سماجی انصاف کا تصور درحقیقت صنعتی انقلاب کے دوران 19ویں صدی میں اس وقت سامنے آیا جب معاشرے میں امیر و غریب کے درمیان خلیج وسیع تر ہوگئی تھی۔ یہ پسماندہ گروہوں کے استحصال کو کم کرنے کی ایک کوشش تھی۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سماجی انصاف کا عالمی دن منانے کی قرارداد 2007ء میں منظور کی اور ہر سال 20 فروری کو سماجی انصاف کا دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ تمام ریاستیں اور حکومتیں اپنے شہریوں کے لیے مساوی حقوق کو یقینی بنائیں‘ غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں اور سب کو روزگار کے بھرپور و یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ معاشرے میں سماجی انصاف کی تشکیل ایک مسلسل اور کثیر الجہتی عمل ہے؛ اگرچہ کامل سماجی انصاف کا حصول مشکل ہے لیکن ایک زیادہ منصفانہ اور مساوات پر مبنی معاشرے کی تشکیل انفرادی مفادات سے بالا ہو کر اجتماعی کوششوں سے یقینی طور پر ممکن ہے۔
تیزی سے بدلتی دنیا میں تضادات و تفاوت عروج پر ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی جگہ تصادم نے لے لی ہے۔ لوگوں کے درمیان آمدن کی غیر منصفانہ تقسیم کی شرح بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران غربت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں سماجی انصاف کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب تمام طبقات کی وسائل تک رسائی ہو‘ پالیسی سازی میں ان کی شرکت ہو۔ مساوات‘ ثقافتی تنوع کو برداشت اور انسانی حقوق کی پاسداری پر عملدر آمد کیا جائے۔ انسانی معاشرہ ہر عہد میں ہی کسی نہ کسی وجہ سے منقسم رہا ہے۔ مذہب ‘ علاقائیت‘ رنگ‘ نسل‘ مختلف زبانیں جو کہ فطری طور سماجی خوبصورتیاں ہیں مگر انسانی سماج میں ان تمام کو بنیاد بنا کر اختلافات کو ہوا دے کر انسانیت کو تار تار کیا جاتا رہا ہے۔
معاشی ترقی کے لیے سماجی انصاف بہت اہم ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں اقوام نے ترقی اس وقت کی جب انہوں نے اپنے شہریوں کو ہر شعبۂ زندگی میں مساوی مواقع فراہم کیے۔ اس کی مثال کے لیے ان تمام ممالک کے نام پیش کیے جائیں جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ اگر مذاہب کی بات کی جائے تو ہمارا دین اسلام سماجی انصاف اور معاشرتی مساوات کا قائل ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریمﷺ نے اپنے آخری خطبے میں انسانوں کے درمیان ہر طرح کی تفریق کو رد کرتے ہوئے معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام پر زور دیا تھا لیکن اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمیں سماجی انصاف کی صورتحال اسلامی تعلیمات کے یکسر برعکس دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سماجی انصاف کا ہونا تو دور کی بات ہے‘ ملکی آبادی کی بڑی تعداد پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔ ملک میں غربت‘ امتیازی سلوک‘ بدعنوانی‘ بنیادی انسانی حقوق (معیاری تعلیم‘ صحت اور انصاف) تک ناکافی رسائی جیسے مسائل سماجی انصاف کی راہ میں حائل ہیں۔ اقربا پروری اور عدم مساوات کے سبب پاکستان میں معاشی ترقی انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ رول آف لا انڈیکس میں دنیا کے 126ممالک میں پاکستان 118ویں نمبر پر ہے جبکہ انسانی ترقی کے عالمی انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 154واں ہے (اس انڈیکس میں کل 189ممالک شامل ہیں)۔
کسی بھی ملک کی ترقی کا بنیادی محرک عوام میں قومی سوچ کا ہونا ہے‘ جس کیلئے سول سوسائٹی کی تنظیمیں‘ فلاحی ادارے اور این جی اوز حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں اور جب یہ تمام سٹیک ہولڈرز مل کر کام کرتے ہیں تو معاشرے سے پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہو جاتا ہے۔ جمہوری اقدار‘ اداروں کی تعمیر بشمول قانون کے نظام‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکمرانی کے ڈھانچے کو بہتر اور مضبوط کیے بغیر سماجی انصاف (معیاری تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال اور روزگار کے مواقع تک مساوی رسائی) پر مبنی معاشرے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی سماجی تاریخ کا مطالعہ کریں تو عوام میں قومی سوچ کو بیدار کرنے کے سلسلے میں مختلف علوم و فنون کے سکالرز کے ساتھ ادبا کا کردار ناقابلِ فراموش رہا ہے۔
پاکستان کا خواب ایک فلسفی شاعر نے دیکھا تھا اور اس خواب کی تعبیر کو ایک سیاستدان نے یقینی بنایا تھا۔ پاکستان میں بولی جانے والی 70سے زائد زبانوں کے ادبا و شعرا اپنے اپنے علاقوں میں عوام کی ذہنی تربیت کے لیے کوشاں ہیں۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں قومی زبان اردو میں لکھنے والے ادبا و شعرا کی ایک طویل فہرست جنہوں نے سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کیلئے اپنے قلم کے ذریعے جدوجہد کی ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کے بعد جس شاعر کی فکر اور تخلیقات کو ملکی و عالمی سطح پر بہت زیادہ سراہا گیا‘ وہ فیض احمد فیضؔ ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں سماجی انصاف کے لیے مسلسل جدوجہد کا استعارہ بن جانے والے مشہور و مقبول شاعر فیض احمد فیضؔ کی سالگرہ 13فروری کو منائی جاتی ہے۔ فیضؔ وہ شاعر تھے جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود تمام عمر اپنے قلم کے ذریعے امن اور مظلوم انسانوں کے حق کے لیے جدوجہد کی اور حق گوئی کو شیوا بنایا۔ ان کے شعری تجربے میں اپنے عہد کے تمام اہم واقعات شامل ہیں۔ فیضؔ کی شاعری انسانی حقوق‘ آزادی اور سماجی انصاف کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ ان کی شاعری کا انگریزی‘ روسی‘ فرانسیسی‘ ترکی‘ فارسی‘ عربی‘ ہسپانوی‘ جرمن اور کئی دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
فیضؔ کے یہاں بین الاقوامیت کا گہرا شعور‘ ملکی صورتحال کے مختلف ادوار کی بے مثال عکاسی‘ دنیا بھر کے مظلوموں کی ترجمانی اور انسانی احساسات اور جذبات کا ارفع بیان انہیں دیگر شعرا سے ممتاز کرتا ہے۔ مزدوروں‘ محنت کشوں کے آلام‘ عوام کے دکھ درد کی ترجمانی‘ سرمایہ داری اور سامراجی طاقتوں کے خلاف نبردآزمائی‘ جبر کی فضا میں آخری فتح تک جدوجہد‘ سماجی شعوری و سیاسی بیداری‘ ظلم‘ زیادتی استحصال و استبداد اور بے انصافی کے خلاف بھرپور احتجاج‘ ملکی و عالمی سانحات‘ عالمی سطح پر امن کے حصول کی آرزو مندی ان کی شاعری کے بنیادی موضوعات ہیں۔ فیض کے نظریۂ حیات کی اساس انسانیت سے دلی وابستگی ہے۔ انہوں نے ہر قسم کی عصبیت کو ہدفِ تنقید بنایا اور ظلم و استبداد کے خلاف کلمۂ حق بلند کیا۔ فیض مظلوم طبقات کے شاعر تھے۔ معاشی استحصال ہو‘ سماجی ناانصافی ہو‘ سیاسی جبر ہو یا نسلی ظلم و ستم‘ فیضؔ مظلوموں کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ محروم و مظلوم انسانوں کے لیے مرہم ہیں۔ سماجی امتیازات‘ عدم مساوات کی عکاسی انہوں نے اپنی نظموں میں کی ہے ۔ مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ بول‘ ہم دیکھیں گے‘ لوحِ قلم‘ ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کیلئے‘ تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں‘ موضوعِ سخن‘ سوچنے دو‘ میرے درد کو جو زباں ملے وغیرہ اُن کی چند مشہور نظمیں ہیں۔ فیضؔ کا کلام سماجی بے انصافی کی نشاندہیوں اور قومی جذبہ بیدار کرنے کے عناصر سے مالا مال ہے۔ ان کا پیغام جغرافیائی‘ ثقافتی اور مذہبی سرحدوں سے ماورا ہونے کی وجہ سے آج بھی اتنا ہی متعلقہ ہے جتنا کہ ان کے دور میں تھا۔ معاشرے کی ترقی سماجی انصاف و قومی سوچ کے بغیر ناممکن ہے۔ ملک کے موجودہ ناگفتہ بہ معاشی حالات پچھتر سالہ اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ ملکی ترقی اور انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام صرف اسی صورت ممکن ہے جب چند لوگوں کے مفادات کے تحفظ کے بجائے ملک کے 23 کروڑ عوام کے مفاد کو سامنے رکھ کے پالیسیاں بنائی جائیں۔ قربانی ہمیشہ غریب طبقے سے ہی نہیں‘ اشرافیہ سے بھی مانگی جائے۔