی جذبات کو ہوا دے رہی ہے۔ موجودہ واقعات کے خلاف مسلم ممالک کے احتجاج کے باوجود مودی کی خاموشی اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ داخلی سیاست میں نریندر مودی کوئی ایسا بیان نہیں دینا چاہتے جو یوگی آدتیہ ناتھ کے مقابلے میں انہیں کمزور یا مسلمانوں کا ہمدرد ثابت کرے۔ اپنے اقتدار کیلئے عملی سماجی اقدامات سے لوگوں کے دل جیتنے کے بجائے مذہبی شدت پسندی کا سہارا لے کر لوگوں کو لڑوا کر‘ مروا کر وقتی کامیابی تو ضرور حاصل کی جا سکتی ہے لیکن دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ رویے زیادہ پائیدار نہیں ہوتے۔ اب کی بار جس انداز سے کئی مسلم ریاستوں نے بی جے پی کے ترجمانوں کی جانب سے ہرزہ سرائی پر سفارتی سطح پر احتجاج کیا اس عمل نے بی جے پی حکومت کی آنکھیں کھول دی ہیں کہ مسلمان ریاستوں میں آپسی اختلافات کے باوجود اسلام کی مقدس ہستیوں کے معاملے میں ان کی رائے متفق ہے۔
نوپور شرما اور نوین کمارجندال کے بیان کے خلاف سوشل میڈیا پر صرف انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کی کمپین نے بھارت کو پریشان کر دیا۔ دنیا کی کوئی بھی پروڈکٹ اسلام کی مقدس ہستیوں کے احترام سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ خاص طور مختلف مسلم ممالک کے عوام کا یہ منفرد احتجاج قابلِ تعریف ہے کہ انہوں نے انڈین پروڈکٹس کا بائیکاٹ کرنا شروع کر دیا۔ آج دنیا کو ہر بات معیشت اور اقتصادیات کے ذریعے سمجھ آتی ہے‘ حکومتوں اور ملکوں کی کچھ عالمی مجبوریاں ہو سکتی ہیں لیکن حکومتوں کی شدت پسند پالیسیوں اور ممالک کی عقل ٹھکانے لگانے کیلئے عوامی سطح پر ان ممالک کی مصنوعات کا استعمال ترک کردینا جلاؤ‘ گھیراؤکے ذریعے احتجاج ریکارڈ کروانے کے مقابلے میں بہت زیادہ مؤثر ثابت ہو رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں