'صحت سب کے لیے‘، اس تھیم کے تحت آج 7اپریل 2023ء کو صحت کا عالمی جشنِ الماسی منایا جا رہا ہے۔ یہ عالمی دن منانے کا مقصد عالمی ادارۂ صحت‘ صحت سے وابستہ دیگر تنظیموں کی طرف سے پوری دنیا میں اچھی صحت اور اس کی اہمیت کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ دنیا کو اس وقت وبائی امراض‘ زمین پر بڑھتی ہوئی آلودگی‘ کینسر‘ دمہ‘ دل سے متعلق بڑھتی ہوئی بیماریوں اور دماغی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس لیے ایک ایسی تحریک کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے جو صحت مند معاشرے کی تشکیل کرے۔ 1948ء سے قائم عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں اندازاً 1 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ اموات ماحولیاتی وجوہات کی بنا پر ہوتی ہیں۔ ماحولیاتی بحران انسانیت کو درپیش صحت سے متعلق تمام مشکلات کا واحد سب سے بڑا خطرہ ہے۔
دسمبر 1945ء میں اقوام متحدہ میں چین اور برازیل نے ایک ہمہ گیر بین الاقوامی صحت کی تنظیم کے قیام کی تجویزپیش کی‘ اس تجویز کو 1946ء میں منظور کرتے ہوئے نیویارک میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے قیام کی منظوری دی گئی اور 7اپریل 1948ء کو 61ممالک نے عالمی سطح پر صحت کے لیے این جی او قیام کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد صحت کا عالمی دن 1949ء میں 22 جولائی کو منایا گیا تھا لیکن بعد میں اس تاریخ کو بدل کر 7اپریل کر دیا گیا۔ ٹھیک اسی دن‘ جس دن ڈبلیو ایچ او کا یومِ تاسیس منایا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد دنیا کے تمام انسانوں تک صحت کی سہولتیں پہنچا کر دنیا کو بیماریوں سے محفوظ اور کمزوروں کی خدمت کرنا ہے۔
عالمی سطح پر سیاسی سماجی اور تجارتی فیصلے آب و ہوا اور صحت کے بحران کو جنم دے رہے ہیں۔ 90فیصد سے زیادہ لوگ فوسل فیول جلانے کے نتیجے میں غیرصحت بخش ہوا میں سانس لیتے ہیں۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور مچھروں کی وجہ سے پہلے سے کہیں زیادہ اور تیزی سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ شدید موسمی واقعات‘ زمین کا کٹاؤ اور پانی کی کمی لوگوں کو بے گھر اور ان کی صحت کو متاثر کر رہے ہیں۔ آلودگی اور پلاسٹک گہرے سمندروں‘ بلند ترین پہاڑوں تک پہنچ گئے ہیں۔ پراسیس شدہ غیر صحت بخش غذائیں اور مشروبات کا بڑھتا ہوا استعمال موٹاپے‘ کینسر‘ ذیابیطس اور دل کی بیماریوں میں اضافہ کررہے ہیں۔کووڈ19 وبائی مرض نے جہاں دنیا میں انسانی زندگی کو مفلوج کیا وہیں اس وبا نے ہماری دنیا میں عدم مساوات کو اجاگر کیا۔ اس وباء نے ایک طرف ہمارے معاشرے کے تمام شعبوں میں موجود کمزوریوں اور انسان کی پیدا کردہ خرابیوں کا انکشاف کیا تو دوسری طرف آنے والی نسلوں کے لیے بہتر معاشرے اور خصوصاً مساوی صحت کے حصول کے لیے پُر عزم اور پائیدار فلاحی معاشرے کی تشکیل کی ضرورت کو نمایاں کیا۔
عالمی معیشت کا موجودہ ڈیزائن آمدنی‘ دولت اور طاقت کی غیرمنصفانہ تقسیم کا باعث ہے جس میں بہت سی اقوام غربت اور عدم استحکام کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ایسی معیشت کبھی بھی بہتر نہیں قرار دی جا سکتی ہے جس کے مقاصد میں انسانی بہبود‘ مساوات اور ماحولیاتی پائیداری شامل نہ ہو۔ آج کرۂ ارض اور انسانی صحت کے لیے قانون سازی‘ کارپوریٹ اصلاحات اور افراد کو صحت مند انتخاب کرنے کے لیے ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ انسانی صحت پر مذکورہ بالا تمام عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔ نہ صرف جسمانی بلکہ انسان کی ذہنی اور جذباتی صحت کا خیال رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ صحت کا عالمی دن ڈبلیو ایچ او کی جانب سے چلائی جانے والی 11باضابطہ مہمات میں سے ایک ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی دیگر مہمات میں ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے‘ تپ دق کا عالمی دن‘ حفاظتی ٹیکوں کا عالمی ہفتہ‘ ملیریا کا عالمی دن‘ خون کے عطیہ کا عالمی دن وغیرہ شامل ہیں۔ اس سال ڈبلیو ایچ او دنیا کو لاحق پانچ بڑے صحت کے مسائل پر توجہ مرکوز کررہا ہے جن میں غیرمتعدی امراض‘ انفیکشن والی بیماریاں‘ ماں اور بچے کی صحت‘ ماحولیاتی خطرات اور یونیورسل ہیلتھ کوریج شامل ہے۔ ان میں سے ہر ایک مسئلہ انتہائی اہم ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے ہر ملک کو ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
جنوری 2023ء میں پاکستان کی کل آبادی 23کروڑ سے زائد تھی۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2022ء اور 2023ء کے درمیان پاکستان کی آبادی میں 46 لاکھ یعنی پلس 2.0کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ صحت کی سہولتوں کے اعتبار سے 195ممالک کی فہرست میں پاکستان 154ویں نمبر پر آتا ہے جس سے عیاں ہے کہ اتنی بڑی آبادی والا ملک ہونے کے باوجود یہاں صحت کی سہولتیں غیر تسلی بخش ہیں۔ پاکستان میں صحت کا نظام تین بنیادی درجوں پر مشتمل ہے۔ پہلے درجے میں بنیادی ہیلتھ کیئر‘ جس میں کمیونٹی کی سطح پر صحت کے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا نظام اسی ضمن میں آتا ہے۔ دوسرے درجے میں ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح کے ہسپتال کام کر رہے ہیں جبکہ تیسرے درجے پر صحت کے نظام میں شہروں میں واقع بڑے ہسپتال ہیں جن میں مریضوں کو ماہر ڈاکٹروں سے علاج معالجے کی سہولت دستیاب ہے۔ کمیونٹی ہیلتھ ورکرز سے شروع ہونے والا نظام ماہرین کی سطح پر ختم ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ 30فیصد سے بھی کم آبادی کو بنیادی ہیلتھ کیئر کی سہولیات تک رسائی حاصل ہے۔ متعدد ہیلتھ کیئر پالیسیوں کے باوجود ملکی صحت کا شعبہ عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ دنیا بھر میں جن امراض پر قابو پا لیا گیا ہے‘ وہ امراض پاکستان میں اب بھی خوفناک حقیقت ہیں۔ پولیو فری پاکستان کا مشن ابھی تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا۔ اسی طرح پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا پھیلاؤ‘ اسہال کی بیماریاں‘ جلد کے انفیکشن‘ سانس کی نالی میں انفیکشن‘ ملیریا‘ ٹائیفائیڈ اور ہیضہ جیسے امراض سے سینکڑوں لوگ ہر سال موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں صحت کی کئی پالیسیاں بنائی گئیں‘ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ متعارف کرایا گیا‘ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ‘ دیہی صحت کے مراکز‘ بنیادی صحت کے مراکز‘ پاپولیشن کنٹرول ڈپارٹمنٹ بنائے گئے مگر ان سب اقدامات کے باوجود نہ تو صحت کا نظام کچھ زیادہ بہتر ہو سکا اور نہ ہی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کیا جا سکا۔ حکومتی سطح پر تمام تر کاوشوں کے باوجود بچوں کی شرحِ اموات کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان میں نومولود بچوں کی شرحِ اموات دنیا میں بدترین ہے۔
صحت کے نظام کو بہتر کرنے اور بڑھتی ہوئی آبادی کو مؤثر طور پر کنٹرول کرنے کے لیے اگر پاپولیشن کنٹرول ڈپارٹمنٹ کو شعبۂ صحت کے اندر ضم کردیا جائے تو یہ دونوں شعبے مل کر پالیسیوں پر بہتر طور عملدرآمد کر سکیں گے۔ معیاری تعلیم کی شرح کو بڑھانے کی سخت ضرورت ہے۔ ملک کو اگر ترقی کرنی ہے تو حکومت کی اولین ترجیحات میں صحت اور تعلیم کو شامل کرنا ہوگا۔ آج تک کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں صحت اور تعلیم شامل نہیں رہیں۔ جب صوبوں کو فنڈز کی تقسیم اور قومی اسمبلی میں نمائندگی آبادی کی بنیاد پر ہو تو ایسی صورت میں آبادی کو کنٹرول کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی سطح پر نمائندگی اور صوبوں کو وفاقی فنڈز کی تقسیم کے لیے دوسرے آپشنز تلاش کیے جائیں تاکہ پالیسیوں میں موجود تضاد ختم ہو سکے۔ لوگوں کو صحت کی مناسب سہولتیں مہیا کرنے کے لیے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف کی شرح کو آبادی کی مناسبت سے بڑھانا ہوگا۔ عوام کو صحت کی تمام سہولتیں ان کے گھر کے قریب مہیا کرنے کی اس لیے بھی اشد ضرورت ہے کہ ایک تو اس کے بغیر ایمرجنسی کی صورت میں عوام کی مناسب دیکھ بھال ممکن نہیں ہے‘ دوم صحتمند عوام ہی پاکستانی ترقی اور اس کے تابناک مستقبل کی مستقل ضمانت ہیں۔