عالمی اردو کانفرنس

چار موسموں‘ بلند و بالا پہاڑوں‘ سر سبز و شاداب میدانوں‘ ریگستان‘ سطح مرتفع پر واقع ہزاروں سال قدیم صنوبر کے جنگلات اور خوب صورت ساحلوں کا حامل ہمارا ملک پاکستان‘ یہ سرزمین بابا فرید‘ شاہ عبد اللطیف بھٹائی‘ سچل سرمست‘ شاہ حسین‘ بلھے شاہ‘ شاہ عنایت‘ مست توکلی‘ رحمان بابا جیسے انسانیت‘ محبت اور امن کا پیغام دینے والے عظیم صوفیا کی شاعری کی امین ہے۔ پاکستان وہ خطہ ہے جہاں 74سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں‘ ان زبانوں کے ساتھ منسلک تہذیب‘ ثقافت اور ادب پاکستان کو ایک ایسا خوش رنگ گل دستہ بنا دیتے ہیں جو منفرد بھی ہے اور ہزاروں سالہ انسانی تاریخ کا امین بھی۔ پاکستان میں بولی جانے والی تقریباً سب زبانوں کا تعلق زبانوں کے ہند آریائی خاندان سے ہے‘ ماسوائے براہوئی جو زبانوں کے دراوڑی خاندان کی شاخ ہے۔ اردو ہماری قومی اور رابطے کی زبان ہے‘ ملک بھر کے ہر علاقے میں اردو سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران یہی وہ زبان تھی جس نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو متحد کیا اور ایک آزاد ملک کے حصول کی تحریک کو کامیاب بنایا۔
ادب اپنے قاری کو دنیا کو ایک مختلف نقطۂ نظرسے دیکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ جس سے محبت‘ امن اور برداشت جیسی مثبت اقدار فروغ پاتی ہیں۔ معاشرے میں موجود کشمکش‘ عدم برداشت‘ تنازعات کے خاتمے اور ترقی کے لیے ادب انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ موجودہ Tech Savvy دنیا‘ جہاں تفریح اور معلومات کے حصول کے وسیع ذرائع موجود ہیں لیکن معاشرے میں ادب کی اہمیت مسلم ہے۔ ادب نہ صرف مستقبل کی طرف ہماری سوچ کے عمل کو تیز رفتاری سے ٹریک کرتا ہے بلکہ وقت میں واپس لے جانے کی زبردست صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ادب و فنونِ لطیفہ انسان میں دردِ دل اور ہمدردی جیسے جذبات کی نمو کرتے ہیں۔ بقول شاعر: دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو؍ ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں۔ یہ احساس ہی ہے کہ جس کے بغیر انسان اور روبوٹ میں فرق ممکن نہیں۔
آرٹس کونسل آف پاکستان (کراچی) کا قیام 1954ء میں عمل میں آیا۔ یہ آرٹس کونسل ہر دور اور ہر طرح کے ملکی حالات میں نہ صرف متحرک رہی بلکہ اس نے فنونِ لطیفہ کے ذریعے معاشرے کو Enlighten کرنے کے اپنے مقصد کو کبھی پس پشت نہیں ڈالا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی گزشتہ 14برسوں سے مسلسل عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کرتی آئی ہے۔ اپنی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے یکم تا چار دسمبر 2022ء کو پندرہویں عالمی اردو کانفرنس منعقد کی گئی۔ تسلسل جہاں اس عالمی اردو کانفرنس کا خاصہ ہے وہیں مختلف علمی‘ لسانی و ادبی موضوعات پر ہونے والے مباحث نسلِ نو کو اپنے ادبی ورثے اور کلچر سے متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ آرٹس کونسل آف پاکستان‘ کراچی کی گورننگ باڈی نے گزشتہ چند برسوں سے اس کانفرنس کے دائرے کو وسیع کیا ہے۔ اب عالمی اردو کانفرنس میں پاکستان میں بولی جانے والی دیگر زبانوں اور ان کے ادب پر بھی سیشن منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس طرح آرٹس کونسل پورے ملک کے Intellectualsکو مکالمے اور مباحثے کا پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ مکالمہ ہی وہ ذریعہ ہے جو ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے اور اختلافِ رائے کے احترام و برداشت کا سبب بناتا ہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی مذکورہ کانفرنس میں 45 سے زیادہ علمی سیشن رکھے گئے تھے۔ افتتاحی اجلاس میں اردو اور پاکستان میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کے کہنہ مشق ادبا کے درمیان سٹیج پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیر ثقافت سردار شاہ بھی موجود تھے۔ زہرا نگاہ‘ جن کا شمار اردو کے معتبر شعرا میں ہوتا ہے‘ نے افتتاحی اجلاس میں ملکی صورت حال پر فکر انگیز گفتگو کی۔
اکیسویں صدی‘ جس کے بائیسویں برس کے اختتام میں چند روز ہی باقی ہیں‘ ان بائیس برسوں میں رونما ہونے والے واقعات میں Twin Towers پر ہونے والے حملے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس کے جواب میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کے نتیجے میں ہمارے ملک میں دہشت گردی کی لہر نے لاکھوں جانیں لے لیں۔ عراق‘ لیبیا‘ یمن اور شام میں جنگ‘ کورونا وائرس کی وبا‘ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے غذائی اجناس کی قلت‘ کساد بازاری اور موسمیاتی تبدیلی نے پوری دنیا خاص طور پر غریب ممالک کو بہت متاثر کیا ہے۔ سماج کی بدلتی ہوئی روایات‘ ہجرت‘ عدم مساوات‘ بے حسی‘ تصادم‘ تنازعات‘ ماحولیاتی مسائل‘ حیاتیاتی تنوع کو نقصان‘ دور اندیشی کا فقدان اور مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ہونے والی بے روزگاری وغیرہ ایسے چیلنجز ہیں جن کا سامنا اکیسویں صدی کے انسان کو ہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کی عالمی اردو کانفرنس میں یہ اجاگر کیا گیا کہ اکیسویں صدی کے دوران عالمی و علاقائی سطح پر رونما ہونے والے اِن واقعات اور رجحانات نے کس طرح اس گلوبل ویلیج میں بسنے والے انسان کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر متاثر کیا ہے اور ہمارے ادبا و شعرا کی تخلیقات میں یہ رجحانا ت کس حد تک منعکس ہو رہے ہیں۔ پُروقیع مقالات پیش کیے گئے اور ہر سیشن کے بعد سوال و جواب کے سلسلے نے ماحول کو Productiveبنا دیا۔
اردو کا تقدیسی ادب (حمد‘ نعت‘ رثائی ادب)‘ اقبال اور قوم‘ عروض‘ فکشن‘ شاعری‘ صحافت‘ اردو کی نئی بستیاں‘ بچو ں کا ادب‘ پاکستان میں تعلیم کی صورت حال‘ خواتین اور ہمارا سماجی رویہ‘ تنقید‘ نیا میڈیا نئے تقاضے اور فنونِ لطیفہ کے حوالے سے مختلف سیشن میں ماہرین نے خیالات کا اظہار کیا۔ اردو کے علاوہ پاکستان کی دیگر زبانوں سندھی‘ پنجابی‘ سرائیکی‘ بلوچی اور پشتو ادب میں اکیسویں صدی کے بدلتے رجحانات کے موضوع پر سیشنز میں سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ کانفرنس کے چاروں دن کتابوں کی رونمائی کے سیشنز کا اہتمام کیا گیا تھا جن میں کئی کتابوں کی رونمائی کی گئی‘ ان سیشنز میں نوجوانوں کی دلچسپی دیدنی تھی۔ یادِ رفتگاں کے زیر عنوان اس جہاں فانی سے کوچ کر جانے والے ادبا کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ مشاعرے اور قوالی کی محفل نے سماں بند دیا۔ کتابوں کے سٹالوں پر نوجوانوں کا ہجوم دیکھ کے یہ تسلی ہوئی کہ ہماری نئی نسل درست سمت میں گامزن ہے۔ جس قوم کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتاب ہو تو اس قوم کو ترقی سے نہیں روکا جا سکتا۔ کانفرنس کے اختتام پر 14قرادادیں منظور کی گئیں جن میں اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانے کے لیے اقدامات‘ لائبریری کلچر کے فروغ‘ پرنٹ پیپر کی دستیابی اور تعلیمی نظام میں مزید بہتری کے لیے اقدامات پر زور دیا گیا۔
احمد شاہ جب سے آرٹس کونسل کے صدر منتخب ہوئے ہیں‘ نہ صرف آرٹس کونسل کی ادبی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ کونسل نے مختلف الجہات کام کیے ہیں۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کی مہم ہو یا حالیہ سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی مدد‘ ہر فورم پر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی متحرک ہے۔ ادب و فنونِ لطیفہ کے حوالے سے آرٹس کونسل میں اس سال تقریباً 500 سے زائد پروگرام منعقد کیے گئے۔ سالانہ عالمی اردو کانفرنس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اردو اور پاکستان کی دیگر زبانوں کے ادب کے فروغ کے لیے جس طرح احمد شاہ اور ان کی ٹیم کا م کر رہی ہے‘ وہ قابل ستائش ہے۔ ایسے وقت میں جب ہماری سوسائٹی پر پروپیگنڈا کی یلغار ہے اور ہم 5th Generation Warfare سے نبرد آزما ہیں‘ ایسے میں اس طر ح کی سرگرمیوں کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں