ڈیورنڈ لائن

پاکستان کی مغرب میں افغانستان کے ساتھ 2670کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بسنے والے پختون قبائل میں سے 17سے زائد قبائل ایسے ہیں جو سرحد کی دونوں جانب آباد ہیں۔ چمن میں تو حال یہ ہے کہ گھر کا مرکز ی دروازہ پاکستان میں ہے تو اس کا پچھلا دروازہ افغانستان میں کھلتا ہے۔ اس طرح کی ناہموار سرحد کی وجہ سے اس علاقے میں غیر قانونی تجارت‘ آمدورفت اور سمگلنگ بھی عروج پر رہی ہے۔
1893ء میں حکومت برطانیہ کے نمائندہ سر ہنری مورٹیمر ڈیورنڈ اور افغانستان کے حکمران امیر عبدالرحمن کے درمیان ایک سرحدی معاہدہ طے پایا جس کے تحت حکومت برطانیہ نے امیر عبدالرحمن کو 12لاکھ روپے کی سبسڈی اور واخان کوریڈور دے کر برطانوی ہندوستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی لکیر واضح کی اور اس طرح برطانیہ زارِ روس کو اپنی سلطنت سے دور رکھنے میں کامیاب رہا۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے ڈیورنڈ لائن افغانستان اور پاکستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد ہے‘ لیکن پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود کبھی بھی یہ سرحد دوستانہ نہیں رہی۔
اکثر ممالک میں جب جنگ چھڑ جاتی ہے تو ایسی صورتحال میں اکثر پڑوسی ممالک اپنی سرحدیں نہ صرف بند رکھتے ہیں بلکہ ان پر نگرانی مزید سخت کر دیتے ہیں تاکہ اپنے ملکی حالات کو بگڑنے سے بچایا جا سکے اور جو ممالک انسانی بنیادوں پر اپنی سرحدیں کھولتے بھی ہیں‘ وہ سرحد کے ساتھ ہی مہاجرین کے لیے عارضی کیمپس اور بستیاں قائم کر دیتے ہیں۔ 1979ء میں افغانستان میں روسی فوجوں کے داخلے کے بعد افغان مہاجرین جب ایران گئے تو ایرانی حکومت نے انسانی بنیادوں پر ان مہاجرین کے لیے اپنی سرحد کے قریب خیمہ بستیاں قائم کرکے ان کو ان بستیوں تک محدود رکھا۔ اسی طرح شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران شامی مہاجریں کے لیے ترکیہ حکومت نے سرحد کے ساتھ شام کی سرزمین پر خیمہ بستی بنائی اور ان شامی مہاجرین کو وہیں قیام و تحفظ فراہم کیا۔ حالیہ دنوں میں یوکرین اور روس جنگ کے دوران ہزاروں یوکرینی مہاجرین پولینڈ‘ جرمنی‘ ہنگری اور رومانیہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں تو ان ممالک نے ان مہاجرین کو انسانی بنیادوں پر پناہ تو ضرور دی ہے لیکن انہیں مخصوص علاقوں تک ہی محدود رکھا گیا ہے تاکہ حالات ٹھیک ہوتے ہی ان کو بخیریت واپس اپنے ملک بھیجا جا سکے۔
دوسری طرف سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان نے نہ صرف اپنی سرحد افغان مہاجرین کے لیے کھول دی تھی بلکہ پاکستانیوں نے تمام شہروں میں ان مہاجرین کے ساتھ اپنائیت کا اظہار کیا جس کی وجہ سے یہ مہاجرین پورے ملک میں ہر جگہ بہ آسانی آ جا سکتے ہیں۔ اس طرح کی سہولتیں دنیا میں کہیں بھی مہاجرین کو حاصل نہیں ہوتیں جو حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام نے اپنے افغان بہن بھائیوں کو دیں۔ سوویت فوجوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد افغان مجاہدین کی حکومت کے قیام سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب دونوں برادر ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار ہوں گے لیکن 1993ء میں سکول بس ہائی جیکنگ کے واقعے نے صورتحال کو غیر یقینی بنا دیا۔ 1994ء میں جب افغان طالبان نے افغانستان میں حکومت قائم کی تو ایک بار پھر امید جاگی کہ اب ہماری مغربی سرحد محفوظ ہوگئی ہے لیکن نائن الیون کے بعد امریکہ کے افغانستان پر حملے سے حالات یکسر بدل گئے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی ایسی لہر آئی جس نے ہزاروں مظلوم شہریوں کی جانیں لیں۔ کئی خاندان بے گھر ہوگئے‘ کئی والدین کو اپنے اولاد کی جدائی کا غم سہنا پڑا‘ کئی لوگ معذور ہوگئے‘ اَن گنت خواتین بیوہ ہو گئیں اور کئی مظلوم بچے یتیم ہو گئے۔ ہماری سکیورٹی فورسز کے جوان جو اپنے ملک اور ہم وطنوں کی حفاظت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں‘ وہ جوان و افسران بھی تو کسی کے بیٹے‘ کسی کے بھائی اور باپ ہونے کے ناتے خاندان کا سہارا ہوتے ہیں‘ ایسے ہزارہا جوانوں نے ملک میں قیامِ امن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ سوات میں قیام امن کے لیے حکومت نے جب فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا تو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی شروع ہوئی‘ 20 لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے‘ جن میں سے اکثریت نے لوئر دیر‘ مردان اورصوابی میں بنائے گئے مہاجر کیمپوں میں پناہ لی جس کی وجہ سے انہیں اپنے ہی وطن میں بے بسی کے عالم میں بنیادی ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سوات میں ہونے والے فوجی آپریشن کے علاوہ‘ ضربِ عضب اور ردالفساد کے نام سے کیے جانے و الے آپریشنزکے ذریعے قبائلی علاقوں سے ملک دشمن عناصر کا خاتمہ کرکے ملک میں امن و استحکام کے قیام کے لیے ہماری آرمڈ اور سول فورسز نے جو قربانیاں دیں‘ ایسی مثالیں انسانی تاریخ میں بہت کم ملتی ہیں۔ ان تمام آپریشنز کی وجہ سے 2017ء سے ملک کے حالات میں کچھ بہتری آنا شروع ہوئی اور امن بحال ہوا۔ 2021ء میں امریکی فورسز کے افغانستان سے انخلا اور ایک بار پھر کابل میں طالبان کی حکومت کے قیام پر پاکستان میں کئی حلقوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان نے 1979ء سے لے کر اب تک مسلسل افغانستان میں قیام امن اور افغان مہاجرین کی اپنے ملک باعزت واپسی کے لیے ہر عالمی فورم پر آواز اٹھائی ہے‘ چاہے اسلامی تعاون تنظیم ہو یا اقوام متحدہ کا فورم یا دوحہ مذاکرات‘ ہر جگہ پاکستان نے افغانستان کے حق میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ آج بھی 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے لیکن ماضی کی طرح اب بھی‘ افغان طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں تیزی آچکی ہے۔ بنوں اور جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح نومبر میں پاکستانی ناظم امور پر کابل میں قاتلانہ حملہ ہو یا چمن و طورخم بارڈر پر کشیدگی میں مسلسل اضافہ‘ یہ اشارے کسی بڑے گیم پلان کے آغازکا پتا دے رہے ہیں۔
افغانستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کابل میں چاہے ظاہر شاہ کی حکومت ہو یا ڈاکٹر نجیب اللہ کی یا طالبان کابل کے حکمران رہے ہوں‘ یہ سبھی ڈیور نڈلائن کو بین الاقوامی سرحد ماننے سے انکاری رہے ہیں۔ اب جبکہ پاکستان نے پچاس کروڑ ڈالر کی لاگت سے سرحد پر باڑ لگائی ہے تاکہ دہشت گردوں اور غیر قانونی تجارت کو روکا جا سکے تو طالبان فورسز نے نہ صرف اس طویل باڑ کو کئی مقامات سے اکھاڑ دیا ہے بلکہ جب اس باڑ کی مرمت کی کوشش کی گئی تو طالبان کی طرف مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ چمن کے علاقے شیخ لعل محمد سیکٹر میں باڑ کی مرمت پر افغان فورسز نے پاکستانی شہری آبادی پر برملا مارٹر گولے اور آرٹلری سے فائر کھول دیا‘ جس کے نتیجے میں 8شہری شہید اور 20سے زیادہ زخمی ہو گئے۔
بلوچستان میں پاک افغان سرحد پر کشیدگی اور صوبے بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں سے عام شہری پریشان ہیں کہ اتنی زیادہ جانی و مالی قربانیوں کے بعد ٹھیک ہونے والے حالات پھر سے بے قابو ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ آرمی پبلک سکول کے المناک سانحے کے بعد متفقہ طور پر بنائے جانے والے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد کرنے میں کوئی کمی تو نہیں رہ گئی؟ یا ملکی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ یہ ملک دشمن قوتیں دوبارہ فعال ہو رہی ہیں۔ یہ ملکی سالمیت و بقا کے لیے سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ اور پالیسی ساز اداروں کے لیے مشترکہ لمحۂ فکریہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں