عالمی یومِ خواندگی

ہماری دنیا اس وقت سخت حقائق کا سامنا کر رہی ہے؛ جیسے موسمیاتی تبدیلیاں‘ سیاسی تنازعات‘ تیز رفتار ڈیجیٹل انقلاب‘ وبائی امراض وغیرہ۔ ڈویلپمنٹ آف اکنامک اینڈ سوشل افیئرز کی رپورٹ میں یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ 15 نومبر تک دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہو جائے گی۔ خواندگی ہر انسان کا تسلیم شدہ بنیادی حق ہونے کے باوجود دنیا میں اس وقت تقریباً 77 کروڑ 30 لاکھ لوگ ناخواندہ ہیں۔ کم یا درمیانی آمدن والے ممالک کے دس سال کی عمر کے تقریباً 53 فیصد بچے پڑھ نہیں سکتے۔ ایسے میں رسمی تعلیم سے زیادہ غیر رسمی تعلیم کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور غیر رسمی تعلیم کیلئے جو ذرائع کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں ان میں خاندان‘ کمیونٹی‘ آن لائن اور کام کی جگہیں وغیرہ شامل ہیں۔ خواتین کی عالمی شرح خواندگی 81 فیصد ہے اس کے مقابلے میں مردوں کی شرح خواندگی 89 فیصد ہے۔ ملکوں کی ترقی میں کردار ادا کرنے والے عوامل میں سب سے اہم فرد کی ترقی ہے اور خواندگی افراد کو ان کی ذاتی ترقی کیلئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے جس کے بعد ہی وہ قوم و ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
یونیسکو کی جنرل کانفرنس کے 14 ویں اجلاس اکتوبر 1966ء میں خواندگی کا عالمی دن منانے کی قرار داد منظور کی گئی اور اس طرح خواندگی کا عالمی دن پہلی بار 8 ستمبر 1967ء کو منایا گیا۔ اس برس خواندگی کا عالمی دن ''Transforming Literacy Learning Spaces‘‘ کے تھیم کے تحت منایا گیا ہے۔ یہ تھیم سب کیلئے معیاری‘ مساوی اور جامع تعلیم کو یقینی بنانے کیلئے خواندگی سیکھنے کی جگہوں کی بنیادی اہمیت پر نظر ثانی کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ڈیجیٹل لرننگ اور ورچوئل کلاس رومز کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈیجیٹل لرننگ متعلم کے سیکھنے کے عمل کو تیز اور بہتر بناتی ہے۔ عالمی وباکے ہنگامہ خیز چیلنج نے ہمیں آگے بڑھنے کا ایک نیا راستہ بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ایک مربوط نقطۂ نظر کے ذریعے سیکھنے کی موجودہ جگہوں کو مزید تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
انٹرنیشنل کمیشن آن فیوچر آف ایجوکیشن (2021ء) کی رپورٹ کے مطابق مستقبل کو بدلنے کیلئے عالمی برادری اور قومی حکومتوں کیلئے ناگزیر ہے کہ وہ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی تک غیر متناسب رسائی کو دور کریں‘ بشمول بنیادی وسائل جیسے بجلی اور گھریلو انٹرنیٹ‘ خاص طور پر کمزور گروہوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں جنہیں غربت‘ منفی شناخت‘ سماجی حیثیت‘ نسل‘ زبان کے تنوع یا کسی قسم کی بھی معذوری کا سامنا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ کوئی بھی پیچھے نہ رہے‘ ہمیں موجودہ درس گاہوں کو Learner centric approachکے ساتھ بہتر انداز میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی‘ ثقافتی اور سیاسی ماحول بھی متعلم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ خواندگی کی توسیع شدہ تعریف کے ساتھ یہ واضح ہے کہ اب رسمی اور غیر رسمی تعلیم کے روایتی ذرائع میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لیبر مارکیٹ کے ساتھ تعلق جوڑا جا سکے جو پائیدار اور فائدہ مند ہوگا اور پسماندہ گروہوں کو فعال شہری بننے کے قابل بنائے گا۔ آئندہ نسلوں کی بہتر تربیت‘ کردار سازی‘ صحت مند گھریلو ماحول اور اچھے معاشرے کی تعمیر کیلئے خواتین کی تعلیم بہت اہم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں خواتین میں ناخواندگی کو ختم کرنا اور ان میں خود اعتمادی کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ انہیں معاشی طور پرخود مختار بننے کے قابل بناکر بااختیار بنایا جا سکے۔ ذاتی خود مختاری کو فروغ دینے میں تعلیم کی اہمیت‘ تخلیقی اور تنقیدی سوچ کی مہارتیں خواتین کو اپنے معاشروں کا اہم حصہ بنادیتی ہیں۔ خواندہ و ہنرمند افرادی قوت کی پیداواری صلاحیت ملکی ترقی کے پہیے کو تیز تر کردیتی ہے۔
اس پس منظر میں تعلیم کے حوالے سے پاکستا ن کی کوششوں کا جائزہ لیں تو آزادی کے ان 75 برسوں میں 22 تعلیمی پالیسیوں اور منصوبوں کا اعلان کیا گیا۔ تعلیم کے میدان میں ہمیں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جیسے ابھی تک ہم یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ ہمیں قومی سطح پر اپنے بچوں کو کس زبان میں تعلیم دینی ہے۔ ملک میں تین طرح کے تعلیمی ادارے موجود ہیں‘ اس طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے معاشرتی سطح پر تفریق واضح طور پر نظر آنے لگی ہے۔ ان اداروں سے فارغ التحصیل طالب علم تین مختلف دنیاؤں کے باشندے معلوم ہوتے ہیں جن کا آپس میں کوئی ربط نہیں۔ یکساں نظام تعلیم مضبوط قوم کی تشکیل کیلئے بہت اہم ہوتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہونے کے باوجود ہمیں اس تلخ حقیقت کا سامنا ہے کہ پاکستان کی تعلیمی پیش رفت غیر متاثر کن ہے۔ شرحِ خواندگی میں دنیا کے 162 ممالک کی فہرست میں ہمارا ملک 142ویں نمبر پر ہے۔ خواندگی کی شرح بڑھانے کیلئے ریاست‘ حکومت اور عوم کو اپنی اولین ترجیحات میں تعلیم کو سرفہرست رکھنا ہوگا۔
تعلیمی حوالے سے ایک بڑا مسئلہ سکول جانے کی عمر کے وہ کروڑوں بچے بچیاں ہیں جن کی سکولوں تک رسائی نہیں اور اس وقت وہ مختلف وجوہات کے باعث تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ سے وعدہ کیا ہے کہ 2030ء تک ہر بچے کو لازمی بنیاد پر معیاری پرائمری تعلیم فراہم کی جائے گی‘ اس وعدے کو ایفا کرنے اور شرحِ خواندگی میں اضافے کیلئے عوامی سطح پر شعور اور آگہی ناگزیر ہیں۔ اس کیلئے بڑے پیمانے پر سماجی مہم چلانا ہوگی۔ سماجی کارکنوں کی مدد سے عام لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کیلئے ہر حال میں سکولوں میں بھیجیں۔ بالغ افراد کی تعلیم کا بھی خصوصی پلان تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے افراد جو بچپن میں کسی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکے وہ تعلیم کی بدولت کارآمد شہری بن سکیں۔ تعلیم بالغاں کے مراکز میں روایتی طریق تدریس کے ساتھ جدید رجحانات سے بھی استفادہ کیا جائے۔ تعلیم بالغاں معاشرتی استحکام اور سیاسی شعور پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔ تعلیم بالغاں کے پروگرام میں فیکٹریوں کے مزدوروں‘ کسانوں‘ کاریگروں اور دیگر بالغ افراد جو سکولوں میں رسمی تعلیم حاصل نہیں کر سکے‘ خاص طور پر خواتین کو خواندگی سکھائی جائے۔ اس طرح شرحِ خواندگی میں اضافہ ہوگا جو ایک معتدل معاشرے کی تعمیر کا سبب بنے گا۔
اس وقت پاکستان میں شرح خواندگی 63 فیصد ہے۔ خواندہ شہریوں کی اس شرح میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو بمشکل اپنا نام ہی لکھ سکتے ہیں۔ وفاقی بجٹ کا 3.4 فیصد تعلیم کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ صوبے بھی اپنے اپنے سالانہ ترقیاتی بجٹ کا تقریباً پانچواں حصہ تعلیم پر صرف کرتے ہیں لیکن کیا مختص شدہ رقوم درست طور پر خرچ ہورہی ہیں؟ تعلیمی ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے کے مسائل حل کرنے کیلئے بجٹ میں مختص رقوم کے علاوہ متفقہ اور طویل مدتی پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں سے بچوں اور خاص طور پر بچیوں کی ڈراپ آؤٹ شرح بھی زیادہ ہے۔ حالیہ تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے تعلیم کا شعبہ بھی متاثرہو رہا ہے۔ پہلے ہی سہولتوں کی کمی کا سامنا ہے‘ اس پر مستزاد سیلاب نے انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور سیلاب زدگان کو سرکاری سکولوں کی عمارتوں میں رکھا گیا ہے۔ سیلابی پانی اترجانے اور متاثرین کی دوبارہ اپنے علاقوں میں بحالی تک سکولوں کی یہ عمارتیں درسی عمل کیلئے دستیاب نہیں ہوں گی۔متاثرہ علاقوں میں وقتی کیمپ سکول قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درس و تدریس کا عمل بلاتعطل جاری رہ سکے‘کیونکہ تعلیم کے میدان میں مطلوبہ پیشرفت ہی ہمیں اس قابل بنائے گی کہ دیگر ممالک کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل سکیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں