تخفیفِ اسلحہ کا عالمی ہفتہ

یہ جانتے ہوئے بھی کہ کسی بھی مسئلے کا حل جنگ نہیں‘ انسان صدیوں سے اپنے ہر مسئلے کا حل جنگ کے ذریعے ہی تلاش کرتا آیا ہے۔ جنگ کی خواہش وہ انسانی جبلت ہے جس پر تمام تر تہذیبی و سائنسی ترقی کے باوجود ابھی تک کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔ آج بھی دنیا بھر میں سالانہ 1.9 ٹریلین ڈالر دفاعی اخراجات پر خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب ہر 15 سیکنڈ میں ایک بچہ غذائی قلت سے مر جاتا ہے۔ 78 کروڑ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ناکافی پیش رفت کی وجہ سے انسان کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔ جنگ ایک انتہائی پیچیدہ سماجی رجحان ہے جس کی وضاحت کسی ایک عنصر یا کسی ایک نقطۂ نظر سے نہیں کی جا سکتی۔ انسان تاریخ کے صفحات جہاں تشدد‘ جارحیت اور جنگوں کی داستان سناتے ہیں‘ وہیں قیامِ امن کی خواہش‘ دنیا کو سب کے لیے محفوظ بنانے اور جنگ کے خوفناک نتائج کو محدود کرنے کی کوششوں کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔
ساتویں صدی قبل مسیح میں Amphictyonic league کے ذریعے یونانی شہری ریاستوں نے مشترکہ طور پر یہ طے کیا تھا کہ عبادت گاہوں پر حملے نہیں کیے جائیں گے اور جنگ کی صورت میں شہروں کو پانی کی فراہمی بھی منقطع نہیں کی جائے گی۔ 1675ء میں فرانس اور جرمنی نے تمام تر مخاصمت کے باوجود زہریلی گولیوں کے استعمال پر پابندی لگادی تھی۔ عالمی سیاسی نظام میں تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہوئے جنگ کے متعلق نظریات پچھلی تین صدیوں کے دوران کئی مراحل سے گزرے ہیں۔ اسلحہ پر کنٹرول اور تخفیفِ اسلحہ کی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن یہ تمام کوششیں جنگوں اور ہتھیاروں کی بے قابو ہوتی دوڑ پر قابو پانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔
عالمی امن کی تحریکوں کا باقاعدہ آغاز 19 ویں صدی میں ہوا۔ ریاستوں کے درمیان موجود تنازعات کے حل کے لیے 1899ء تا 1907ء کے دوران نیدر لینڈ کے شہر ہیگ میں امن کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا۔ ان کانفرنسوں میں تنازعات کے پُر امن حل اور تخفیفِ اسلحہ پر اتفاق نہ ہو سکا اور دنیا کو پہلی جنگ عظیم کی ہولناکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر تخفیفِ اسلحہ کے لیے کوششوں کا آغاز کیا گیا۔ 1925ء میں جنیوا پروٹوکول کے ذریعے زہریلی گیس اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی۔ جنیوا کے مختلف کنونشنوں نے بین الاقوامی انسانی قانون کی بنیاد رکھی جیسے جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک وغیرہ۔ تخفیفِ اسلحہ کی پہلی عالمی کانفرنس 1932ء میں ہوئی تاہم اس کانفرنس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے اور دنیا کو دوسری عالمی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جس کا اختتام ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد ہوا۔ یہ دونوں شہر آج بھی ایٹم بم کے مضر اثرات کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ عہدِ حاضر میں ملکوں کے پاس جو جوہری ہتھیار موجود ہیں وہ اگست 1945ء کے ایٹم بم سے کئی گنا زیادہ تباہ کن طاقت کے حامل ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا اور اسلحہ کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہوگئی۔ 1960ء کی دہائی میں فریقین کے درمیان جزوی نیوکلیئر ٹیسٹ پر پابندی کا معاہدہ طے پایا۔ 1968ء میں جو ہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ 1997ء میں کیمیائی ہتھیاروں کا کنونشن نافذ ہوا جس میں کیمیائی ہتھیاروں کو رکھنے پر پابندی عائد کی گئی۔ اکیسویں صدی میں تخفیفِ اسلحہ‘ ہتھیاروں کے کنٹرول اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کوروکنے کے لیے اقدامات تو کیے جا رہے ہیں لیکن 2001ء سے لے کر آج تک دنیا کے مختلف حصوں میں کشیدگی عروج پر ہے۔ یوکرین روس جنگ یورپ سمیت پوری دنیا کو متاثر کررہی ہے۔ جوہری جنگ کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ انسانیت ایٹمی جنگ کے تاریک سائے میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ جوہری جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور نہ ہی کبھی لڑی جانی چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی فریم ورک کے اندر رہتے ہو ئے باہمی تعاون کے ذریعے ہتھیاروں‘ خاص طور پر جوہری اسلحے کے پھیلاؤ کو مسترد کیا جائے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1978ء میں تخفیفِ اسلحہ کا ہفتہ منانے کی قرارداد پاس کی تھی۔ 24تا 30 اکتوبر تک اس ہفتے کو منانے کا مقصد تخفیفِ اسلحہ کے مسائل اور ان کی اہمیت کے بارے میں آگاہی اور بہتر تفہیم کو فروغ دینا ہے۔ 1995ء میں جنرل اسمبلی نے حکومتوں کے ساتھ این جی اوز کو بھی دعوت دی کہ وہ تخفیفِ اسلحہ کے ہفتہ میں فعال حصہ لیتی رہیں تاکہ تخفیفِ اسلحہ کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے انسانیت کو لاحق خطرات تشویش کا باعث ہیں۔ اسلحے کی غیر قانونی تجارت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نیوکلیئر و روایتی ہتھیاروں اور سائبر وار فیئر سے دو چار ہماری دنیا میں امن و سلامتی‘ انسانی جانوں کے تحفظ‘ ریاستوں کے درمیان اعتماد کو فروغ دینے‘ مسلح تصادم کو روکنے اور ایک مؤثر اجتماعی سلامتی کے نظام کے قیام کے لیے ہتھیاروں کی بے قابو ہوتی دوڑ پر کنٹرول اور تخفیفِ اسلحہ نہایت اہم ہے۔ اقوامِ متحدہ اور اس کے مختلف ذیلی اداروں کے ذریعے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات تو کیے جارہے ہیں لیکن یہ اقدامات صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکیں گے جب دنیا کے سب ممالک کے درمیان برابری کی سطح پر تعلقات کو استوار کیا جائے گا۔
دنیا کی بڑی طاقت امریکہ اپنی تکنیکی برتری کھونا نہیں چاہتا۔ بین الاقوامی معاہدوں کے پابند ہونے سے ہتھیاروں کی نئی ٹیکنالوجی جیسے میزائل ڈیفنس‘ ڈرونز اور Precision-guided munition میں اس کی تکنیکی برتری متاثر ہوگی۔ اس کا یہ عمل دنیا کے دوسرے ملکوں کو اپنے دفاع کو مضبوط کرنے اور اپنی سکیورٹی کے لیے ہتھیاروں کی دوڑ میں دھکیل رہا ہے۔ یورپ اس وقت جنگ کے دہانے پر ہے‘ یوکرین روس جنگ کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ توانائی کے بحران کا خدشہ بڑھ رہا ہے‘ پوری دنیا میں غذائی اجناس کی قلت اور اقتصادی کساد بازاری نے معیشتوں کو کمزور تر کر دیا ہے۔ غربت افلاس اور بھوک کے دلدل میں انسان تیزی کے ساتھ دھنستا جارہا ہے۔ قرن افریقہ میں خشک سالی سے قحط کا خطرہ بڑھ رہا ہے جس سے 36 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوں گے۔ دنیا کے متعدد خطوں خصوصاً جنوبی ایشیا میں عدم اعتماد میں اضافے اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر امن و سلامتی کو مستحکم کرنے کے لیے تخفیفِ اسلحہ کے علاقائی نقطۂ نظر نے زیادہ مطابقت اور اہمیت اختیار کر لی ہے۔ بین الاقوامی امن و سلامتی کا انحصار علاقائی استحکام پر منحصر ہے۔
جنوبی ایشیا 1ارب 99کروڑ آبادی کا گھر ہے اور اس کی 29فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے‘ اگر اس خطے کے ممالک اپنے عوام کے وسیع تر مفاد میں اپنے تنازعات کو گفت و شنید کے ذریعے سے حل کر لیں تو اپنی عوام کی فلاح و بہبود پر وہ سرمایہ خرچ کر سکیں گے جو اسلحے کی خریداری پر خرچ ہو جاتا ہے۔ دنیا کے گلوبل ویلیج بن جانے کے بعد دھرتی کے کسی بھی خطے میں جنگ محلے میں لگی خطرناک آگ کی طرح بن گئی ہے جو ہوا کا رخ تھوڑا تبدیل ہونے سے کسی بھی وقت آپ کے گھر کا رخ کر سکتی ہے۔ اس لیے اب یہ دھرتی اور اس پر بسنے والے انسان ایٹمی ہتھیاروں کی ڈیپوزکے سامنے فساد کو برداشت کرنے کی طاقت کھو چکے ہیں‘ لہٰذا یہ وقت اسلحے میں جدت پیدا کرنے یا اس پر پیسہ خرچ کرنے کے بجائے موجود جوہری تجربات اور خطرات پر قابو پانے اور امن‘ ترقی و خوش حالی کے نئے اُفق تلاش کرنے کا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں