قدرت ایک بہت عظیم شاہکار ہے‘ جس کے پیچیدہ راز ہماری زندگی کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں۔ انسانی سمجھ سے بالاتر قدرت کے پوشیدہ راز جب آفات کی صورت میں عیاں ہوتے ہیں تو انسانی دماغ وقتی طور پر بے بس دکھائی دیتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی دماغ بھی بہت بڑا راز ہے اور اسی نے اس کائنات کے تمام رازوں سے پردہ اٹھانا ہے۔ دھرتی اور انسان کا گہرا تعلق ہے۔ دھرتی ہماری زندگی کا ماحصل ہے اور ہم اس کے بغیر موجود نہیں ہو سکتے۔ اس دھرتی کی ہزار ہا نعمتوں میں ہماری رہائش اور خوراک بھی شامل ہیں۔ موسم کی شدت اور طوفانِ باد و باراں کے متعلق انسانی پیش گوئیاں کسی حد تک سچ ثابت ہونا شروع ہو گئی ہیں مگر ابھی تک دھرتی کی زیریں حرکت اور اس کے متعلق پیش گوئی کرنا انسانی سمجھ سے باہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زلزلے کی صورت میں زمین کی ہلچل انسان کے دکھوں میں اضافے کر جاتی ہے۔
ایسے ہی ایک تباہ کن زلزلے کا سامنا ہمارے ترک بہن بھائیوں کو گزشتہ مہینے کرنا پڑا۔ ہم پاکستانی اپنے ترک بہن بھائیوں کے دکھ میں ان کے ساتھ ہیں۔ اس زلزلے نے ترکیہ کے جنوب مشرقی علاقے میں واقع دس صوبوں میں تباہی پھیلا دی۔ چھ فروری کو علی الصباح 7.8 اور 7.5شدت کے یکے بعد دیگرے دو زلزلوں کے سبب ترکیہ اور شام میں لگ بھگ 50 ہزار انسان لقمۂ اجل بن گئے‘ ایک لاکھ 15ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے‘ تقریباً ایک لاکھ 73 ہزار عمارتیں تباہ ہوگئی ہیں۔ 6 سے 27 فروری کے درمیان متاثرہ علاقوں میں دس ہزار آفٹر شاکس ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ سخت سرد موسم میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد خیموں اور کنٹینرز میں رہنے پر مجبور ہیں۔ یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق زلزلوں سے متاثرہ ان علاقوں میں 25 لاکھ بچوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔
ترکیہ کے عوام کے لیے طاقتور زلزلے کوئی اجنبی نہیں کیونکہ یہ ٹیکٹونک پلیٹ کی حدود کے ساتھ واقع ہے۔ پچھلے 25 سالوں میں ملک میں 7.0 یا اس سے زیادہ شدت کے سات زلزلے آئے ہیں۔ ایسا ہی ایک تباہ کن زلزلہ 17 اگست 1999ء میں آیا تھا جس میں مارمارا کے علاقے میں واقع ترکیہ کا صنعتی شہر گولک (Golcuk) مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔ تر کوں نے بڑی ہمت اور ثابت قدمی سے کام لیتے ہوئے تباہی کے بعد ایک منظم تعمیر نوکے عمل کا آغاز کیا جس نے گولک کو ایک محفوظ ترین شہر بنا دیا۔ یہاں کے رہائشی اس پر فخر کرتے ہیں۔
ترکیہ اور شام کے ان سرحدی علاقوں میں‘ جہاں 6 فروری کو خوفناک زلزلے نے تباہی پھیلائی‘ گزشتہ سو سال میں کوئی شدید زلزلہ نہیں آیا تھا‘ اسی لیے دوسرے علاقوں کی نسبت یہاں زلزلے سے بچاؤ کا نظام قدرے غیر تسلی بخش تھا۔ ترکیہ کی حکومت نے متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام تیزی سے شروع کردیا ہے اور ساتھ ہی کہرا مانما راس‘ حطائے‘ عثمانیہ اور ملاتیا میں سوشل سنٹر بھی قائم کیے ہیں جہاں نو لاکھ سے زیادہ افراد کو نفسیاتی مدد فراہم کی جارہی ہے۔ ترک فوج کی سائیکلوجیکل ٹیم زلزلے سے متاثرہ بچوں کی ذہنی نشوونما اور اس بڑے حادثے کے ان معصوم ذہنوں پر ہونے والے اثرات کو ختم کرنے کیلئے مختلف غیر نصابی سرگرمیاں کر وارہی ہے تاکہ بچوں کو کھیل کود اور تعلیم میں مصروف رکھ کر انہیں ذہنی دبائو سے آ زاد رکھا جائے۔
