ڈیزاسٹر مینجمنٹ

سپر فلڈ (2010ء)کے 12 سال بعد ایک بار پھر پاکستان کا وسیع رقبہ سیلابی ریلوں سے تباہی کا شکار ہوا ہے۔ بارشوں کے سبب آنے والے سیلابی ریلوں نے ان اقدامات اور منصوبوں کی قلعی کھول دی ہے جن کے اعلانات ہم گزشتہ گیارہ سال سے سن رہے تھے۔ آفت چاہے انسان ساختہ ہویا قدرتی‘ اس کے رونما ہونے کے بعد بڑے اعلانات تو سننے کو ملتے ہیں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد عوام‘ میڈیا اور حکومت سب بھول بھال کر دوبارہ اسی ڈگر پر چل پڑتے ہیں جس پر 75 سال سے گامزن ہیں یعنی دائرے میں سفر! ایسا کب تک چل سکتا ہے؟ اس مرتبہ تو عالمی رضاکار تنظیموں نے یہاں تک کہہ دیا کہ2010ء کے سپر فلڈ سے آج تک پاکستان میں کچھ نہیں بدلا۔ یہ حقیقت ہے کہ آفات اور ہنگامی حالات سے محض سرکاری اہلکار نہیں نمٹ سکتے بلکہ اس کام کیلئے تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت بھی ہوتی ہے‘ جس پر توجہ نہیں دی گئی۔ سول ڈیفنس ایکٹ 1951ء کے تحت وزارتِ داخلہ میں محکمہ شہری دفاع قائم کیا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس محکمے کے عملے اور عوام کی تربیت پر توجہ نہیں دی گئی۔ نیشنل کلیمٹی ایکٹ 1958ء کے ذریعے صوبائی ریلیف کمشنر کو اور متعلقہ صوبائی حکومت کو یہ اختیار دیا گیا کے وہ متاثرہ علاقوں کی نشاندہی کرکے ہنگامی حالات کا اعلان کر سکتی ہے۔ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء کے تحت ضلعی سطح پر منتخب سرکاری محکموں کو آفات کے تدارک اور انتظام کے ضمن میں ذمہ داریاں اور اختیارات دیے گئے تھے۔ قدرتی آفات سے بچاؤ کیلئے پہلی قومی پالیسی 2012ء میں منظور کی گئی۔موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کیلئے دہشت گردی یا دیگر غیر روایتی خطرات سے بڑا خطرہ ہیں لیکن نصابی کتب میں آفات سے درپیش خطرات اور ان سے متعلق قوانین کے بارے میں معلومات شامل نہیں۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد ایک آرڈیننس کے ذریعے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اٹھارٹی اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ اٹھارٹیز بنائی گئیں۔ اس قانون میں ایمرجنسی رِسپانس سسٹم کے ساتھ پوسٹ ڈیزاسٹرریکوری سسٹم بھی بنانا تھے لیکن یہ کام نہیں ہو سکا۔
ہر طرح کی ایمرجنسی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کیلئے عوام کی تربیت اور پیشگی اطلاع کا نظام انتہائی اہم ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب سکولوں میں بچوں و بچیوں کو سکاؤٹس اور گرل گائیڈز کی ٹریننگ دی جاتی تھی‘ جس میں یہ سکھایا جاتا تھا کہ ہر طرح کی ہنگامی صورتحال میں اپنی اور اپنے اردگرد موجود لوگوں کی مدد کس طرح کی جائے۔ اسی طرح ہائی سکول اور کالج کی سطح پر سال میں ایک مرتبہ ایک ہفتے کی شہری دفاع کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ نیشنل کیڈٹ کور کی تربیت کے ذریعے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ابتدائی طبی امداد کے علاوہ اپنا دفاع کرنے کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ذریعے فلاح عامہ (ٹریفک کے قوانین‘ خاندانی منصوبہ بندی‘ پرسنل ہائی جین‘پانی اور بجلی کی بچت وغیرہ) کے پیغامات چھوٹی چھوٹی نظموں‘ کہانیوں‘ اینی میٹڈ فلموں اور پتلی تماشا کی صورت میں بچوں اور عوام الناس تک پہنچائے جاتے تھے۔اب حال یہ ہے کہ ٹیلی وژن پر 24 گھنٹے نہ ختم ہونے والے مباحث جاری ہیں جن کا کمیونٹی اور بچوں کی تربیت سے کچھ لینادینا نہیں۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچر کی تباہی اور نکاسیٔ آب نہ ہونے کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں نے مسائل کو پیچیدہ تر کر دیا ہے۔ بیرونی امداد کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر بہت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اب وقت ہے کہ ڈیزاسٹر پروف انفراسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ دی جائے تاکہ مستقبل میں مختلف موسمیاتی آفات سے نمٹنے کیلئے بہتر طور پر تیار ہو سکیں۔آبی گزرگاہوں پر موجود تجاوزات کو ختم اور دیگر رکاوٹوں کو دور کریں۔ پانی کی نکاسی کامناسب سسٹم بنانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح آئندہ آنے والے سیلاب کا دورانیہ کم ہو جائے گااور انسانی جانوں‘ مال مویشی اورنقل مکانی سے ہونے والے نقصانات میں بھی کمی آئے گی۔ رواں برس موسم گرما میں ہونے والی بارشیں غیر معمولی ضرور تھیں لیکن ان کی وجہ سے آنے والی تباہی اس لیے زیادہ ہوئی کیونکہ پانی کے قدرتی راستے بندکر دیے گئے تھے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے پانی کی نکاسی سست روی کا شکار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آبی گزرگاہوں پر آبادیاں بنا دی گئی ہیں۔ قومی‘صوبائی اور ضلعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کی موجودگی کے باوجود مقامی لوگوں‘ اداروں اور سول سوسائٹی کی شمولیت کے بغیر ڈیزاسٹر کی روک تھام‘ نقصانات میں کمی اور بحالی مؤثر طور پر نہیں ہوسکے گی۔ سیلاب کے خطرے والے علاقوں میں آگاہی مہم چلائی جائے‘ مقامی لوگوں کو ان آفات سے بچاؤ کی تربیت دی جائے تاکہ وہ خطرات سے خود کو بچاسکیں گے اور نقصانات کم ہوں۔ ہر خاندان‘ گاؤں‘ شہر‘ تحصیل‘ ضلع اور صوبے کے پاس اپنا ڈیزاسٹر پلان ہو جس میں انخلا کا راستہ‘ ہنگامی مواصلات اور حفاظتی ہدایات شامل ہوں۔آگ زلزلہ‘ طوفان‘ سیلاب اور دیگر خطرات سے نمٹنے کیلئے مشقیں کرائی جائیں۔ گورنمنٹ ایمرجنسی ٹیلی کمیونی کیشن سروس شروع کی جائے جس کے ذریعے ہنگامی صورتحال کی پیشگی اطلاع لوگوں تک پہنچائی جا سکے۔ اس طرح خود انحصاری کے فروغ میں مدد ملے گی۔
ہنگامی صورتحال ختم ہونے کے بعد جائزے کے عمل کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ تباہی کے واقعے سے حاصل ہونے والے تجربے کو مستقبل کیلئے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے بہت سے پہلوؤں کو بہتر بنانے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ملک کا موجودہ اَرلی وارننگ سسٹم خستہ حال ہوچکاہے۔ محکمہ موسمیات کے پاس 20 سال پرانی ریڈار ٹیکنالوجی ہے۔ اگر موسمیاتی آفت کی تباہ کاریوں سے مؤثر اندا ز میں بچنا ہے تو اس نظام کو جدید نظام سے بدلنا ہوگا۔بھارت اور بنگلہ دیش میں سیلاب کے ممکنہ خطرات سے دوچار علاقوں میں لوگوں اور متعلقہ امدادی ایجنسیوں کو ان کے موبائل فون پر پانی کے خطرے کی سطح پر پہنچنے کی اطلاع دینے کیلئے سپیشل معلومات کے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بھی اس جانب توجہ کرنا ہوگی اورپالیسیوں پر عمل پر نہ کرنے والوں کی جوابدہی کیلئے سخت قانون بنانا ہو گا۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے عارضی انتظامات پر انحصار کرنے کے بجائے مکمل پالیسی سازی اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں آنے والی آفات کے بارے میں کم از کم 24 گھنٹے پیشتر مطلع کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے‘ متعلقہ محکموں میں بہتر رابطے کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہر طرح کی ہنگامی صورتحال سے مؤثر طور پر نبرد آزما ہواجاسکے۔
حکومت پاکستان کے پالیسی ساز ادارے 1951ء سے متحرک ہیں جب قدرتی آفات کا قوم کو سامنا کرنا پڑا۔ پالیسی ساز ادارے نئی پالیسیاں بنا کراپنے حصے کا کام کر جاتے ہیں مگر ان پالیسیوں پرعمل کرنے والے ادارے ہمیشہ سوالیہ نشان بنے رہتے ہیں۔ ان کوتاہیوں سے المیے بھیانک رخ اختیار کر لیتے ہیں۔ ان سے بچنے کے لیے ہمیں ان ممالک کی مثالوں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے جہاں سوشل ویلفیئر یا شہری دفاع کے ادار وں کو زیادہ مضبوط اور مؤثر بنانے کیلئے ان ممالک میں طالب علموں کو گریجوایشن کی سطح کی اسناد حاصل کرنے سے پہلے یا گورنمنٹ‘ سیمی گورنمنٹ یا رجسٹرڈ این جی اوز میں حصولِ ملازمت سے پہلے چند ہفتے‘ ماہ یا سال دو سال کی کامیاب خدمت و ٹریننگ کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوتا ہے۔ یہ تربیت یافتہ افراد ہنگامی صورتحال میں حکومتی و فلاحی اداروں کے شانہ بشانہ کام کرکے قوم کو مشکل سے نکالنے میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں