ریاست کا اولین فرض اپنے عوام کو صحت‘ تعلیم اور روزگار کے مواقع بہم پہنچانا ہوتا ہے تاکہ پائیدار سماجی ترقی ممکن ہو سکے؛ تاہم ترقی پذیر ممالک میں صحت‘ تعلیم اور آمدنی کے ذرائع کو بہتر بنانے کے لیے غیرسرکاری تنظیموں اور پبلک پرائیویٹ شراکت داری کی اہمیت ماضی کے مقابلے میں بہت بڑھ گئی ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس عہد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کے وسائل میں بڑھتی ہوئی کمی کو پورا کرنے کے لیے این جی اوز اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی مشترکہ کوششیں سماجی بہبود کے لیے نئے آئیڈیاز اور حکمت عملی تیار کرنے کے لیے ناگزیر ہوتی جا رہی ہیں۔ پبلک سیکٹر منافع بخش اور غیرمنافع بخش تنظیموں کے ساتھ شراکت قائم کرکے بہتر کام کر سکتا ہے کیونکہ ان تینوں شعبوں میں تکمیلی طاقت پنہاں ہے جسے یکجا کرکے سماجی ترقی کے لیے مالیاتی بنیاد کو وسیع کیا جا سکتا ہے۔ سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان شراکت داری کا مطلب سماجی ترقی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں اور فوائد کے ساتھ ذمہ داریوں کا اشتراک بھی ہے۔ عالمی سطح پر 18ویں صدی کے اواخر میں غیرسرکاری تنظیموں کا قیام عمل میں آیا اور 1914ء تک ایک اندازے کے مطابق 1083این جو اوز موجود تھیں۔ ان غیرسرکاری اور رضا کارانہ تنظیموں نے غلامی کے خاتمے اور خواتین کو حقِ رائے دہی دینے کے لیے کامیاب مہم چلائی اور 1932-34ء کے دوران عالمی تخفیفِ اسلحہ کانفرنس کا انعقاد انہی تنظیموں کی کاوشوں سے ممکن ہوا تھا۔ فلاحی و آگاہی تنظیموں کے لیے این جی اوز کی اصطلاح اقوامِ متحدہ کے قیام کے ساتھ مقبول ہوئی۔ یو این کے چارٹر کا آرٹیکل 71ان تنظیموں کے لیے مشاورتی حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ برِ صغیر پاک و ہند میں فلاحی و سماجی تنظیموں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مسلمانوں کی سماجی ترقی اور تعلیم کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں جیسے علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی‘ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘ سندھ محمڈن ایسوسی ایشن وغیرہ کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
قیامِ پاکستان کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی اور نوزائیدہ ملک کی سماجی ترقی میں ان رضاکارانہ تنظیموں نے اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ اس وقت این جی اوز کے طور پر ان تنظیموں کو نہیں جانا جاتا تھا۔ انہی رضاکارانہ تنظیموں نے ملک میں آنے والے بے سروسامان مہاجرین کی آبادکاری‘ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اَنتھک محنت کی۔ مسلم لیگ کی خواتین ونگ نے مادرِ ملت فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی کی سربراہی میں مہاجرین کی خیمہ بستیوں میں صحت‘ صفائی‘ خوراک اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے شبا نہ روز کام کیا۔ بیگم رعنا لیاقت علی نے 1949ء میں ''آل پاکستان وومنزایسوسی ایشن‘‘ (APWA) کی بنیاد رکھی اور ملک کے 54 چھوٹے بڑے شہروں میں اس کی برانچز قائم کی گئیں ۔ ''اپوا‘‘ کا مقصد ملک کی ترقی میں خواتین کی شراکت کو بڑھانا اور ان کی سیاسی‘ سماجی‘ قانونی اور اقتصادی حیثیت میں بہتری کے لیے کام کرنا تھا۔ اپوا نے شہروں کی مضافاتی آبادیوں میں بسنے والی خواتین کو آمدن اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے پیشہ ورانہ تربیت دینے کے علاوہ بچیوں کے لیے سکول اور ملازمت کرنے والی ماؤں کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ڈے کیئر سنٹر بھی قائم کیے۔
1965ء کی جنگ کے بعد ایک بار پھر غیر سرکاری تنظیموں نے جنگ زدہ علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی مدد کے لیے بھرپور کام کیا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار لاہور میں آل پاکستان دستکاری نمائش کا اہتمام این جی اوز کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔ اس ضمن میں معروف ادیبہ اور سماجی کارکن بیگم اختر ریاض الدین (1928-2023ء)کی قائم کردہ بہبود ایسوسی ایشن کے کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ ایسوسی ایشن کم آمدنی والے گھرانوں کی خواتین کو سلائی‘ کڑھائی اور دیگر دستکاریوں کی تربیت دینے کا اہتمام کرتی تھی۔ بیگم اختر ریاض الدین پاکستانی خواتین کے لیے معیاری تعلیم‘ سستی صحت کی خدمات اور آمدنی پیدا کرنے کے مواقع تک رسائی کے لیے تاحیات کوشاں رہیں۔ بیگم اختر کی فلاحی تنظیم کے ساتھ بیس لاکھ سے زیادہ خواتین منسلک تھیں اور یہ ایسوسی ایشن مکمل طور پر خواتین رضاکاروں کے ذریعے کام کرتی تھیں۔ برصغیر پاک و ہند کا خطہ اپنے ہنرمندوں اور ان کے فن کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور رہا ہے۔ اس خطے میں دستکار ی کی روایت و تاریخ پر بیگم اختر ریاض کی کتاب ''A History of Craft in India‘‘ 1975ء میں شائع ہوئی۔ 1980ء کی دہائی میں حکومتِ پاکستان نے بیگم اختر ریاض کو وومنز ڈویژن کا وفاقی سیکریٹری مقرر کیا۔ 1988ء میں ویانا میں اقوامِ متحدہ کی خواتین کمیشن کے 32ویں اجلاس میں بیگم اختر نے پاکستان کی نمائندگی کی۔ رضاکارانہ و سماجی خدمات پر حکومت پاکستان نے 2000ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔ وزارت برائے ترقی ٔ نسواں نے بیگم اختر ریاض الدین کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 2005ء میں لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ دیا۔ 2005ء میں امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد ایک ہزار خواتین کے گروپ میں ان کا نام بھی شامل تھا۔
درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ بیگم اختر ریاض الدین ان تمام علمی و سماجی سرگرمیوں کے ساتھ منفرد ادیبہ بھی تھیں۔ وہ ایک عام قلمکار نہیں تھیں بلکہ اردو کے معروف ادیبوں و قارئین میں ان کے ادبی کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر آپ کے سفر ناموں کا شمار اردو کے بہتر ین سفرناموں میں ہوتا ہے۔ اردو ادب میں سفر نامہ نگاری کا آغاز 1847ء میں ''عجائبات فرنگ‘‘ سے ہوا لیکن اس صفِ ادب کو عروج خواجہ احمد عباس کے سفر نامے مسافر کی ڈائری‘ محمود نظامی کے نظرنامہ اور بیگم اختر ریاض الدین کے دھنک پر قدم سے حاصل ہوا۔ بیگم اختر ریاض کا تحریر کردہ پہلا سفرنامہ ''سات سمندر پار‘‘ 1963ء میں شائع ہوا جسے ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا۔ اس پسندیدگی کی وجہ مصنفہ کے طرزِ نگارش کی تازگی و برجستگی تھی۔ ان کا مشاہدہ گہرا اور اندازِ بیان منفرد تھا۔ وہ آزاد پنچھی کی طرح آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرنے کی خواہش کے ساتھ باطنی احساسات کو بیرونی دنیا سے ہم آہنگ کرتے ہوئے قاری کو اپنا ہم سفر بنا لیتیں۔ 1969ء میں ان کا دوسرا سفر نامہ ''دھنک پر قدم‘‘ شائع ہوا۔ اس سفر نامے نے اپنی اشاعت کے ساتھ ہی شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا اور جس پر انہیں 1970ء میں آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ ان کا بے ساختگی‘ شگفتگی اور بے تکلفی سے بات کہہ دینے کا انداز بالکل منفرد ہے۔ حسنِ فطرت ان کو مسحور کر دیتے ہیں اور اس کیفیت کو بیان کرنا بھی انہیں خوب آتا ہے۔ ان سفرناموں کی مقبولیت کی بنیادی وجہ مصنفہ کا غیر معمولی و بے ساختہ اسلوب ہے جسے طنز و مزاح کی چاشنی نے دو آتشہ بنا دیا ہے۔ آج بھی یہ سفر نامے قارئین میں اسی لیے مقبول ہیں کہ ان میں حیرت کے گہرے احساس اور مناظرِ قدرت سے خوشی کشید کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ 11جنوری 2023ء کو ان کے انتقال کی خبر نے بہت غمگین کردیا۔ موت برحق ہے۔ دعا ہے اللہ کریم مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی کمی اردو کی ادبی دنیا اور پاکستان کی سماجی تنظیموں میں تادیر محسوس کی جاتی رہے گی۔