ترکیہ کا جنوب مشرقی علاقہ جو اس تباہ کن زلزلے کی زد میں آیا ہے‘ قدیم تہذیب کا گہوارہ ہے۔ تہذیبوں کا شہر حطائے چار ہزار سال کی قدیم تاریخ کا امین ہے۔ حطائے شہر کو دنیا کا پہلا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ شہر سات بار تباہ ہوا اور دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ سینٹ پیٹر کیو چرچ‘ جو دنیا میں تعمیر کیا جانے والا پہلا کلیسا ہے‘ وہ بھی اس خطے کی ایک غار میں واقع ہے۔ ترکیہ کا 12 کلومیٹر طویل اور خوبصورت ساحل بھی اس خطے کے قدرتی منظر میں شامل ہے۔ دریائے آسی ان دریاؤں میں سے ایک ہے جو مکمل طور پر جنوب سے آتے ہیں اور اپنی سمت کی وجہ سے شمال میں گرتے ہیں۔ آسی ترکیہ کا وہ واحد دریا ہے جو جنوب سے شمال کی طرف بہتا ہے۔ اسلام اناطولیہ کے راستے اس خطے میں داخل ہوا اور مسجد نجار‘ جو اناطولیہ میں تعمیر ہونے والے پہلی مسجد ہے‘ بھی یہیں واقع ہے۔ حطائے کا نام مصطفی کمال پاشا اتاترک نے رکھا‘ اس کا مطلب ہے سرحد پر روشنی۔ دنیا میں پہلی سٹریٹ لائٹس کی تاریخ بھی اس علاقے سے وابستہ ہے۔ کرٹولو سٹریٹ دنیا کی پہلی گلی ہے جو ٹارچوں سے روشن کی گئی‘ یہ انطاکیہ میں واقع ہے۔ یہ خطہ اپنی تاریخ‘ ثقافت و تمدن کی وجہ سے قدیم دور سے آج تک دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکزِ نگاہ رہا ہے۔ دعا ہے کہ جلد ہی اس خطے میں زندگی نارمل ڈگر پر آجائے۔ صدر ترکیہ رجب طیب اردوان نے ایک سال کے اندر تباہ شدہ صوبوں میں 2لاکھ 70ہزار مکانات کی تعمیرِ نو کے منصوبے کا اعلان کیا جس کے بعد متاثرہ علاقوں میں منہدم ہونے والی عمارتوں کی جگہ نئی عمارات کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے‘ جو ایک خوش آئند اور قابلِ تقلید عمل ہے۔ ہمارے ملک میں 2005ء میں آنے والے زلزلے کے بعد بحالی کا کام ابھی تک سو فیصد مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ اسی طور پچھلے سال مون سون بارشوں سے متاثرہ علاقوں سے ابھی تک پانی نہیں نکالا جا سکا اور اگلے مون سون کے آغاز میں چند ماہ ہی باقی ہیں۔
اتنے بڑے سانحے کے باوجود ترکیہ کا مئی میں صدارتی انتخابات ملتوی نہ کرنے کا اعلان ایک احسن عمل ہے۔ قدرتی آفات اور جنگوں کے باوجود الیکشن کے انعقاد کی کچھ نمایاں مثالوں میں برطانیہ کی مثال اس لحاظ سے مختلف ہے کہ برطانیہ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران 1940ء اور 1945ء میں عام انتخابات منعقد کیے‘ 1945ء میں جنگ کے خاتمے کے بعد ملک کے اقتصادی حالت خراب تھی اور غذائی اجناس کی قلت کے باعث لوگوں کو مشکلات کا سامنا تھا لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود الیکشن کا انعقاد جمہوری عمل و اقدار کو مضبوط بنانے اور جنگ زدہ ملک کی تعمیرِ نو کے لیے بہترین ثابت ہوا۔ اسی طرح 2002ء کے بعد سے پاکستان مسلسل دہشت گردی کی زد میں رہا اور دسمبر 2007ء میں ملک کی دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والی عالمی سطح کی سیاستدان محترمہ بینظیر بھٹو دہشت گرد حملے میں شہید کر دی گئیں۔ اتنے بڑے سانحے کے باوجود ملک میں جمہوری عمل کو جاری رکھنے کیلئے فروری 2008ء میں الیکشن منعقد کیے گئے۔ 2013ء میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال تسلی بخش نہ ہونے کے باوجود عام انتخابات وقت مقررہ پر منعقد ہوئے اور اقتدار ایک سیاسی پارٹی سے دوسری سیاسی پارٹی کو منتقل کیا گیا۔ جمہوریت کے اس تسلسل کا یہ نتیجہ تھا کہ ملک میں امن و امان کی صورت حال بہت بہتر ہو گئی۔ ملکی ترقی کے لیے جمہوریت کا تسلسل انتہائی اہم ہے۔
جمہوریت کی طاقت و اہمیت کو سمجھتے ہوئے ترکیہ میں مئی کے مہینے میں ہونے والے انتخابات کو ملتوی نہیں کیا جارہا۔ زلزلے‘ جس سے ملک کے دس صوبے متاثر ہوئے ہیں‘ کے باوجود ملک کے عوام اور اربابِ اختیار انتخابات اور جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ صدر اردوان نے اعلان کیا کہ ملک میں صدارتی انتخابات کے لیے 10 مارچ سے آئینی ذمہ داریاں شروع کی جائیں گی اور ملک میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہو جائیں گی۔ جمہوری اقدار کو اگر مضبوط کرنا ہو تو اس کی راہ میں کسی بھی طرح کے حالات اور جنگیں تک حائل نہیں ہوتیں۔ صدر طیب اردوان وقت پر الیکشن کا اعلان کرکے جمہوریت اور جمہوری اقدار سے محبت کا عملی نمونہ بن کر سامنے آ رہے ہیں۔