پابلو پکاسو کے مطابق 'بچے پیدائشی طور پر تخلیق کار اور فنکار ہوتے ہیں‘۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ایک غیرتخلیقی معاشرہ ان کی راہ میں ایسی دشواریاں حائل کر دیتا ہے کہ بلوغت تک پہنچتے پہنچتے ان کی تخلیقی صلاحیت اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ ہمارے معاشروں کی حد سے زیادہ مادیت پرستی ایسا آسیب بن چکی ہے جو ہوس پرستی کی شکل میں ڈھل کر انسان کی تخلیقی روح کو بے رحمی سے روند دیتی ہے۔کینیڈین ماہرِ بشریات مارسی سیگل (Marci Segal)‘ جو دنیا بھر میں تخلیقی صلاحیت اور اختراع کے عالمی دن کی بانی کے طور پر جانی جاتی ہیں‘ کا کہنا ہے کہ ان کو تخلیقی صلاحیت اور اختراع کا دن منانے کا خیال کینیڈا کے قومی اخبار کی سرخی ''کینیڈا تخلیقی صلاحیتوں کے بحران میں‘‘ کو پڑھ کر آیا۔ جس کے بعد انہوں نے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا فیصلہ کیا‘ جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ لوگ اپنی فطری صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے روزمرہ کی زندگی سے آگے بڑھ کر کچھ مختلف کریں۔
21اپریل کا دن لوگوں کو نئے خیالات‘ نئے فیصلے کرنے‘ نئے اقدامات کرنے اور نئے نتائج اخذ کرنے کے لیے وقت‘ جگہ اور وجہ فراہم کرتا ہے۔ مارسی سیگل نے 2001ء میں یومِ ارتھ سے ایک روز قبل یعنی 21اپریل کی تاریخ کا انتخاب اس لیے کیا کہ ہم سب مل کر ہی اپنی زمین کو سب جانداروں کے لیے محفوظ بنا سکتے ہیں۔ 2006ء تک 15تا 21اپریل کے دوران تخلیقی صلاحیت و اختراع کا ہفتہ 50 سے زیادہ ممالک میں منایا جانے لگا تاآنکہ 2017ء میں اقوام متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا جس میں پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے حصول اور مسائل کے حل میں تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرنا اور انفرادی اور گروہی سطح پر تخلیقی کثیر الجہتی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنا بنیادی مقاصد قرار پائے۔
تخلیقی صلاحیتوں کی کوئی عالمگیر تفہیم نہیں ہو سکتی‘ یہ تصور فنکارانہ اظہار سے لے کر معاشی‘ سماجی اور پائیدار ترقی کے تناظر میں مسائل کے حل کے لیے اہم ہے۔ اختراع تخلیقی صلاحیتوں سے پیدا ہوتی ہے جبکہ تخلیقی صلاحیت اختراع کے بغیر بے نتیجہ ہوگی۔ تخلیقی صلاحیت ہر انسان میں موجود ہوتی ہے لیکن اس کا نمو اس کے استعمال سے وابستہ ہے۔ اپنے خیال کو ظاہر کرنے کی طرف جرأت مندانہ قدم اٹھانے کا وقت ہے۔ دنیا میں آج تک جتنی بھی ترقی ہو‘ میکانیات‘ جس میں مشینوں کی تیاری‘ انجن کی تخلیق اور میکانی حرکات کا تجزیہ کیا جاتا ہے‘ ہو یا برقیات جس میں برقی رو‘ الیکٹرونکس اور دیگر برقی آلات کی تخلیق و استعمال شامل ہیں‘ نفسیات جس میں انسانی ذہنی حالت‘ امراض کی شناخت اور ان سے وابستہ دیگر معاملات‘ علومِ حیاتیات‘ سماجیات و دیگر معاملات کی تخلیق‘ ریاضیات جس میں عددی نظریات‘ جبر‘ ہندسہ اور دیگر ریاضی معاملات‘ فضائیات جس میں فلکیات‘ نظامِ شمسی‘ دیگر فضائی معاملات اور کائناتی جسامت شامل ہیں‘ ان کے علاوہ بھی مختلف علوم و فنون مثلاً نظامیات‘ کیمیا‘ طبیعیات‘ فلسفہ‘ تاریخ‘ معاشریات یہ سب اسی تخلیقی صلاحیت اور اختراع کی مرہونِ منت ہے۔
جوہانس گٹن برگ‘ جو پیشہ کے لحاظ سے سنار تھے‘ ان کی اختراعی صلاحیت نے 1440ء میں پہلا پرنٹنگ پریس ایجاد کیا جس کے ذریعے کتابوں کی اشاعت آسان ہوئی اور کتاب عام آدمی کی پہنچ میں آگئی‘ جس سے روشن خیالی کے دور کا آغاز ہوا۔ قیمتی دھاتوں اور تبادلے کے دیگر ذرائع کو ختم کرتے ہوئے کاغذی کرنسی‘ جس کا استعمال چین میں نوویں صدی میں شروع ہوا تھا‘ سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں پورے یورپ تک پھیل گیا۔ ٹیلی گراف مشین‘ سٹیم انجن کی ایجاد نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ یہ تبدیلی نہ صرف نقل و حمل کے لحاظ سے تھی بلکہ اس نے زندگی کے دیگر تمام شعبوں کو بہت متاثر کیا۔ نئی تکنیکوں اور نظریات کی دریافت اور ان پر عمل درآمد سے زندگی بہت سہل ہو چکی ہے۔ انسانی تخلیقی صلاحیتوں‘ علم اور ٹیکنالوجی کے درمیان تعامل ہی ہمارے حالیہ مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ آڈیو وِژول پروڈکٹس‘ ڈیزائن‘ میڈیا‘ پرفارمنگ آرٹس وغیرہ آمدنی پیدا کرنے‘ روزگار کی تخلیق اور برآمدی آمدنی کے لحاظ سے عالمی معیشت میں تبدیلی کے انتہائی اہم شعبے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر تہذیب و ثقافت شناخت‘ اختراع اور تخلیقی صلاحیتوں کا ذریعہ ہیں۔ تخلیقی صلاحیتیں ثقافت کی ایسی غیرمالیاتی اقدار ہیں جو جامع سماجی ترقی‘ لوگوں کے درمیان مکالمے اور افہام و تفہیم میں حصہ ڈالتی ہیں۔ آج تخلیقی صنعتوں کا شمار عالمی معیشت کے سب سے زیادہ متحرک شعبوں میں ہوتا ہے جو ترقی پذیر ممالک کو عالمی معیشت کے ابھرتے ہوئے ترقی کے دائروں میں شامل ہونے کے نئے مواقع فراہم کر رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نئی ملازمتوں‘ صنعتوں کی تخلیق‘ مصنوعات اور سروسز کی بہتری کا باعث بن رہی ہے۔
تخلیقی صلاحیتوں اور اختراع کے ذریعے سماجی اور معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایسے کثیر الجہتی نقطۂ نظرکی ضرورت ہوتی ہے جس میں افراد‘ تنظیموں اور حکومتوں کے درمیان تعاون شامل ہو۔ حکومتیں ایسی پالیسیوں اور ضوابط کو نافذ کریں جو اختراع اور تخلیقی صلاحیتوں کی حمایت کرتی ہوں۔ مثال کے طور پر تحقیق اور ترقی کے لیے ٹیکس مراعات دینا‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعلیم و تربیت کو فروغ دینا اور املاکِ دانش (Intellectual Property) کے حقوق کا تحفظ‘ اختراع اور تخلیق کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے۔ موبائل ٹیکنالوجی کمپنیاں‘ سیلولر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کی تخلیق کی طرح تخلیقی ہونے کیساتھ ساتھ اختراعات کرنے کی بھی زیادہ پابند ہیں تاکہ اپنے حریفوں سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں اور اچھا منافع حاصل کریں۔ اس سے یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ ایک تخلیقی اور اختراعی کمپنی کے پاس کامیاب ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
ہمارا تعلیمی نظام بچوں کو رٹا لگا کراسباق نگلنے اور اگلنے کا پابند کیے ہوئے ہے‘ جس سے نوجوانوں کی ذہنی صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ ان کے لیے زندگی کا تمام تر مقصد گریڈ لینے تک محیط ہو چکا ہے اور ایسا نہ ہو پانے کے نتیجے میں ان میں بددلی اور مایوسی کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈپریشن اور بے راہ روی بڑھ رہی ہے۔ ہم ایک غیر تخلیقی معاشرے میں ڈھلنے جا رہے ہیں‘ سرد رویوں کا معاشرہ‘ جہاں جمالیاتی حسن ناپید ہوتا ہے۔ جب ہم چاہتے نہ چاہتے ہوئے جانے انجانے میں اپنے اندر کی تخلیقی صلاحیتوں کا جوہر کھو دیتے ہیں تو ہماری روح گونگی‘ بہری ہو جاتی ہے ہم جذبوں کی زبان سے بے بہرہ ہو جاتے ہیں۔
تخلیقی صلاحیت اظہارِ ذات اور انکشافِ ذات کا عمل ہے جو انسان کو عرفانِ ذات تک کے سفر پر لے جاتا ہے۔ ایک معاشرے کا تخلیقی معاشرے میں ڈھلنا از حد ضروری ہے تاکہ وہ خود کو درپیش ناقابلِ فہم نفسیاتی و جذباتی مسائل سے باہر نکال سکے اور زندگی کی تابانی کو محسوس کر سکے۔ تعلیمی شعبے میں اس کا اطلاق ضروری اور متعلقہ ہے تاکہ کلاس روم میں نئے نئے خیالات کو خوش آمدید کہا جائے اور طالب علموں کو نئی چیزیں دریافت کرنے کی ترغیب ملے۔ تخلیقی صلاحیت اور اختراع کو متوازن اور باہم مربوط طریقے سے لاگوکرنے سے کسی بھی شعبے میں کامیابی کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں اور اختراعات کی بنیاد پر مہارتوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ایک منفرد نقطۂ نظر تلاش کیا جا سکے۔ اگر نئی کاوشیں‘ نئے اصول اور نئی دریافتوں کی راہیں نہ ڈھونڈی جائیں تو انسان کی فکر اور سوجھ بوجھ‘ خوف‘ غم‘ بے اطمینانی اور قنوطیت میں الجھ کر رہ جائے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے تخلیقی شعور اور صلاحیت کو زندہ رکھیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہ شعور زندہ رکھنے کی تلقین کیساتھ اس کے اظہار و عملیت کے بھرپور مواقع فراہم کریں۔