عالمی سطح پر جولائی کے پہلے ہفتے میں کو آپریٹو ڈے منایا جاتا ہے۔ ایک صدی کا سفر مکمل کرنے والی تعاون کی عالمی انجمنوں کی ' کوآپریٹو موومنٹ‘ کو قومی اور بین الاقوامی معاملات میں ایک الگ اور اہم سٹیک ہولڈر کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ کوآپریٹوز نہ صرف بحرانوں میں زیادہ لچکدار ثابت ہوتی ہیں بلکہ اقتصادی شراکت کو فروغ دیتے ہوئے اچھی ملازمتیں پیدا کرتی ہیں۔ ان کے تحت سرمائے کو مقامی کمیونٹیز کے اندر رکھتے ہوئے شہری اپنی برادری اور ملک کی معاشی‘ سماجی‘ ثقافتی وسیاسی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
دنیا بھر میں 11 کروڑ سے زیادہ لوگ کوآپریٹو موومنٹ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ امریکا میں دو ملین ملازمتیں 30 ہزار کوآپریٹو نے فراہم کی ہیں۔ کینیڈا‘ پیراگوئے‘ یوراگوئے‘ برطانیہ‘ فرانس‘ ڈنمارک‘ ناروے‘ سپین‘ نیوزی لینڈ‘ چین‘ جاپان‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ انڈیا اور بنگلہ دیش وغیرہ میں کامیابی کے ساتھ آبادی کے ایک بڑے حصے کو کو آپریٹو (انجمن باہمی)روزگار فراہم کررہی ہیں۔ بنگلہ دیش کے گرامین بینک (1986ء) نے وہاں خواتین محنت کشوں کو کامیاب اور معاشی طور پر خود مختار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ماڈل کی کامیابی کو سراہتے ہوئے 2006ء میں گرامین بینک کے بانی محمد یونس کو امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔ عالمی سطح پر معیشت کے بہت سے مختلف شعبوں میں کوآپریٹو نے اپنی افادیت کو ثابت کیا ہے۔
اپنی مدد آپ اور خود انحصاری کی اس تحریک کا آغاز 1844ء میںبرطانیہ کے ایک چھوٹے سے قصبے روچڈیل(Rochdale) میں کاٹن فیکٹریوں میں کام کرنے والے 28 کاریگروں نے اس وقت کیا جب صنعتی انقلاب کی وجہ سے بے روزگاری بڑھ رہی تھی اور کاٹن فیکٹریوں میں کپڑا بُننے والے کاریگر سارا دن اَن تھک محنت سے کام کرنے کے باوجود اس قابل نہیں ہو پاتے تھے کہ شام کو اپنے گھروں کو جاتے وقت کھانے کا سامان اتنی مقدار میں لے جا سکیں کہ گھر کے سب افراد کو پیٹ بھر کھانا میسر آسکے۔ ان ہم خیال 28 کاریگروں نے مل کر اپنے قلیل وسائل کو جمع کرکے بنیادی اشیا تک رسائی ممکن بنائی۔ ابتدائی طور پر فروخت کے لیے صرف چار اشیا تھیں یعنی آٹا‘ دلیا‘ چینی اور مکھن۔ دکان کا ہر گاہک ممبر بن گیا اور اس طرح کاروبار میں اس کا حقیقی حصہ تھا۔ ابتدا میں تو یہ کوآپریشن ہفتے میں صرف دو روز شام کے وقت کھلتا تھا‘ لیکن تین ماہ کے اندر کاروبار اتنا بڑھ گیا کہ ہفتے میں پانچ دن کھلا رہنے لگا۔ یہ وہ بنیادی ماڈل تھا جس کو سامنے رکھ کر 1895ء میں بین الاقوامی کوآپریٹو اتحاد بنایا گیا۔ یہ دنیا میں غیر سرکاری تنظیموں میں سب سے قدیم تنظیم ہے اور آج دنیا بھر میں ملازمت کرنے والی آبادی کے 10 فیصد کو یہ کوآپریٹو ملازمتیں فراہم کرتی ہیں۔ کوآپریٹو کی کامیابی اسی صورت ممکن ہے جب اس کے بنیادی اصولوں یعنی ایمانداری‘ احترام‘ کھلے پن اور کاروبار میں اپنی بات کہنے کے جمہوری حق پر عمل کیا جائے۔ انہی اصولوں کے تحت یہ کام شروع ہوا تھا اور یہی وہ آفاقی اصول ہیں جن کی بنیاد پر کوئی بھی کاروبار کامیابی سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں 1904ء کے کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹیز ایکٹ کے ذریعے کوآپریٹو کو متعارف کرایا گیا تھا۔ 1912ء اور 1919ء میں اس ایکٹ میں ترامیم کے بعد کوآپریٹو کو صوبوں کو منتقل کردیا گیا تھا۔
