آبادی کے لحاظ سے دنیا کے 10 بڑے ممالک میں پاکستان نے برازیل کو پیچھے چھوڑ کر اس سے پانچویں پوزیشن چھین لی ہے۔ ہمارے ملک کا کل رقبہ 796095مربع کلو میٹر ہے اور آبادی کی اوسط 287 افراد فی مربع کلومیٹر بنتی ہے۔آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس رفتار سے قومی وسائل‘ سماجی ترقی اور اوسط فی کس آمدنی میں اضافہ نہیں ہورہا۔ آزادی کے تین سال بعد پاکستان کی مجموعی آبادی پونے چار کروڑ سے کچھ زیادہ تھی۔ 1950ء سے لے کر 2022ء تک ملکی آبادی میں تقریباً چھ گنااضافہ ہو چکا ہے۔ عالمی سطح پر سالانہ شرح پیدائش دو فی صد سے کچھ زیادہ ہے۔ 2021ء کے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح 1.9 فیصد ہے جبکہ اقوام متحدہ کی پاپولیشن کونسل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ شرح افزائش 2.8فیصد ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر آٹھ سیکنڈ میں ایک فرد کا اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کی بے قابو بڑھتی ہوئی آبادی ملکی وقدرتی وسائل پر دباؤ کا سبب ہے۔ملک کو جتنے مشکل سماجی و اقتصادی حالات کا سامنا ہے ایسے میں کسی بھی ترقیاتی منصوبے کی تکمیل کے بعد آبادی میں تیزی سے اضافہ اسے بہت جلد متروک کردیتا ہے۔ ملکی آبادی میں جس شرح سے سالانہ اضافہ ہورہا ہے یہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ آبادی اور وسائل میں توازن نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو تعلیم اور صحت کی معیاری سہولیات دستیاب نہیں جبکہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو غذائی قلت‘پینے کا صاف پانی‘ آلودگی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ملک کی ایک تہائی کے قریب آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ خوراک‘ تعلیم‘ صحت‘ روزگار اور انفراسٹرکچر کی موجودہ سہولیات آبادی کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کے لیے خود اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت ضروری اشیائے خورونوش کی درآمدکی شکل میں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ آبادی اگر اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو 2040ء تک بارہ کروڑ مزید نوکریوں کی ضرورت ہوگی‘ 85 ہزار مزید پرائمری سکول بنانے ہوں گے اورایک کروڑ نوے لاکھ اضافی مکانات تعمیر کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں پہلے ہی مکانات کی کمی ہے اور زرعی اراضی کو رہائشی کالونیوں میں تبدیل کرنا زرعی اجناس کی قلت کاسبب بن رہاہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات میں کمی عوام کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اب بھی ایک ہزار بچوں میں سے باسٹھ بچے ایک سال کی عمر سے پہلے زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر کے 44 فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ معمول کے بچپن کے حفاظتی ٹیکوں کی انتہائی کم کوریج بشمول پولیو کے اوسط 61.4اور ملک کے کچھ حصوں میں اس سے بھی کم ہے۔ جب تک معمول کے حفاظتی ٹیکوں کی کوریج کم از کم 80 فیصد تک نہیں ہوگی بچوں کی زندگیوں کو خطرات کا سامنا رہے گا۔
1987ء میں جب دنیا کی آبادی نے پانچ ارب سے تجاوز کیا تو آبادی کے مسائل کی سنگینی کے پیش نظر 1989ء میں اقوامِ متحدہ کے ڈویلپمنٹ پروگرام کی گورننگ کونسل نے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے پر توجہ دی۔ دنیا کی آبادی کو بڑھ کر ایک ارب تک پہنچنے میں لاکھوں سال لگے مگرصرف دو صدیوں میں اس آبادی میں سات گنا اضافہ ہوا ہے۔ 2050ء تک دنیا کی آبادی 9 ارب 20 کروڑ ہونے کی توقع ہے اور اس آبادی کا تقریباً 66 فیصد شہروں میں مقیم ہوگا۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے وسائل کی وجہ سے سامنے آنے والی مشکلات سے نمٹنے کیلئے ہر سال 11جولائی کو آبادی کا عالمی دن منانے کا مقصد لوگوں میں حساسیت پیدا کرنا ہے۔ آبادی میں اضافے کا رجحان زیادہ تر تیسری اور چوتھی دنیا کے ممالک میں ہے اور وہاں غربت اور پسماندگی بھی بڑھ رہی ہے۔ ان ممالک کی عوام میں یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ دستیاب وسائل کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں اور اتنے کم وسائل میں اگر آبادی اسی تیزی سے بڑھتی رہی تو آنے والی نسلوں کو بقاکے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
پاکستان اس وقت اسلامی ممالک میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے۔ دیگر اسلامی ممالک نے آبادی میں اضافے کو کنٹرول میں رکھنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ ایران جہاں 1979ء میں اسلامی انقلاب آیا‘ اس ملک نے پچھلے 30 سال میں آبادی کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا ہے۔ 80ء کی دہائی کے آخر میں ایرانی انقلاب کے لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی نے فیصلہ کیاکہ ایرانی معیشت آبادی میں اضافے کو نہیں سنبھال سکتی تو انہوں نے آبادی میں کنٹرول کے لیے منبرکو استعمال کرتے ہوئے عوامی آگاہی مہم کا آغاز کیا جو چین کی ایک خاندان ایک بچہ پالیسی سے زیادہ تیز اور کامیاب رہی۔ بنگلادیش کی آبادی 1971ء میں تقریباً سات کروڑ دس لاکھ کے قریب تھی اور 1972ء میں پاکستان کی آبادی چھ کروڑ 53 لاکھ یعنی بنگلا دیش سے 57 لاکھ کم تھی۔ اس وقت بنگلادیش کی آبادی 16 کروڑ 74 لاکھ ہے اورسالانہ افزائش کی شرح ایک فیصد ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ جوکہ بنگلا دیش کی آبادی سے تقریبا ًسوا پانچ کروڑ زیادہ ہے اور سالانہ افزائش1.9 فیصد ہے۔ پاکستان کی بے قابو بڑھتی ہوئی آبادی ملکی قدرتی وسائل پر دباؤ کا سبب ہے۔ اس وقت ملک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کے 2.83 فیصد کے برابر ہے۔نصف سے زیادہ آبادی روزانہ دو ڈالر سے کم پر گزارہ کرتی ہے۔ نوجوان روزگار کے قابل افراد کی ایک بڑی آبادی کا ہونا خود بخود معاشی خوش حالی میں تبدیل نہیں ہوگا جب تک کہ صحت‘ تعلیم‘ بہتر معاشی پالیسی‘ مساوات اور نوجوان جو کل آبادی کا 65 فیصد ہیں‘ پر سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی۔ اس سلسلے میں تھائی لینڈ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 1960ء میں تھائی لینڈکی 40 فیصدآبادی کی عمر 15سال سے کم تھی۔ ہر خاندان کے اوسط چھ بچے تھے۔ 1990ء کی دہائی تک چھوٹے خاندان کی خواہش(جس کے تحت بچے دو ہی اچھے )اور حکومتی سطح پر خاندانی منصوبہ بندی میں سرمایہ کاری کی گئی جس کے نتائج Demographic dividendکی صورت میں سامنے آئے اور بے مثال اقتصادی ترقی ہوئی۔تیسری دنیا کا یہ وہ کامیاب ماڈل ہے جسے اگر پاکستان میں اپنایا جائے تو ہم اپنی نوجوان افرادی قوت کو کارآمد طور پر بروئے کار لاکر اقتصادی ترقی کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی عملی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے پختہ ارادے کے ساتھ حکومت کو تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملاکر پالیسی بنانا ہو گی۔ہمارا المیہ وہ معاشرتی رویے اور اقدار بھی ہیں جو عام گھرانوں میں انفرادی سطح پر فیملی پلاننگ کی سوچ کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ آبادی کے کنٹرول کیلئے ایسا قومی بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں آبادی کو معاشی اور معاشرتی ترقی کا بنیادی جزو قرار دیا جائے۔محکمہ صحت کے تمام مراکز پر فیملی پلاننگ سے متعلقہ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔خواتین کی معاشی خود مختاری اور لڑکیوں کی تعلیم پر وسائل خرچ کرنے ہوں گے۔ نئے شہر آباد کرنے کے علاوہ قصبوںاور دیہات میں‘جہاں ترقی کی رفتار سست ہے‘ مواقع پیدا کرنا ہوں گے تاکہ کوئی بھی علاقہ وسائل کی کمی کا مزید شکار نہ ہو۔ اس وقت خاندانی منصوبہ بندی کی مطلوبہ ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ایک ڈالر فی کس مختص کیا گیا ہے۔ اس کو بڑھانے اور وسائل کے استعمال میں بہتری لانے کیلئے اقدامات کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