نیلسن منڈیلا: اُمید کی علامت

آج جسے دنیا عالمی شہرت یافتہ انقلابی سماج سدھار سیاستدان کے طور پر جانتی ہے‘ اسی نیلسن منڈیلا پر بچپن میں جب سکول میں داخلہ لینے کا وقت آیا تو سب سے پہلے اپار تھائیڈ قانون کے مطابق اسے اپنے والدین کا رکھا نام چھوڑنا پڑا تھا۔ ان کاپیدائشی نام Rolihlahla تھا۔ ان کی ماں انہیں مدیبا کے نام سے پکارتی تھی لیکن اپارتھائیڈ قانون کے مطابق سکول میں داخلے کے لیے ان کا انگریزی نام رکھنا لازمی تھا اور سکول کے ہیڈ ماسٹر نے ان کو نیلسن کا نام دیا۔
نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کا ایک ایسا انقلابی لیڈر تھا جس نے اپنی زندگی کے 67 برس نسلی عصبیت کے قانون کے خلاف مزاحمت کے لیے وقف کردیے اور 27 برس قوم اور ملک کی آزادی کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن اجتماعی مفادات پر سودے بازی نہیں کی۔ نسلی عصبیت میں ڈوبی ہوئی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں ربع صدی جیل میں گزارنے والے حریت پسند رہنما کو عالمی دباؤ کی وجہ سے 1990ء میں رہائی ملی۔ 11فروری 1990ء کو جب وہ وکٹرویسٹر جیل سے اپنے اصولوں پر سمجھوتا کیے بغیر رہا ہوئے تو یہ ایک عظیم رہنما کی رہائی ہی نہیں تھی بلکہ نسلی عصبیت کی شکست تھی۔ منڈیلا کا ماننا تھا کہ آزاد ہونے کا مطلب غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھینکنا نہیں بلکہ ایک ایسے انداز میں زندگی گزارنا ہے جس سے دوسروں کی آزادی کا احترام ہو اور اسے تقویت ملے۔ انہوں نے جو کہا اس پر عمل کیا اور مشکلات کے باوجود اپنے فیصلوں پر قائم رہے۔ کال کوٹھڑی بھی ان کے عزم کو متزلزل نہ کر سکی۔ اپنی خود نوشت Long Walk to Freedom میں وہ Apartheid نظام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک ایسی سوچ کا نام ہے جس کی مدد سے کئی صدیوں تک سیاہ فام افریقیوں کو سفید فاموں سے کمتر رکھا گیا تھا۔
افریقہ قدرتی وسائل سے مالا مال براعظم ہے لیکن آج بھی اس براعظم کے زیادہ تر ممالک کے عوام غربت‘ بھوک اور دہشت گردی سے نبرد آزما ہیں۔ اس براعظم کے جنوبی حصے میں واقعہ دنیا کے خوبصورت ممالک میں سے ایک ملک جنوبی افریقہ ہے۔ 1899ء میںAnglo-Boer War میں کامیابی کے بعد برطانیہ نے 67فیصد سیاہ فام لوگوں کو ملحوظ خاطر لائے بغیر اس وقت کی چار ریاستوں Cape‘ Natal Colony‘ Transvaal Colony اور Orange River Colony کو یکجا کرکے موجودہ جنوبی افریقہ کی تشکیل کی اور اس کی حکومت کے معاملات سفید فام لوگوں کے حوالے کر دیے۔ Statute of Westminster Act کے تحت اپنے زیر اثر خود مختار ریاست کا اعلان کرتے ہوئے 31 مئی 1910ء کو جنوبی افریقہ کو نوآبادیاتی نظام سے آزادی دے دی۔ آزادی کے بعد سیاہ فام باشندوں کو اور بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 1921ء میں جنوبی افریقہ کامن ویلتھ سے نکل گیا اور تیس لاکھ سیاہ فام باشندوں کو سفید فام لوگوں کے علاقے سے زبردستی نکال دیا گیا۔ پُرتشدد واقعات میں بہت سے ہلاکتیں ہوئیں۔ 1948ء میں نسل پرستی کا قانون یعنی Apartheid lawنافذ کردیا گیا۔ اس قانون کے مطابق ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے سفید فام‘ سیاہ فام اور براؤن لوگوں (ایشیائی باشندے) کے لیے الگ الگ قانون تھا۔ نسل پرستی کے ان قوانین کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں ایک آواز نیلسن منڈیلا کی تھی۔
نیلسن منڈیلا ایک چھوٹے سے گاؤں میں تھیمبو قبیلے (Thembu) میں 1918ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں سکول میں داخلے کے وقت ہی نام بدل کر نسلی عصبیت کا نشانہ بننے والے نیلسن منڈیلا نے یونیورسٹی آف ساؤتھ افریقہ سے گریجویشن کی۔ قانون کی تعلیم کے حصول کے لیے انہوں نے وٹ واٹرسرانڈ یونیورسٹی جوہانسبرگ میں داخلہ لیا۔ اس یونیورسٹی میں ہی وہ نو آبادیات مخالف اور افریقی قوم پرست سیاست میں شامل ہوگئے۔ 1943ء میں منڈیلا نے افریقی نیشنل کانگریس (ANC) کی رکنیت اختیار کی‘ یہ پارٹی سفید فام حکومت کی Apartheidپالیسیوں کے خلاف جدوجہد کر رہی تھی۔ 1955ء میں نیلسن منڈیلا نے کانگریس آف دی پیپلز میں شمولیت اختیار کی۔ منڈیلا کی ان سیاسی سرگرمیوں کے وجہ سے وہ حکومت کی نظر میں آگئے اور ان کو بغاوت کے الزام میں بار بار جیل جانا پڑا۔ مارکسزم سے متاثر ہوکر وہ خفیہ طور پر کالعدم جنوبی افریقی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ جس کی پاداش میں 1962ء میں ان کو گرفتار کرکے بغاوت کا مقدمہ چلاکر انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ انہیں جزیرہ روبن‘ پولسمور اور وکٹر ویسٹر جیل میں پابندِ سلاسل رکھا گیا۔ ملکی و بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں اُس وقت کے جنوبی افریقی صدر ایف ڈبلیو ڈی کلارک کو 1990ء میں منڈیلا کو رہا کرنا پڑا۔ 1994ء میں ملک میں پہلی مرتبہ کثیرالنسلی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے جس میں نیلسن منڈیلا کی پارٹی کو فتح حاصل ہوئی اور وہ ملک کے پہلے سیاہ فام صدر بن گئے۔ انہوں نے انتقامی سیاست کے بجائے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے Truth and Reconciliationکمیشن تشکیل دیا۔ ملک میں ایک نیا آئین نافذ کیا۔ منڈیلا نے ملک کے نسلی گروہوں کے درمیان مفاہمت پر زور دیا۔ معاشی طور پر ان کی حکومت نے لبرل فریم ورک برقرار رکھتے ہوئے زمینی اصلاحات کیں۔ غربت سے نمٹنے اور صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ جنوبی افریقہ میں انہیں بابائے قوم مانا جاتا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے دوسری مدت کے لیے صدارت کا عہدہ قبول نہ کیا اور سیاست سے ریٹائر ہوکر سماجی کاموں کے لیے اپنی باقی زندگی وقف کردی۔ انہوں نے نیلسن منڈیلا فاؤنڈیشن کی بنیا د رکھی جو غربت اور ایچ آئی وی ایڈز کے خلاف کام کرتی ہے۔ منڈیلا کو عالمی سطح پر جمہوریت اور سماجی انصاف کے ایک رول ماڈل کے طور پر جانا جاتا ہے۔
آج دنیا کے امن کو جس طرح کے خطرات لاحق ہیں ایسے خطرات شاید ہی آج سے قبل کبھی لاحق ہوئے ہوں۔ یوکرین روس جنگ کی وجہ سے پوری دنیا کو غذائی قلت کا خطرہ ہے۔ وادیٔ کشمیر کو عملاً جیل بنادیا گیا ہے۔ فلسطین اور غزہ کے نہتے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ جاپان جیسے ملک میں جہاں لوگ بہت پُرامن اور آتشی اسلحے کے قوانین سخت ترین ہیں‘ وہاں الیکشن مہم کے دوران سابق وزیراعظم کو گولی مارکر ہلاک کر دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ شدت پسندی بڑھ رہی ہے اور برداشت کم ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں نیلسن منڈیلا کے امن کے پیغام کو پھیلانے کی اشد ضرورت ہے۔
نیلسن منڈیلا نے کشمیر سمیت دنیا بھر کے مظلوم لوگوں کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی۔ 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کی بھی انہوں نے شدید مذمت کی۔ منڈیلا تمام عمر جنس‘ قومیت و نسل سے قطع نظر انسانوں کے بنیادی حقوق اور عالمی امن کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ یہ ہی وہ نظریات تھے جن کے لیے نیلسن منڈیلا کو 27 سال جیل میں پابندِ سلاسل رہنا پڑا۔ قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود انہوں نے اپنے نظریات پر یقینِ کامل رکھا اور رہائی کے بعد ان نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے متحرک رہے۔2009ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار داد پاس کی اور اس قرار داد کے تحت ہر سال 18جولائی کو عالمی سطح پر یومِ منڈیلا منانے کا اعلان کیا۔ آج نیلسن منڈیلا اس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کی نظریاتی و عملی جدوجہد کی دنیا معترف ہے جس کی وجہ سے ان کا کردار امید کی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ عالمی سطح پر یومِ منڈیلا کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کو مل کر غربت سے لڑنے‘ امن‘ مفاہمت‘ ثقافتی تنوع کو فروغ دینے اور مل کر کام کرنے کی طرف راغب کیا جائے۔ یہ دن ایک عالمی کال ٹو ایکشن بھی ہے جس کا مقصد اس خیال کو تقویت دینا ہے کہ ہر فرد کے پاس دنیا کو بدلنے کی طاقت اور اثر ڈالنے کی صلاحیت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں