چین اور سعودی عرب کے درمیان 1990ء میں قائم ہونے والے سفارتی تعلقات گزشتہ دو دہائیوں کے دوران وسعت پذیر ہوئے ہیں۔ جنوری 2016ء میں چین کے صدرکے دورۂ سعودی عرب‘ مارچ 2017ء میں سعودی فرماں روا کے دورۂ چین اور فروری 2019ء میں سعودی ولی عہد کے دورۂ چین نے دو طرفہ تعلقات کو مزید گہرا اور مستحکم کیا۔ امریکہ کی اس خطے میں بدلتی ہوئی پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں سرد مہری در آئی ہے۔ اب سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک امریکہ پر انحصار کو کم ازکم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ چین سعودی عرب کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور چینی کمپنیاں سعودی عرب میں تعمیراتی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر بھی کام کر رہی ہیں۔ چین سعودی تیل کی برآمدات کا 25 فیصد سے زیادہ خریدتا ہے۔ سعودی عرب چین کے ساتھ تیل کا سودا امریکی ڈالر کے بجائے یوآن میں کرنے پر غور کر رہا ہے۔ چین کے صدرکا رواں ماہ کے آخر میں سعودی عرب کا دورہ متوقع ہے۔ سعودی عرب میں ان کے پُرتپاک استقبال کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس دورے کے دوران چینی صدر ریاض اور جدہ کے علاوہ مغربی سعودی ساحل پر نئے میگا سٹی ''نیوم‘‘ بھی جائیں گے۔
خطے کی بدلتی جیو پولیٹکل صورتحال کے پس منظر میں صدر شی جن پنگ کے دورے کو خلیجی ممالک کے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین بہت اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ امریکی صدر جوبائیڈن حال ہی میں مشرقِ وسطیٰ کا دورہ مکمل کرکے واپس گئے ہیں۔ جوبائیڈن شہزادہ محمد بن سلمان کو تیل کی سپلائی بڑھانے کیلئے راضی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ دوسری جانب چین کے سخت احتجاج کے باوجود امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا۔ چوتھائی صدی کے بعدکسی اعلیٰ ترین امریکی عہدیدار نے تائیوان کا دورہ کیا۔ چین نینسی پلوسی کے حالیہ دورے کو چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف سمجھتا ہے۔ اس دورے کے بعد چین امریکہ تعلقات میں تناؤ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ چین نے پلوسی کے دورے کی شدید مذمت کی اور ردعمل میں آبنائے تائیوان میں بڑی فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا۔ اس سب کے باوجود ابھی تک چین نے بہت تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہے وگرنہ امریکی صدر کے بیانات اور سپیکر کے دورے نے تائیوان کو مشرقِ بعید کا یوکرین بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ چین کے محتاط رویے نے فی الحال ایک بڑے تصادم کو روک دیا ہے۔
علاقائی جغرافیائی سیاسی تناؤ اور مشرقِ وسطیٰ میں بدلتی ہوئی سکیورٹی حرکیات کے درمیان بیجنگ علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے اور عرب دنیا کے ساتھ جامع سٹریٹیجک شراکت داری کا خواہاں ہے۔ خطے میں تجارت و سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے اسے سعودی عرب کے ساتھ کی ضرورت ہے۔ چین مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور دیگر خلیجی ممالک کے درمیان توازن اور کثیر الجہتی کو بڑھانے کی خارجہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور اس علاقے میں وہ فی الوقت کسی قسم کے عسکری کردار کا خواہش مند نہیں۔ چین کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ مذہبی یا سیاسی نظریات میں پڑے بغیر دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے نظریاتی طور پر منقسم خطے میں اس کی یہ حکمت عملی تاحال بہت کامیاب ہے۔
مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ (MENA) میں یہ احساس جڑ پکڑ چکا ہے کہ امریکہ پر انحصار کو کم کرکے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ اس سوچ نے خطے کے ممالک کو چین کی جانب مائل کیا۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک کے لیے کشش موجود ہے۔ صدر شی جن پنگ نے 2013ء میں دورۂ قازقستان کے دوران پہلی بار نئی شاہراہ ریشم کی تجویز پیش کی تھی۔ اُس وقت اس مجوزہ منصوبے کو یوریشیا کے ساتھ چین کی تجارت کی بحالی کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ درحقیقت بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ وسطیٰ ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ اقتصادی تعلقات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کو زمانۂ قدیم سے منسلک کرنے والی شاہراہ ریشم کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی چین کا بنیادی مقصد ہے۔ اس شاہراہ کے ذریعے وہ ایشیا اور افریقہ کے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کا خواہش مند ہے۔ مذکورہ منصوبے کے لیے1.4 ٹریلین ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقصد بین الاقوامی تجارت کے مرکز کو بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل سے یوریشین براعظم میں منتقل کرنا ہے۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور ''سعودی وژن 2030ء‘‘ میں کافی ہم آہنگی ہے۔ سعودی وژن 2030ء کا مقصد تیل پر انحصار کم کرنا اور معیشت کو متنوع بنانا ہے۔ اس ضمن میں سعودی عرب اور چین کے درمیان متعدد معاہدے ہو چکے ہیں۔ چینی تعمیراتی کمپنیاں پہلے ہی سعودی عرب میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ مالیاتی شعبے کے علاوہ توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی چین سعودی عرب میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ چینی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہواوے سعودی عرب میں دور دراز علاقوں تک انٹرنیٹ پہنچانے کیلئے کلاؤڈ سہولیات بنا رہی ہے اور سعودی ڈیجیٹل اکیڈمی نے سعودی شہریوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تربیت دینے کیلئے ہواوے کے ساتھ معاہدے بھی کیے ہیں۔ مشرقی سعودی عرب میں واقع ''کنگ سلمان انرجی پارک‘‘ میں مینو فیکچرنگ حب بنانے پر بھی بات چیت جاری ہے۔ سعودی آئل کمپنی آرامکو اور چینی کمپنی سائنو پیک کے درمیان تیل کی صنعت‘ کاربن کیپچر ٹیکنالوجی‘ ہائیڈروجن توانائی کے ذرائع کی ترقی اور قابلِ تجدید توانائی کے حوالے سے بھی معاہدے ہو چکے ہیں جبکہ آرامکو چینی شہر Panjin میں آئل اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس تعمیر کرے گی۔
چین جن ممالک میں بھی سرمایہ کاری کرتا ہے ان ملکوں کے انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی میں مدد کے علاوہ ٹیکنالوجی بھی منتقل کرتا ہے‘ یہ وہ عمل ہے جو اسے امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے منفرد بناتا ہے۔ خلیجی ممالک کی بندرگاہیں اور فری زون چین کے میری ٹائم سلک روڑ منصوبے کیلئے اہم ہیں۔ ان ممالک کے صنعتی پارک اور بندرگاہوں کی ترقی کو میری ٹائم سلک روڈ منصوبے کے ساتھ ملانے کیلئے مختلف پروجیکٹس پر کام جاری ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ خلیج فارس سے بحیرہ عرب‘ بحیرہ احمر اور بحیرہ روم تک کاروباری کلسڑز اور سپلائی چینز کو جوڑتا ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تونہ صرف چین بحری اڈوں کی تعمیر کے بغیر یورپی منڈیوں تک بہ آسانی رسائی حاصل کر لے گا بلکہ خطے کے ممالک خصوصاً شمالی افریقہ میں ترقی و استحکام کا سبب بھی بنے گا۔سعودی عرب مزید بڑے منصوبوں کی راہ پر گامزن ہے جس کیلئے سرمایہ کاری‘ شراکت داری اور تکنیکی تعاون کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کی جہاں تک بات ہے‘ چینی کمپنیاں ٹیکنالوجی کے میدان میں ہر سطح پر خطے میں زبردست قدم جما رہی ہیں۔ انفراسٹرکچر‘ ہارڈویئر‘ سافٹ ویئر‘ ایپس میں چین کو مسابقتی برتری حاصل ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ چین نے اپنے شہروں میں نقل وحمل‘ تجارت اور طبی میدان میں سمارٹ انفراسٹرکچر جس طرح تیار کیا ہے اس کی یہ کارکردگی اسے اپنے مدمقابلوں پر برتری دیتی ہے۔ چین دنیا کے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک ہے اور سعودی عرب ایسا ملک ہے جس کی خطے اور توانائی کی منڈیوں میں سٹریٹیجک اہمیت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا بڑی اقتصادی تبدیلیوں کے دہانے پر ہے‘ چینی صدر کے متوقع دورے سے دونوں ممالک کی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ ایک واضح پیغام ہوگا کہ سعودی عرب کے امریکہ کے علاوہ دیگر سٹریٹیجک اتحادی بھی ہیں۔ پورا مشرقِ وسطیٰ اس موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