ثقافتی اور تخلیقی شعبہ دنیا بھر میں ترقی کے سب سے طاقتور انجنوں میں سے ایک ہے۔ اس شعبے میں عالمی سطح پر 4کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں ہیں جن میں سے تقریباً نصف خواتین کے پاس ہیں۔ جو تمام موجودہ ملازمتوں کا 62 فیصد اور عالمی جی ڈی پی کا 3.1فیصد بنتا ہے۔ 30 سال سے کم عمر نوجوانوں کی سب سے بڑی تعداد کو ملازمت دینے اور زیادہ مواقع فراہم کرنے والا یہ شعبہ اب بھی باقاعدہ توجہ نہ حاصل کرنے والے شعبہ جات کی صف میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام موجودہ تنازعات میں سے 89فیصد ان ممالک میں رونما ہوتے ہیں جہا ں بین الثقافتی مکالمے کو اہم نہیں سمجھا جاتا۔ دنیا کے تین چوتھائی بڑے تنازعات کی ثقافتی جہت ہوتی ہے۔ ثقافتی و تخلیقی شعبہ نہ صرف اقتصادی ترقی کے حوالے سے اہم بلکہ ایک زیادہ بھرپور فکری‘ جذباتی‘ اخلاقی و روحانی زندگی گزارنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ثقافتی تنوع ایک ایسا اثاثہ ہے جو غربت میں کمی و پائیدار ترقی کے حصول کیلئے ناگزیر ہے۔ میڈیا اور انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان مکالمے‘ احترام‘ باہمی افہام و تفہیم کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے شعوری طور پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ مؤثر تعاون کے فروغ اور امن کو برقرار رکھنے کے لیے ثقافتی مکالمے کو مضبوط کرنا ایک ترجیح ہونا چاہیے۔ 2010ء کے بعد انٹرنیشنل فنڈ برائے کلچرل ڈائیورسٹی (IFCD) نے 69ترقی پذیر ممالک میں 140سے زیادہ ثقافتی اور تخلیقی منصوبوں کی مالی امداد کی۔ مارچ 2022ء میں پاکستان نے ثقافتی اظہار کے تنوع کے تحفظ اور فروغ سے متعلق یونیسکو کنونشن کی توثیق کی جس کے بعد عالمی فنڈ برائے ثقافتی تنوع نے پاکستان میں بھی ثقافتی اور تخلیقی شعبے کی ترقی کے لیے بنائے جانے والے پروجیکٹس کے لیے فنڈنگ شروع کی ہے۔
ثقافت کسی بھی معاشرے کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے‘ اس کے ذریعے معاشرے میں ارتکاز اور کشادگی کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور یہ اتحاد کی بھی علامت ہے۔ معاشرتی ترقی کا جائزہ لینے کے لیے مائیکرو اور میکرولیول کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ اکثر بڑے مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں چھوٹے مسائل دَب جاتے ہیں یا پھر نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ یوں ان کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی اور اگر انہیں طویل عرصے تک نظر انداز یا دبائے رکھا جائے تو یہ ایسی صورت بھی اختیار کر جاتے ہیں جن سے المیے جنم لیتے ہیں۔ اس طرح کے المیے سے پچاس سال قبل ہم بحیثیت قوم گزر چکے ہیں اور ان زخموں سے آج بھی لہو رِس رہا ہے۔ معاشرتی طور پر پاکستان کی علاقائی ثقافتوں کے مابین ترقی کے لیے مکالمے کا عمل مفقود ہے۔ جب تک جمہوری اقدار اور جمہوری ادارے مضبوط نہیں ہوں گے‘ تب تک ثقافتی مکالمے کا بامعنی آغاز ممکن نہیں۔ ملک کی چھوٹی ثقافتی اکائیوں کے بارے میں جان کاری تو درکنار پاکستان کی چار بڑی اکائیوں کی ثقافت کے حوالے سے بے خبری کا عالم یہ ہے کہ 2008ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ایک بین الاقوامی دورے کے دوران سندھی ٹوپی پہنی تھی جس کے بعد الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا سے ان پر تنقید کی گئی کہ انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کے بجائے کسی ایک صوبے کی نمائندگی کیوں کی۔
کہا جا سکتا ہے کہ تنقید کرنے والے شاید اس بات سے لا علم تھے کہ سندھ پاکستان کا وہ صوبہ ہے جس کی اسمبلی نے پاکستان کے حق میں قرارداد پاس کی تھی لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کہ ذاتی پسند ناپسند کی وجہ سے ناقدین یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان کا صدر سندھ کا بھی صدر ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کے سرکاری وفود اگر مغربی لباس زیب تن کریں تو شناخت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن اگر سرکاری نمائندگی پاکستان کے کسی علاقائی ثقافتی لباس میں ہو تو شناخت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ ماضی میں میڈیا پر ہونے والی وہ بے جا تنقید ملکی فضا میں تناؤ کا سبب بنی تھی اور 2008ء سے ہر سال دسمبر میں سندھی ٹوپی کا دن منانے کا آغاز ہوا جسے اب سندھ کلچرل ڈے کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس طرح حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کی میٹنگ کے دوران انڈیا کے وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیر خارجہ کا استقبال اپنے روایتی انداز میں کیا تو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اسی روایتی انداز میں ایس جے شنکر کو جواب دیا۔ ان کے اس انداز کو پاکستان میں کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشان بنایا جانا یہ واضح کرتا ہے کہ تنقید کرنے والے پاکستان کے 30فیصد سے زیادہ رقبے پر آباد پاکستانیوں کے نتکو و برخاست کے آداب سے نابلد ہیں۔ صوبہ سندھ اور جنوبی پنجاب کی ثقافت میں ملاقات کے دوران یہی طریقہ صدیوں سے رائج چلا آرہا ہے۔
ان واقعات کا ذکر اس لیے ضروری تھا کہ ہم لاکھ کہیں کہ ہم ان تمام اکائیوں کی ثقافتوں‘ اقدار‘ تمدن سے بخوبی واقف ہیں جنہوں نے مل کر پاکستان بنایا تھا لیکن ایسا نہیں ہے اور پھر اس طرح کی تنقید جب پڑھے لکھے طبقے کی طرف سے کی جاتی ہے تب محسوس ہوتا ہے کہ اس نکتے کے پیش نظر ہر سطح کے تعلیمی نصاب اور ہم نصابی سرگرمیوں پر مزید توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ابھی باقی ہے۔
پاکستان کی بنیاد رکھنے والے متنوع ثقافتوں سے تعلق رکھتے تھے جن کو باہم جوڑنے والا عنصر مذہب تھا اور ہے۔ تاسف اس بات کا ہے کہ ہم نے کبھی بھی پاکستان کے اس خوبصورت ورثے کو اپنی طاقت بنانے کے لیے استعمال کرنے کا سوچا ہی نہیں۔ پاکستانی معاشرہ متنوع ثقافتوں سے مل کر بنا ہے۔ بلوچستان پر نظر ڈالیں‘ سنگلاخ چٹانوں اور خوبصورت ساحلِ سمندر کے حامل اس صوبے کے باسی ملنسار‘ مہمان نواز‘ سادہ بودوباش کے پر وردہ ہیں۔ بلوچستان کا عام آدمی بھی کم از کم سات زبانیں (بلوچی‘ براہوی‘ پشتو‘ فارسی‘ اردو‘ سندھی‘ دری ) باآسانی بولتا و سمجھتا ہے۔ متنوع ثقافتوں کے اسی باہمی ملاپ نے بلوچستان کے لوگوں کی روز مرہ کی زندگی میں جیو اور جینے دوکے عنصر کو نمایاں کیا ہے۔ سیاسی انجینئرنگ اور گروہوں کے مفادات نے وہاں کی فضا کو خراب کیا‘ جس کی وجہ سے عام آدمی پریشان ہے۔ صوبہ سندھ کی طرزِ معاشرت پر صوفیانہ رنگ حاوی ہے۔ سندھ کے لوگ سندھی زبان کے علاوہ سرائیکی‘ اردو‘ بلوچی‘ پنجابی زبانیں بہ آسانی سمجھتے اور بولتے ہیں۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب کا شمار 3300 قبل مسیح سے 1700قبل مسیح تک قائم رہنے والی انسان کی چند ابتدائی تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ اجرک‘ ٹوپی اور بسنتی رنگ ثقافتی تہوار میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پنجاب‘ خیبرپختونخوا‘ کشمیر اور گلگت بلتستان تک جا بہ جا ثقافت کے متنوع رنگ موجود ہیں جو مل کر ایک شناخت بناتے ہیں۔ ملک میں بسنے والی مختلف کمیونٹیز کے بارے میں جانے بغیر ان پر لب کشائی اس امر کی غماز ہے کہ ہمارے معاشرے میں ثقافتی سطح پر مکالمہ نہیں ہو رہا۔ مکالمہ زیادہ سماجی ہم آہنگی‘ باہمی احترام اور پر امن بقائے باہمی کے لیے اہم ہے۔ جب مختلف ثقافتی پس منظر سے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ منفرد نقطۂ نظر‘ تجربات و مشاہدات بھی لاتے ہیں۔ سوچ کا یہ تنوع مسائل کا اختراعی حل‘ کاروبار اور تخلیقی اظہار کو متاثر کرتا ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں کے لیے معاون ماحول کو فروغ دے کر ملک کے ثقافتی تنوع کو تحریک اور ترقی کے ایک میڈیم کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ثقافتی تبادلے اور دیگر ممالک کے ساتھ تعاون و ثقافتی سفارتکاری کے ذریعے پاکستان کا یہ متنوع ورثہ نہ صرف ملک کے امیج کو بہتر بنانے کا زبردست محرک ثابت ہوگا بلکہ پاکستان کا یہ ثقافتی تنوع عالمی سطح پر تعاون کے لیے ایک پُر وقار گیٹ وے بن سکتا ہے۔