معلومات تک رسائی صحت مند‘ جامع‘ علمی اور مہذب معاشروں کے لیے اہم ہے۔ معلومات تک رسائی کے معنی یہ ہیں کہ ہر شہری کو معلومات کو تلاش کرنے‘ حاصل کرنے اور فراہم کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ حق اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کا ایک لازمی حصہ ہے۔ میڈیا عوام کو مسائل سے آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن یہ معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت پربھی انحصار کرتا ہے‘ اس لیے معلومات تک رسائی کا حق آزادیٔ صحافت کے حق کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ صحافتی و سماجی تنظیموں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ان قوانین کے بارے میں آگاہی فراہم کریں۔ عوام کے لیے یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ کس طرح واضح اور ٹارگٹڈ معلومات کی درخواست کر سکتے ہیں تاکہ شہری ان قوانین سے مستفید ہوتے ہوئے بہتر معاشرے کی تعمیر کر سکیں۔ معلومات تک رسائی کے قوانین کا مکمل نفاذ عوام کی بھلائی‘ پائیدار ترقی اور مضبوط اداروں کی تعمیر میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔ یہی وہ حق ہے جو شہریوں کو بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے کا موقع دیتا ہے۔ معلومات تک رسائی کا قانون شہریوں کو سرکاری اہلکاروں سے جواب دہی کا مطالبہ کرنے کے قابل اور انتظامی امور میں شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔ اسکی مدد سے بدعنوانی پر کنٹرول کرکے عوامی اداروں کی کارکردگی مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس قانون کی بدولت سرکاری دستاویزات ویب سائٹس پر آویزاں کرنے سے شفافیت بڑھ جاتی ہے۔
2001ء میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے چار کروڑ ڈالرکا قرض دینے سے قبل حکومتِ پاکستان کے سامنے یہ شرط رکھی تھی کہ عام شہریوں کی معلومات تک رسائی کے لیے قانون سازی کی جائے جس کی وجہ سے بادل نخواستہ حکومت کو 2002ء میں معلومات تک رسائی کے حق کا قانون ایک آرڈیننس کے ذریعے نافذ کرنا پڑا۔ یہ قانون معلومات تک انتہائی محدود رسائی دیتا تھا اس کے باوجود اس پر عملدرآمد ایک عرصے تک سست روی کا شکار رہا۔ 2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین میں آرٹیکل A-19کو شامل کیا گیا جس کے مطابق کوئی بھی شہری قوانین کے تحت مفادِ عامہ سے متعلق کسی بھی محکمے سے معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ 2002ء کے رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس کو تبدیل کرتے ہوئے دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017ء پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا جس کے تحت شہری تمام وفاقی وزارتوں اور محکموں سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013ء سے نافذ العمل ہے جبکہ صوبہ سندھ میں 2018ء اور بلوچستان میں 2021ء میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ نافذ کیا گیا۔ وفاق اور صوبوں میں انفارمیشن کمیشن بھی تشکیل دیے گئے ہیں؛ تاہم اب بھی بہت سی رکاوٹیں ایسی ہیں جن کے باعث ایک عام شہری ان تمام معاملات‘ جن میں عوام کا پیسہ استعمال ہوتا ہے‘ کی معلومات تک نہیں پہنچ پاتا۔ عموماً شہری اپنے علاقوں میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں یا سرکاری محکموں میں ہونے والی بھرتیوں سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے ان قوانین کا استعمال کرتے ہیں۔ سماجی تنظیمیں سرکاری محکموں کو ملنے والے بجٹ اور اس کے استعمال سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے ان قوانین کا استعمال کرتی ہیں۔ معلومات تک رسائی سے متعلق قوانین کی موجودگی کے باوجود سرکاری ادارے شہریوں کو معلومات کی فراہمی سے گریزاں ہیں۔ اس قانون کے تحت چند معلومات کو استثنیٰ حاصل ہے۔ جن میں ایسی معلومات شامل ہیں جو پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کو متاثر کریں یا ایسی معلومات جو کسی انکوائری کی تفتیش کو متاثر کرتی ہوں۔ ملک کی سکیورٹی یا کسی کی نجی معلومات کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے تمام سرکاری ادارے 43 اقسام کی اطلاعات از خود اپنی ویب سائٹس پر جاری کرنے کے پابند ہیں جبکہ خیبرپختونخوا حکومت 30 ‘ سندھ حکومت 25 اور پنجاب حکومت 24اقسام کی اطلاعات کی فراہمی کی پابند ہے۔ صوبوں اور وفاق میں متعلقہ انفارمیشن کمیشنز کی بنیادی ذمہ داری شہریوں کی طرف سے حکومتوں سے طلب کردہ اطلاعات فراہم نہ کیے جانے کی صورت میں مداخلت کرکے متعلقہ اداروں سے مطلوبہ اطلاعات شہریوں کو دلوانا ہے۔ ان قوا نین کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر عام شہری انہیں زیادہ استعمال کریں تو حکومتوں پر عوام دوست پالیسیاں بنانے کے لیے زیادہ دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ معلومات تک رسائی کا قانون شہریوں کو یہ حق بھی دیتا ہے کہ وہ یہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں کہ ان کی جانب سے ادا کیے گئے ٹیکس سے کون سے ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان 132 ممالک میں شامل ہے جہاں معلومات تک رسائی کا قانون موجو دہے۔ ملک میں شفاف اور بہتر گورننس کے لیے اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہوگا جو سرکاری معلومات کو عام کرنے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح کے قوانین کے فعال ہونے سے ہی ملک میں رازداری کا رواج ختم ہو سکتا ہے۔ رازداری کے اس فرسودہ کلچر کو کھلے پن میں تبدیل کرنا مشکل کا م ہے جس میں نسلیں لگ سکتی ہیں؛ تاہم پہلا قدم یہ ہے کہ لوگوں میں ان کے معلومات کے حق کے بارے میں شعور اجاگر کیا جائے اور لوگ خود تحقیق کریں۔ قانون بنانے اور پارلیمنٹ سے پاس کروانے کہ بعد حکومت کے لیے بڑا چیلنج اس کا نفاذ اور صحیح معنوں میں قانون پر عمل درآمد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق اور صوبوں میں معلومات تک رسائی کے قوانین موجود ہونے کے باوجود مختلف حیلے بہانوں کا سہارا لیتے ہوئے شہریوں کو ان کی مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔ صرف وہ معاملات جن کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے‘ ان کے علاوہ عوام کی رسائی تمام معلومات تک ہونی چاہیے۔ ملکی پارلیمان عوامی نمائندوں پر مشتمل ہے اور اس نے یہ قانون منظور کیا ہے جب وہی اس قانون سے خود کو مبرا قرار دے گی تو دوسرے سرکاری محکمے کس طرح عوام کے اس حق کا احترام کریں گے؟ ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جہاں بشمول مقننہ‘ انتظامیہ کوئی بھی شخص یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں‘ یہی سبب ہے کہ ان ملکوں میں فیصلہ ساز ادارے اور سرکاری اہلکار قانون کے نفاذ میں رکاوٹ نہیں بنتے اور قانون کے سامنے جوابدہ ہیں۔ معلومات تک رسائی کا آئینی حق شہریوں کو اپنی آواز کا استعمال کرنے‘ حکومت کا احتساب و مؤثر طریقے سے نگرانی کرنے اور ان کی زندگیوں کو متاثر کرنے والے فیصلوں کے بارے میں باخبر مکالمے میں شامل ہونے کے لیے اہم ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں حقیقی ساختی اور سیاسی رکاوٹیں ہیں جو شہریوں تک معلومات پہنچنے نہیں دیتیں اور اس کے نتیجے میں بہتر حکمرانی کی خواہش کسی دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔
فریڈم آف انفارمیشن کی ابتدا 1766ء میں اس وقت ہوئی جب سویڈش حکومت نے اپنے شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق دیا‘ یعنی جس قانون کو ہم آج بھی مکمل طور پر نافذ نہیں کرپارہے‘ سویڈن نے ا پنے شہریوں کو وہ حق 1766ء میں دے دیا تھا۔ آج کی ڈیجیٹل دنیا میں رازداری کے کلچر کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا ہے۔ معلومات تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت اور ای گورننس اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کی مدد سے شہری سرکاری شعبے کی معلومات اور خدمات تک تقریباً فوری طور پر رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ معلومات اور دستاویزات تک رسائی کے ذریعے شفافیت‘ گورننس میں بہتری اور بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہے۔ شہریوں میں آگہی کا فقدان‘ معلومات تک رسائی سے متصادم دیگر قوانین‘ رازداری کے انتظامی رویے وغیرہ بنیادی رکاوٹیں ہیں جن کو ختم کیے بغیر اس حق کے استعمال سے معاشرے میں آنے والی مثبت تبدیلیوں سے مستفید نہیں ہوا جا سکتا۔ اگر اب بھی عوام دوست پالیسیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم نہ کیا گیا تو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ معاشرہ تعمیر کرنا ناممکن ہو جائے گا۔