تقسیم سے قبل سندھ میں 46 ہاؤسنگ کوآپریٹو کام کر رہی تھیں جن میں 22 کراچی میں‘ 23 حیدرآباد اور 1 سکھر میں کام کر رہی تھی۔ بلوچستان میں 1950ء میں کوآپریٹو کو متعارف کرایا گیا لیکن اس میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہ ہوسکی‘ ہاؤسنگ کوآپریٹو خیبرپختونخوا میں بھی کام کررہی ہیں۔ پنجاب میں 1970ء کی دہائی تک اربن اینڈ ہاؤسنگ ڈویلپمنٹ کے ذریعے ہاؤسنگ حکومت کی ذمہ دار ی تھی۔ اس کے بعد ہاؤسنگ کوآپریٹو کو رجسٹرکیا گیا؛ تاہم 1990ء کی دہائی کے وسط میں ہاؤسنگ کوآپریٹو کی بدعنوانی کے بڑے سکینڈلز میں ہزاروں لوگوں کا سرمایہ ڈوب گیا تھا۔ 2020ء میں کراچی کوآپریٹو سکینڈل میں لوگوں کو اپنے گھر کا خواب دکھا کر لوٹ لیا گیا۔ اسی طرح ہمارے ہاں آئے دن ان کو آپریٹو کی دھوکا دہی کے سکینڈلز سامنے آتے ہیں جہاں غریب لوگوں کی زندگی بھر کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔ ان سکینڈلز کی وجہ سے پاکستان میں اس بارے میں عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ماڈلز ہمارے ملک میں کیوں کامیاب نہیں ہوتے؟ اس کی بنیادی وجہ انجمن باہمی کی کمزور سرپرستی‘ بدعنوانی‘ مفاد پر ستی اور بدانتظامی ہے۔ ہمارے ملک میں اس حوالے سے قانون تو موجود ہیں لیکن انہیں اکثر سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا‘ ذاتی فائدے کے لیے سیاسی طور پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ جن ممالک میں کوآپریٹو کو عوام کے فائدے کے لیے استعمال کیا گیا وہاں مناسب قانون سازی اور نگرانی کا مناسب میکانزم بھی بنایا گیا ہے۔ ایشیائی ممالک کی بہت سی مثالیں ہیں جنہوں نے کوآپریٹو کے تصور سے فائدہ اٹھایا ہے اور اب ان کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے جیسے جاپان‘ ملائیشیا‘ سنگاپور اور چین وغیرہ۔
عالمی معیار کے مطابق فوڈ سکیورٹی کے لیے فی کس اجناس 400 کلو گرام سالانہ ہونے چاہئیں۔ کوآپریٹو فارمنگ کے ذریعے گزشتہ سات برسوں سے چین میں 650 ارب کلوگرام اجناس کی پیداوار حاصل ہو رہی ہے اور فوڈ سکیورٹی میں چین دنیا کے تمام ممالک سے آگے ہے۔ اس کے ہر شہری کے لیے ایک سال میں 483 کلوگرام اجناس دستیاب ہیں۔ گزشتہ 74 برسوں میں پاکستان کے کل جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 43 فیصد سے کم ہوکر 22 فیصد رہ گیا ہے۔ 1961ء میں صنعتی ترقیاتی بینک اور زرعی ترقیاتی بینک قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں صنعتی ترقی اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے لیکن ان اہداف کو پورا نہیں کیا جا سکا۔ صنعتی ترقیاتی بینک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے 2006ء میں اسے انویسٹمنٹ کارپوریشن آف پاکستان میں ضم کرنا پڑا اور زرعی ترقیاتی بینک کو لمیٹڈ بینک بنانا پڑا۔ کسان انتہائی نامساعد حالات میں محنت کرنے کے باوجود اپنا معیار زندگی بہتر نہیں کر پارہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں فارم کا اوسط سائز چھوٹا ہے اور وہ وراثت کے قدرتی عمل کی وجہ سے ہر گزرتی نسل کے ساتھ مزید سکڑ رہا ہے‘ ایسے میں ہمیں اپنی مقامی مارکیٹ کی کمزوریوں کو ختم کرنے اور زرعی شعبے میں کوآپریٹو ماڈل کو اپنانا ہوگا۔ کسانوں کو کوآپریٹو ماڈل کے فوائد سے آگا ہی‘ خاص طور پر چھوٹے کاشت کاروں کے لیے تعلیم اور صلاحیت سازی کی ضرورت ہے۔ زرعی خود کفالت اور فوڈ سکیورٹی کے لیے کوآپریٹو فارمنگ کے ذریعے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ مثالیں موجود ہیں جن کی تشہیر کے ذریعے کسانوں کو اس طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر 2010ء کے تباہ کن سیلاب اور 2011ء میں مون سون کی شدید بارشوں سے زراعت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ ایسے میں صوبہ سندھ کے ضلع خیرپور کے تین سو کاشتکاروں پر مشتمل ایک انجمن تشکیل دی گئی۔ ممبران کو سبزیوں کی کاشت کے لیے جدید تکنیک کا استعمال کرنے کی تربیت دی گئی۔ مقامی منڈی کے لیے تیار کی جانے والی سبزیوں کے علاوہ آئس برگ لیٹش‘ بروکلی اور چیری ٹماٹر جیسی زیادہ قیمت والی فصلیں بر آمدی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اُگائی گئیں۔ یہ اراکین سبزی برآمد کندگان کے ساتھ ساتھ کراچی اور لاہور کے بڑے سپر سٹوروں سے بھی جڑے ہوئے تھے۔ شرکا کو شروع سے ہی انجمن باہمی کے ماڈل کے تحت کام کرنے کے تصور اور فوائد کی وضاحت کرنے سے نتائج حوصلہ افزا رہے۔ یہ ماڈل اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر کسانوں کو کوآپریٹو فارمنگ کے بارے میں بہتر طور پر معلومات دی جائیں تو زراعت میں بہتری کے امکانات روشن ہیں۔