بڑی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے پچھلی چار دہائیوں سے افغانستان میں ہونے والی تباہی‘ جنگ کی وجہ سے عراقی عوام کی خوشحال زندگی کا غربت میں بدل جانا‘ بیرونی طاقتوں کی مداخلت سے یمن اور شام میں جاری مستقل خانہ جنگی‘ افریقہ کی بڑھتی ہوئی غربت‘ فلسطین اور کشمیر کے عوام پر انسانیت سوز مظالم‘ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے سائے‘ جس ہلچل اور اضطراب کا سامنا اس وقت مسلم دنیا کو ہے اور تیسری دنیا کے غریب و مظلوم عوام جن سماجی و اقتصادی ناہمواریوں کا شکار ہیں ایسے میں پیغامِ اقبال کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اقبال نو آبادیاتی عہد کے شاعر تھے‘ آج نو آبادیات تو ختم ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود تیسری دنیا کے مظلوم عوام کے مسائل ختم یا کم ہونے کے بجائے مزید گمبھیرہوتے جا رہے ہیں۔ اقبال کا پیغام آج بھی مشعلِ راہ کی مانند ہے مگر تیسری دنیا کے مظلوم عوام اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے باوجود بھی یقینِ محکم‘ عملِ پیہم‘ محبت فاتحِ عالم‘ جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں‘ پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔
اقبال حرکت و عمل کے قائل تھے اور وہ شاعری کے میڈیم کو استعمال کرتے ہوئے مسلم امہ کو جہدِ مسلسل کی تلقین کرتے رہے۔ آپ کی شاعری فطرت کی جانب سے عطا کردہ عقل و دانش‘ مشاہداتِ عالم‘ مطالعہ علوم کا مشترکہ ثمر ہے‘ جب قومی حیثیت سے عوام نے اسے اپنا نصب العین بنا کر زندگی گزارنا شروع کی اس کے مثبت نتائج آنا شروع ہوئے‘ جن ریاستوں نے مستقل مزاجی کے ساتھ سلسلہ جاری رکھا وہ آج خود کفیل ہیں مگر جن مسلم ریاستوں کے ہاں ان نظریات پر عملیت کا فقدان رہا ان کی معاشی‘ سیاسی‘ سماجی صورتحال بہتری کے بجائے ابتری کا شکارہے۔ اقبال کے نزدیک اس ابتری کے اسباب میں سے ایک اہم سبب دیانتدار اور مستقل مزاج لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ اقبال کے مردِ مومن کی اساس Binary opposite پر استوار ہے‘ اس تضاد کے امتزاج سے وہ پیکر نو کی تشکیل کرتے ہیں:
مری نظر میں یہی ہے جمال زیبائی
کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک
نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتشناک
اقبال نے جہدِ مسلسل کا درس دیا۔ بے عملی انفرادی اور قومی صلاحیتوں کو نیست و نابود کردیتی ہے۔ وہ کامیاب زندگی کے لیے معاشیات کی اہمیت سے انکاری نہیں تھے‘ یہی وجہ ہے کہ 1903ء میں ان کی جو پہلی تصنیف منظر عام پر آئی وہ اقتصادیات کے موضوع پر تھی۔ اقبال قوم کے سیاسی مسائل کے ساتھ اس کی معاشی بدحالی کے تدارک کو اہم جانتے تھے۔ وہ مسلمانوں کو اسلام کے اقتصادی نظام کا مطالعہ کرنے کی طرف راغب کرنا چاہتے تھے۔ اقبال یہ جانتے تھے کہ اس اعتبار سے اسلام ایک بڑی نعمت ہے۔ مغرب کے اقتصادی نظام سے متاثر ہونے کے بجائے ہمیں قرآن پاک کی اقتصادی تعلیم پر غور کرنا چاہیے کیوں کہ تمام مشکلات کا حل اور سوالوں کے جواب اس کتاب میں موجود ہیں۔ اقتصادی حالت کو سنوارے بغیر ترقی ممکن نہیں‘ اسلام معاشی مشکلات کا کہیں زیادہ قابلِ عمل حل تجویز کرتا ہے۔ پیامِ مشرق‘ جاوید نامہ‘ بال جبریل کی نظموں میں معاشی مسائل کا گہرا شعور ملتا ہے۔ اقبال ملوکیت‘ جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر انسانیت کی تذلیل خود دیکھ رہے تھے اس لیے وہ ان نظاموں کے خاتمے کے متمنی تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اشتراکیت خود غرضانہ سرمایہ داری کے خلاف ایک ردِ عمل تو ہے لیکن یہ معاشی مسائل کا حل پیش نہیں کر سکتی کیوں کہ اشتراکیت اور سرمایہ داری افراد و تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآنِ حکیم نے ہم کو بتائی ہے۔
اندرونی اختلافات‘ مشکلات اور تفرقے پر قابو پاکر ہی بیرونی خطرات سے نمٹا جا سکتا ہے۔ اقبال نے تیسری دنیا کی مظلوم اقوام کے لیے بالعموم اور بلادِ اسلامیہ کے لیے بالخصوص خود انحصاری‘ تخلیقی صلاحیت کو اجاگر کرنے اور تحقیقی جوہر کو بروئے کار لانے پر زور دیا۔ بابائے قوم محمد علی جناح نے علامہ اقبال کے لیے کہاکہ ''اقبال کی ادبی شخصیت عالم گیر ہے‘ وہ بڑے ادیب‘ بلند پایہ شاعر اور مفکر اعظم ہیں۔ میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا‘‘۔ اقبال کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ مختلف علوم کے علاوہ انہوں نے فارسی شعر و ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اس مطالعے کی گونج ان کے اردو اور فارسی کلام میں سنائی دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں گہرے تفکر اور حکیمانہ نظر کے ساتھ نکھری ہوئی زبان شگفتہ و رنگین تراکیب اور لب و لہجے کی بلند آہنگی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اقبال انسانیت و اخوت‘ حرکت و عمل‘ اخلاق و استقلال‘ عزم وحوصلہ‘ جرأت و ہمت کے پیامبر ہیں۔ ان کی فکر و پیام کی تشکیل میں بہت سے عناصر مثلاً قرآن کر یم کا مطالعہ‘ سیرت محمدی سے عشق اور مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی معنوی کار فرما ہیں۔ اقبال اور رومی کے درمیان فکری اشتراک بھی موجود ہے۔ اقبال کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو رومی کے ذکر سے خالی ہو۔ سنائی‘ عطار اور رومی تو اس سلسلہ الذہب کی کڑیاں ہیں جس کے ساتھ اقبال بے حد ارادت رکھتے ہیں۔ علامہ نے رومی‘ حافظ‘ عطار و سنائی کے لہجے میں جب اپنا پیغام دیا تو نہ صرف ان کا حلقہ اثر وسیع ہوا بلکہ ان کے کلام میں ایک خاص قسم کی داخلی فضا پیدا ہوگئی ہے جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایسی استقامت بخشی کہ وہ اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے ایک الگ و آزاد ملک کے حصول میں کامیاب ہوئے۔
اقبال کا زاویۂ نگاہ عالم گیر اور فکر انسانیت ساز اصولوں پر استوار ہے۔ وہ مغرب کے عیوب و خوبیوں سے با خوبی واقف اور ان کے مداح تھے۔ اقبال چاہتے تھے کہ مسلمان وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کریں۔ علم مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں سے ملے‘ لے لیں چاہے فرنگ میں ہو یا چین میں۔ مسلمانوں کو علم و تحقیق کی طرف مائل ہونا چاہیے۔ علم و فن میں یورپ کی ترقی و کمالات اقبال کی نظر سے اوجھل نہ تھے۔ مغرب کے حاصل کردہ کمالات کچھ اسی نظریۂ حیات کی بدولت تھے جسے اقبال اسلامی سمجھتے تھے لیکن دین سے بے تعلق ہونے کی وجہ سے نفسانفسی کی جس نئی اخلاقیات کو یورپ کی صنعتی ترقی نے جنم دیا ہے وہ انسانیت کے لیے زہر قاتل ہے۔ اقبال کو مغرب کی ترقی و تہذ یب کبھی بھی مرعوب نہ کر سکی:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ افرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
ان کا شمار تبھی تو بیسویں صدی کے نامور اور آفاقی شعرا میں کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی شعریت اور فلسفیانہ فکر سے کم و بیش ساری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ ہمیں اکیسویں صدی میں بھی ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جس کی فکر علامہ اقبال کی فکر سے بلند اور بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہو۔ اس لیے اکیسویں صدی بھی اب تک علامہ اقبال کی ہی صدی ہے۔ شاعر قوم کی انفرادی زندگی کو سنوارنے کے علاوہ اس کے سیاسی رویوں کی تشکیل کرکے مجموعی حیات پر حیرت انگیز اثرات مرتب کرتا ہے اور قوم اس کی فکر سے براہِ راست مستفید ہوتی ہے۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود شیکسپیئر‘ ملٹن‘ کیٹس‘ ورڈس ورتھ‘ رومی‘ سعدی‘ حافظ شیرازی‘ کالی داس‘ درد‘ میر اور غالب کی عظمت نہیں دھندھلائی۔ اقبال اپنے ہم عصر شعرا سے انفرادی فکر رکھنے کی بنا پر صحیح معنوں میں عہد آفریں شاعر ہیں۔ ان کا کلام قاری کی خوابیدہ صلاحیتوں کو تلاش کرنے اور پھر انہیں عملی زندگی میں کچھ کرنے پر اکساتا ہے‘ جس بھی ریاست کے رہبروں نے اس نقطے کو سمجھ لیا اور عمل پیرا ہوئے تو نہ صرف وہ اپنی عوام کومظلومیت کے دائرے سے جلدی باہر نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ ان کی آئندہ نسلوں کا مستقبل تابناک ہوگا۔