مون سون بارشیں اور پاکستان

پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ بلوچستان اس حوالے سے حساس خطہ ہے جہاں ایک طرف طویل خشک سالی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح 800 فٹ تک پہنچ چکی ہے۔ درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ بلوچستان میں زراعت کے لیے پانی کا قدیم نظام ''کاریز‘‘ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہاہے۔ دوسری طرف حالیہ بارشوں کے سبب بلوچستان بد ترین سیلابی ریلوں کی زد میں ہے‘جہاں لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے درختوں اور گھروں کی چھتوں پر بیٹھے امدادکے منتظر ہیں۔ اس سال مون سون بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے ملک بھر میں اب تک 419 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں 140 بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ بارشوں سے 19450 مکانات کو شدید نقصان پہنچا ہے‘ 52 پل تباہ اور 977 کلو میٹر رابطہ سڑکیں متاثر ہوئی ہیں۔ 27 ہزار ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں کئی دیہات صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ حب ڈیم کے سپل ویز سے پانی کے غیرمعمولی اخراج کی وجہ سے حب ندی میں سیلابی صورتحال ہے اور اطراف کی آبادیوں سے لوگوں کا انخلا جاری ہے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ اور خیبر پختونخوا کا حال بھی بلوچستان سے زیادہ مختلف نہیں۔ چترال‘ اپرکوہستان‘ صوابی‘ چارسدہ‘ شمالی و جنوبی وزیرستان میں بھی بارشوں سے ہونے والے نقصانات لامحدود ہیں۔ ٹانک میں سیلابی ریلوں سے تین گاؤں صفحۂ ہستی سے ہی مٹ گئے ہیں۔ خشک سالی‘ گرمی کی شدت میں اضافے‘ گلیشیئر کے پھٹنے اور جنگلوں میں آگ لگ جانے جیسی موسمیاتی تبدیلیاں بھی پاکستان کو شدیدمتاثر کر رہی ہیں۔
آب و ہوا کے خطرات سے وابستہ (Global Climate Risk Index) میں سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس موسم اور قدرتی آفات سے ہونے والے مالی اور جانی نقصان کو ریکارڈ کرتا ہے۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق 1998ء سے 2018ء تک پاکستان میں ماحولیاتی آفات کی وجہ سے دس ہزارجانیں ضائع ہوئیں اور چار بلین ڈالر کا مالی نقصان ہو چکا ہے۔ گلوبل وارمنگ جنوبی ایشیا میں مون سون کے دورانیے کو طویل اور زیادہ خطرناک بنا رہی ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج‘ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور گرمی غیر متوقع اور انتہائی تیز بارشوإ کا سبب بنتا ہے (اس سب کو ہم نے 30 جون سے 31 جولائی کے درمیان مشاہدہ بھی کیا ہے۔ ان انتہائی شدید بارشوں کے سبب بلوچستان‘ سندھ‘ جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقے زیر آب ہیں)۔ اس سال موسم گرما کے آغاز ہی سے پورا ملک شدید گرمی کی لہر کا شکار رہا۔ مون سون کا سیزن جو عام طور پر جون سے ستمبر کے دوران جنوبی ایشیا میں بارشوں کا سبب بنتا ہے اور یہ بارشیں خطے کی زرعی معیشت کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ ان بارشوں سے دنیا کی کل آبادی کے پانچویں حصے کی زندگیاں اور فصلوں کی پرورش وابستہ ہے‘ لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں میں آنے والی شدت تقریباً ہر سال بنگلادیش‘ بھارت اور پاکستان میں تباہی کا سبب بنتی ہے۔ مون سون بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب ایک سنگین مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ تبدیلی کو سمجھنا اور مون سون کے بدلتے رجحانات کی پیش گوئی کرنا بارشوں اور سیلاب سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اب بھی گلوبل وارمنگ کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو جنوبی ایشیا میں مون سون کی بارشیں زیادہ بے ترتیب ہو جائیں گی۔ روز افزوں گلوبل وارمنگ سے مون سون کی بارشوں میں تقریباً پانچ فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ عالمی حدت جنوبی ایشیا میں مون سون کی بارشوں میں سوچ سے بھی زیادہ اضافہ کر رہی ہے۔ برصغیر پاک وہند کی سماجی و اقتصادی بہبود کو خطرات درپیش ہیں اس خطے میں پہلے ہی آبادی کے ایک بڑی تعداد غربت کا شکار ہے اور یہ موسمیاتی آفات ان کی زندگیوں کو مزید مشکل بنارہی ہیں۔ موسم کی شدت خطے کی زراعت اور معیشت کیلئے بھی خطرہ ہے۔ 1950ء کے بعد سے موسم گرما میں مون سون کی بارشوں میں آنے والی بے ترتیبی بیسویں صدی کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے خطرناک ہوگئی۔ اگر ہم اکیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں اور مون سون سیزن کا جائزہ لیں تو تقریباً ہر دو‘تین سال بعد مون سون میں بارش کی شدت بڑھ کر سیلابی صورتحال پیدا کر دیتی ہے۔
جیسے 2003ء میں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے صوبہ سندھ میں سیلاب کے باعث لامحدود جانی و مالی نقصان ہوا۔ 2005ء میں بلوچستان میں بارشوں کے سبب شادی کور ڈیم ٹوٹ گیا جس سے بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ 2007ء میں خیبر پختونخوا‘ سندھ اور بلوچستان کا ساحلی علاقہ شدید بارشوں سے متاثر ہوا۔ 2009ء میں بارشوں کی وجہ سے کراچی میں اربن فلڈنگ نے کاروبار زندگی کو مفلوج کردیا۔ 2010ء میں پورا ملک شدید سیلاب کی تباہی کا شکار ہوا۔ 2012ء میں مون سون کی بارشوں نے خیبر پختونخوا‘ پنجاب اور سندھ میں تباہی مچا دی۔ اس سیلاب کی وجہ سے سو سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے اور ہزاروں مکانات تباہ ہوگئے تھے۔ 2014ء میں آزاد کشمیر میں بارشوں کی وجہ سے ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ نے رابطہ سڑکوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ 2016ء اور پھر 2019ء میں آنے والے سیلاب نے کئی قیمتی جانیں لیں اور انفراسٹرکچر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ 2020ء میں کراچی میں صرف ایک دن میں 231mm بارش ریکارڈ کی گئی جس کے نتیجے میں کئی دن تک لوگ اپنے گھروں میں محصور رہنے پر مجبور ہوئے۔ اس سال کراچی میں مون سون کے دوران اوسطاً 141mm بارش ہوئی۔
حالیہ بارشیں یہ تشویشناک سوال اٹھا رہی ہیں کہ اگر موسمیاتی تبدیلی سے نبرد آزما ہونے کے لیے مناسب پلاننگ نہ کی گئی تو ملک کا معاشی حب کیسے survive کر سکے گا؟ شہر کی سڑکیں ندیوں میں تبدیل ہو گئیں‘ کچی آبادیوں کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں‘ شہر کے پوش علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہو گیا۔ چند گھنٹوں کی بارش سے روشنیوں کے شہر میں زندگی کا پہیہ جام ہو جاتا ہے۔ مقامی حکومت کے اداروں کو جب تک بااختیار اور ذمہ دار نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک نہ ہی 18ویں ترمیم کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے اور نہ ہی ہمارے مسائل حل ہو سکیں گے۔
وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کے انتباہ کے باوجود وفاقی‘ صوبائی اور مقامی حکومتیں ان بارشیوں سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ اس سال کا موسم برسات خاص طور پر زیادہ سفاک رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال ہر ذہن میں اٹھ رہا ہے کہ کیا پاکستان کے بڑے شہر وں کے پاس ایسی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی پلاننگ موجود ہے؟ ایک محتاط ترین اندازے کے مطابق ہر سال اگر اوسط درجے کی بارش بھی ہو تو کوہ سلیمان سے آنے والا پانی پاکستان کے سب سے بڑے ڈیم تربیلا کی گنجائش سے زیادہ ہوتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں تعمیر کردہ گومل ڈیم میں پانی کا بڑا ذریعہ کوہ سلیمان سے آنے والا پانی کاہے۔ اس ڈیم کا بنیادی مقصد ہی سیلاب کی صورت حال کو کنٹرول کرنا اور آب پاشی کے لیے پا نی مہیا کرنا ہے۔ سیلاب کی صورتحال کو کنٹرول کرنے اور بارشوں کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سے راجن پور‘ تونسہ اور ڈیرہ غازی خان جیسے کئی علاقوں کو نہ صرف تباہی سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ ان میں جمع ہونے والے پانی سے قلتِ آب کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ان چھوٹے ڈیموں میں جمع ہونے والے پانی سے ملکی زراعت کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے‘ ان ڈیموں کی تعمیر کے لیے پولیٹکل وِل اور انتظامی دیانت کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں