انسان جو زبان اپنی ماں کی مقدس آغوش میں سنتا اور سیکھتا ہے‘ وہ بولی سدا ماں کی آغوش ہی کی طر ح نرم‘ گرم و شفیق ہوتی ہے جس میں اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کرنے کے لیے صرف و نحو کی بھول بھلیوں میں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ماں بولی انسان کے فطری و فکری احساس کی تربیت کرتی ہے۔ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی آغوش ہوتی ہے اور بچہ اس درسگاہ سے روحانی آسودگی اور بیرونی دنیا کو بہتر طور پر جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ پُراعتماد شخصیت کی تعمیر‘ ذہنی بیداری اور ثقافتی شناخت کا ذریعہ بھی ماں بولی ہی ہے۔ یہ ہمارے جذبات وخیالات کو ایک خاص شکل دینے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ہر شخص ماں بولی میں سوچتا‘ محسوس کرتا‘ خواب دیکھتا اور آرام دہ و مؤثر طریقے سے بات چیت کرتا ہے۔ ماں بولی کی اہمیت کو اس لیے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ وہ بنیادی ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں‘ دوسروں سے جڑتے ہیں۔ یہ ہمیں مؤثر ابلاغ کے قابل بناتی ہے۔
زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزوہے۔ اسی لیے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ قومیت کی شناخت اور بیش قیمت تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر زبانوں کی حیثیت مسلمہ ہے؛ چنانچہ زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کو ششیں نہ صرف لسانی رنگا رنگی اورکثیر لسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں۔ عالمی برادری میں افہام و تفہیم‘ رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد بنتی ہیں۔ ماں بولی کو ثقافتی ورثے کی بقا اور اس کے فروغ کا سب سے مؤثر آلہ سمجھا جاتا ہے‘ اگر کسی بھی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹادو‘ اس قوم کی روایات‘ تہذیب‘ تاریخ غرض سب کچھ مٹ جائے گا۔
دنیا میں بولی جانے والی سات ہزار سے زائد زبانوں میں سے بائیس سو زبانیں ایشیا میں بولی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں 80 زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔ اس کرۂ ارض پر موجود ان تمام زبانوں میں سے اس وقت کم از کم 43 فیصد معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یونیسکو کے مطابق زبانوں کو معدومیت کے لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28ویں نمبر پر ہے۔ ان 80 میں سے 26 پاکستانی زبانیں و بولیاں معدوم ہونے والی زبانوں کے صف میں شامل ہیں۔ جن میں سے خیبرپختونخوا کی 17‘ گلگت بلتستان کی 5‘ آزاد و مقبوضہ کشمیر کی 3 اور بلوچستان کی ایک زبان شامل ہیں۔ ان زبانوں میں بلتی‘ بٹیری‘ بہاری‘ واہی‘ براہوی‘ بروشکی‘ چلیسو‘ دمیلی‘ وماکی‘ گواربتی‘ گورو‘ کلاشا‘ کالکوٹی‘ کاٹی‘ کھوار‘ کنڈل شاہی‘ مائیا‘ اورمڑی‘ پرک‘ سوی‘ سپٹی توروالی‘ اوشوجو‘ یدغا‘ زنگسکاری شامل ہیں۔ 2021ء کی تحقیق کے مطابق ان پاکستانی زبانوں میں سے براہوی‘ بلتی اور بروشکی میں پچھلے کچھ عرصے میں خاطر خواہ کام ہوا جس کی وجہ سے ان زبانوں کو لاحق معدومیت کا خطرہ دور ہوگیا ہے۔ تھامس کارلائل (1795-1881ء) نے کہا تھا کہ اگر تم ادیب ہو تو صرف اس زبان میں ادب تخلیق کرو جس کی گرامر جاننے سے پہلے تم اس زبان کو صحت کے ساتھ بولتے تھے۔ شاید کارلائل کی یہ منطق ہی ان زبانوں کے سکالرز و ادبا کے پیش نظر رہی ہو جن کی علمی کو ششوں کی بدولت مذکورہ زبانیں معدومیت کے خطرے سے محفوظ رہیں‘ ان ادبا و سکالرز کا یہ عمل قابلِ تقلید و ستائش ہے۔
زبانوں کو لاحق معدومیت کے خطرے کی بڑی وجوہات میں عالمگیریت‘ ہجرت‘ ذریعۂ تعلیم اور ذرائع ابلاغ شامل ہیں۔ عالمگیریت کی وجہ سے ضرورت کی زبان‘ مادری زبان کی ضرورت کو کم کرکے ختم کر دیتی ہے۔ ہجرت‘ وہ چاہے گاؤں سے شہر یا چھوٹے شہر سے بڑے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک کی جانب ہو‘ ایسی صورتحال میں اس خاندان کی دوسری نسل مادری زبان کے بجائے رابطے کی زبان سے جڑ جاتی ہے۔ اسی طرح سکول میں مادری زبان کا ذریعۂ تعلیم نہ ہونا اور پھر ذرائع ابلاغ کا مادری زبان میں نہ ہونا بھی اسے معدومیت کے خطرے سے دو چار کر دیتا ہے۔
جب زبانیں ختم یا معدوم ہو جاتی ہیں تو دنیا کے ثقافتی تنوع کے خوبصورت و رنگین بافتے کا حصہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ معدومیت اس زبان میں موجود نہ صرف فکری سرمایے کو مٹا دیتی ہے بلکہ اپنے ساتھ روایات‘ یادداشت‘ اظہار کے انوکھے طریقے اور بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے قیمتی وسائل بھی لے جاتی ہے۔ تعلیمی نظام اور عوامی Domain میں صرف چند سو زبانیں حقیقی طور پر جگہ لے سکی ہیں اور ڈیجیٹل دنیا میں سو سے بھی کم زبانیں استعمال ہوتی ہیں۔ کثیر لسانی اورکثیر الثقافتی معاشرے اپنی زبانوں کے ذریعے وجود میں آتے ہیں جو روایتی علم اور ثقافتوں کو پائیدار طریقے سے منتقل اور محفوظ کرتے ہیں۔ ماں بولی کا عالمی دن ہر سال 21 فروری کو منانے کامقصد لسانی اور ثقافتی تنوع کو فروغ دینا ہے۔
ماں بولی ہی وہ زبان ہوتی ہے جس میں ہم اپنے خیالات اور جذبات کو سب سے زیادہ واضح اور درست طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ جب ہم اپنی ماں بولی میں بولتے یا لکھتے ہیں تو ہم محاورات‘ تاثرات اور استعاروں کا استعمال کرتے ہوئے پیچیدہ اور باریک معنی بیان کر سکتے ہیں اور ایسے بھرپور انداز میں کیے گئے بیان کو دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا مشکل ہے۔ ہماری زبان ہمارے ورثے کا حصہ‘ ہماری تاریخ‘ رسم و رواج و روایات کی عکاس ہوتی ہے۔ ثقافتی شناخت کے علاوہ ماں بولی علمی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے جو بچے اپنی ماں بولی میں سیکھتے ہیں وہ تصورات کی بہتر سمجھ رکھتے ہیں‘ معلومات کو زیادہ آسانی سے جذب کرتے ہیں۔ تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ جن بچوں کو اس زبان میں پڑھایا جاتا ہے جو وہ سمجھتے ہیں‘ ایسے بچے بہتر تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ بہتر علمی نشوونما رکھتے ہیں۔ ہماری دنیا ہزاروں زبانوں کا گھر ہے۔ ہر ایک کا اپنا الگ ذخیرۂ الفاظ‘ صرف و نحو ہے۔ لسانی تنوع ہمارے ثقافتی ورثے کا ایک اہم پہلو ہے جو انسانی اظہار اور تخلیقی صلاحیتوں کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ ان تمام فوائد و اہمیت کے باوجود ماں بولیو ں کو خطرات لاحق ہیں۔ ماں بولی کی قدر کو پہچاننے اور اس کی حمایت‘ تحفظ اور فروغ کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہمارے لسانی ورثے کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھا جائے۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے جہاں انسانی زندگی کو سہل تر کیا ہے وہیں اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانی تہذیب‘ ثقافت‘ اقدار و سماج کو بقا کے چیلنجز درپیش ہیں۔ ان حالات میں زبانوں کی بقا ڈیجیٹلائزیشن ہی سے ممکن ہے۔ زبانوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان ہر حوالے سے منفرد و متنوع تہذیبی شناخت رکھتا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں 80 سے زیادہ زبانیں و بولیاں بولی جاتی ہیں‘ ان زبانوں کے لوک ادب میں حکمت کا خزینہ پوشیدہ ہے جو اس خطے کی ہزاروں سالہ تاریخ و تہذیب کا امین ہے۔ ہمیں اپنے اس تہذبی ورثے کو محفوط کرنے کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ مقامی زبانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سرکاری و نجی ہر سطح پر اقدامات کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک میں بولی جانے والی زبانیں اس کا قومی تشخص ہوتی ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے ملک میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو محفوظ کرنے اور انہیں ان کا صحیح مقام دینے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ دھرتی ہماری ماں ہے اور اس پر بولی جانے والی سبھی زبانیں اور بولیاں ہماری ماں بولیاں ہیں۔